تعارف و انتخاب: تصنیف حیدر
ورشا گورچھیا کی عمر قریب اٹھائیس برس ہے۔وہ اس نسل سے تعلق رکھتی ہیں، جس نے دیوناگری میں اردو شاعری کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے، اردو ہندوستان میں اس وقت ایک چمکیلی اور چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی زبان کے طور پر معروف پروڈکٹ ہے، جس کو عام طور پر ‘شیریں زبان’ کے طور پر بہت مشہور کیا جاتا ہے۔ اردو کی نئی نسل میں سنجیدہ شاعری اور ادب تخلیق کرنے والوں کی کمی ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے زیادہ تر غزل میں عشق و عاشقی کے فرسودہ روایتی سانچے میں ڈھال کر شعر بنانے والی مشین سمجھا جانے لگا ہے، مگر اسی نئی نسل میں نظمیں لکھنے والے کچھ ذہن بیدار ہوئے ہیں، میرا تعارف ورشا گورچھیا اور گیتانجلی رائے سے ہے، یہ دونوں نظمیں لکھنے والی شاعر ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ نظم میں انہوں نے براہ راست کسی شاعر سے تاثر بھی قبول نہیں کیا ہے اور یہ اپنے اسلوب اور مضامین کی تلاش میں اس دشت میں اچانک پھوٹنے والے چشمے کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ورشا گورچھیا کا تعلق ہریانہ کی سرزمین سے ہے، خشک مزاج، جاٹ برادری اور روایتی بھارت کی آئنہ دار اس سخت گیر مذہبی و سماجی دنیا میں ورشا نے بغاوت کے بیج بوئے ہیں،پچھلے کئی برسوں سے دہلی میں تنہا رہ رہی ہیں ۔ سفر کے شوق اور زندگی کے مشاہدے نے انہیں بہت کچھ عطا کیا ہے، انہوں نے لوگوں کی زندگیوں میں جھانکا ہے، ایک بے تکلف مزاج اور بے پروا اور بے خوف رویے کی وجہ سے ان کی شخصیت ہی ان کی شناخت بنتی جارہی ہے۔شاعری انہوں نے اس دور میں شروع کی تھی، جب انہیں علم ہی نہیں تھا کہ وہ جو کچھ لکھ رہی ہیں، اسے دنیا نظم یا کویتا کے نام سے جانتی ہے، مگر حیرت انگیز طور پر یہ نظمیں زبان و بیان اور مضامین و اسلوب کی سطح پر اپنے بہت سے ہم عمروں سے مختلف اور معیاری تھیں۔ورشا نے اپنی شاعری میں ایک تخلیقی و استعاراتی جنگل اگایا ہے، اور یہ جنگل دشت کے بجائے ان کے گھر آنگن میں اگا ہوا نظر آتا ہے، انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی اور ان کی تنہائی کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے، انسانی کرب کے ہمراہ زندگی کی رنگینی اور اس میں گھلے ہوئے عجیب و غریب تیوروں کو انہوں نے سطروں کا لباس پہنایا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ علم کی رمق اور تجربے کی دبازت ان کی نظموں کے اس جنگل کو مزید گھنا اور پراسرار بناتی رہے گی اور وہ وقت کے ساتھ اپنی اس وحشت میں اضافہ کرتی جائیں گی، جن کے بطن سے یہ نظمیں پھوٹتی ہیں، اگر ایسا ہوا تو ہم سب دیکھیں گے کہ اردو ادب کو ایک اچھا اور بڑا نظم نگار میسر آیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
یہ میری آنکھیں
میری خوفزدہ نظموں کی
ٹوٹتی سانسوں کے گمنام
سلسلے کے علاوہ کچھ نہیں
تم جو آنسوؤں کی باریک
ردا سے جھانکنا چاہتے ہو
ذرا دور سے ہی دیکھو
کہیں دشت در دشت
کہراتی سی، سسکتی سی
کرب میں ڈوبی نظموں کی
بے کراں دلدل میں نہ دھنس جاؤ
۔۔۔
نظم
میرے گلابی دوپٹے
کی دہکتی مسکراہٹ
نے کئی زخم خوردہ داستانوں
کے ننگے جسموں کو
اپنی آغوش میں لپیٹا ہے
۔۔۔
نظم
میں اس سے ٹھیک ویسے ہی ملی
جیسے باقی سبھوں سے
اجنبی چہروں کے پرہول
جنگل میں
سہمے سے سمٹے سے اس دل کی
تنگ و تار گلیاں پار کر
وہ مسکراتا سا دلفروز
چہرہ
مخملی نرم لہجہ
محجوب سا سرسراہٹ بھرا وہ لمس
میرے جاننے والوں میں سے
میری جان میں کب اتر گیا
مجھے اس نے خبر بھی نہ دی
۔۔۔
نظم
تیری آغوش کا گلابی
مہکتا امکان
شام ہی سے تیرے پہلو سے اتر کر
میری گود میں سر جھکائے بیٹھا ہے
میرے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے بیچ
پانچ مہاساگر جمے ہوئے ہیں
اور ہتھیلی میں جما ہے
بے چین بھوکا بوسیدہ کہرا
کوئی ایک صدی پرانا
وہ اسی شام کے انتظار میں تھا
جو آج میرے نصیب میں مسکرائی ہے
تیرے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے
برستی گرم خواہشوں نے
مجھے ماضی نے آئندہ کے
ٹھیک بیچ، اببھی کی دہلیز پر
لاکر زندہ کیا ہے
۔۔۔
نظم
خموشی دکھتی ہے
لکھو تو گچھے سے گچھے بنتے ہیں
باتوں کے،
درد دھڑکنے لگتے ہیں،
گانٹھیں گتھنے لگتی ہیں آنسوئوں کی،
کوئی احساس جونک سا
سینے میں گھس جاتا ہے،
اور بائیں طرف جو مانس کا
لوتھڑا ہے نا،
اس کا برف سا خون اب ابلنے لگتا ہے
قفس کانپنے لگتا ہے
انگلیاں سن پڑ جاتی ہیں
آنکھوں میں یادوں کے جال لگنے لگتے ہیں
ذہن جیسے گھس سا گیا ہو
سانسوں کا ابال گھٹن سے پھٹنے لگتا ہے،
پریم آپ کی نسوں کو نچوڑ
روح کو بے بس کردیتا ہے
عجیب کھنچائو ہونے لگتا ہے،
بازوئوں کو توڑ دینے کا جی چاہتا ہے
جونک سینے کو چیر انتڑیوں کو بھیدتی ہوئی
پنڈلیوں تک پہنچ جاتی ہے تکلیف
یوں۔۔۔۔۔بہت تکلیف
تکلیف۔۔۔۔۔اف۔۔۔۔۔
یوں کسی لمحے کی جان نکل جاتی ہے
۔۔۔
کاربن پیپر
سنو نا
کہیں سے کوئی
کاربن پیپر لے آؤ
خوبصورت اس وقت کی
کچھ نقلیں نکالیں
کتنی پرچیوں میں
جیتے ہیں ہم
لمحوں کی بیش قیمتی
رسیدیں بھی تو ہیں
کچھ تو حساب
رکھیں ان کا
قسمت
پکی پرچی تو
رکھ لے گی زندگی کی
کچھ کچی پرچیاں
ہمارے پاس بھی تو ہوں گیں
کچھ نقلیں
کچھ رسیدیں
لکھائیاں کچھ
مٹھیوں میں ہوں
تو تسلی رہتی ہے
سنو نا
کہیں سے کوئی
کاربن پیپر لے آؤ
۔۔۔
سنکری سی گلی
سنکری سی اس گلی میں
دونوں طرف ہزاروں جذبات کی
کھڑکیاں کھلتی ہیں
جگنو ٹمٹماتے ہیں
روئی کے پھاہوں سے لمحے تیرتے ہیں
تتلیوں کے پنکھوں کا سنگیت گھلتا ہے
ریشمی لفظوں کی خوشبو مہکتی ہے
سنکری سی اس گلی میں تیری آنکھوں سے
میرے دل تک جو پہنچتی ہے
۔۔۔
کانہا
(کرشن جی کا نام)
آؤ نا کسی دن
یمُنا کنارے
کبھی کسی بڑ
یا پیپل پر چڑھیں
کوئی پیلا سا آنچل
کیوں نہیں دیتے سوغات میں
مجھے بھی
دور دور چلیں چراگاہوں میں
کھیلیں مل کر دونوں
میٹھا سا راگ
کیوں نہیں سناتے مجھے
کبھی تو ستائو
کبھی تو مٹکی پھوڑو
چرا لو مکھن کبھی تو
کانہا کہاں ہو تم
آؤ نا
راس لیلا کرو
کبھی میرے ساتھ بھی
۔۔۔
سہیلی
کس دھن میں رہتی ہو تم
الجھے ہوئے بالوں کی گرہیں
تم سے نہیں سلجھتیں کیا؟
لائو انہیں میں سلجھا دوں
اون کے الجھے گچھوں سے
یہ بال تمہارے
سلجھیں تو ریشم ہوجائیں
اور بالوں کو سلجھانے کے بہانے
جیون کی الجھن سلجھائوں
گھنے بنوں میں شنکھ بجائوں
اور تتلی بن کر اڑ جائوں
شاخوں کو میں رقص دکھائوں
ایک آغاز کی نائو بنائوں
تجھ کو دور بہا لے جائوں
اور تیرے دکھ کی ورشا میں
انتس من تک بھیگتی جائوں
آ اجنبی سی لڑکی
میں تیرے بچپن کی سہیلی ہوجائوں
۔۔۔
خیال تیرے
خیال کچھ یوں بلکتے ہیں سینے میں
جیسے گناہ پگھلتے ہوں
جیسے لفظ چٹکتے ہوں
جیسے روحیں بچھڑتی ہوں
جیسے لاشیں پھنپھناتی ہوں
جیسے لمس کھردرے ہوں
جیسے لب دردرے ہوں
جیسے کوئی بدن کترتا ہو
جیسے کوئی سمن کچرتا ہوں
خیال تیرے کچھ یوں بلکتے ہیں سینے میں
۔۔۔
دعا
میں نظمیں نہیں کہتی
میں دعائیں لکھتی ہوں
درد کی کرچیں چنتی ہوں
تیرے پیروں کی انگلیاں سہلاتی ہوں
ماتھے سے باہوں کے بیچ
ایک چاند تیرے نام کرتی ہوں
ہونٹوں پہ اٹکے کانچ کے ٹکڑے چوم کر
خواہشیں کہتی ہوں
تیرے بائیں حصے پہ ہاتھ رکھ کر
کچھ سنسناہٹ اپنی نسوں میں بھرتی ہوں
اور انگلی سے آسمان پر
میں تیرے لیے دعائیں لکھتی ہوں
۔۔۔
دوسری رات
یہ رات بھی یونہی گزر رہی ہے
کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹتے ہوئے
تمہارے جانے کے بعد
تمہاری چہل قدمیاں گھومتی رہتی ہیں دل کے آنگن میں
گونجتی رہتی ہیں تمہاری سرگوشیاں میرے کانوں میں
بستر کی سلوٹیں منہ چڑانے لگتی ہیں
اس بار سگریٹ کے جلے ہوئے ٹکڑوں پر محسوس کرتی ہوں
تمہارے ہونٹوں کا لمس
ادھر ادھر بکھرے ہوئے تمہاری باتوں کے ڈھیر
چائے کی جھوٹی پیالیاں
ایک ایک کو اٹھاتی ہوں اور رکھتی جاتی ہوں
یادوں کی الماری میں
جس میں پہلے ہی سے موجود ہیں
تمہاری مسکراہٹوں کی گٹھریاں
بالکنی سے جھانکتا ہوا چاند
مہکتی ہوئی رات کی رانی
کتنا کچھ سمیٹنا باقی ہے ابھی
میرے ماتھے پر تمہارے ہونٹوں کا لمس
تمہارے نام کا ورد کرتی ہوئی دھڑکنیں
تھک کر چور ہوگئی ہوں خود کو سمیٹتے ہوئے
اور آسمان پر چمکتا ہوا آخری ستارا بھی
اس بار ڈوب جانا چاہتا ہے میرے ساتھ
تمہاری یادوں کے بے کراں سمندر میں
Image: Gogi Saroj Pal