جب ایشیا سرخ ہورہا تھا تو راولپنڈی کے اصلی حکمرانوں کو “سیاسی قبض” ہونے لگی۔ یو ایس ایس آرکے عوامی انقلاب کے اثرات جب چین کی سرحد تک پہنچنے لگے، تو ملک پر قابض استحصالی قوتوں نے پاکستان میں جعلی کمیونسٹ پیدا کرنا شروع کردیئے جنہوں نے اشتراکی انقلاب کے نام پر عوام کو خوب بے وقوف بنایا۔ ان میں اکثر ایسے ‘کمیونسٹ’ بھی شامل تھے جو پہلے جنرل ضیا الحق سے بریفنگ لے کر ماسکو جاتے تھے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے صرف مجاہدین اور سیاسی لیڈر ہی پیدا نہیں کئے بلکہ اشتراکیت پسند اور حقیقی انقلابی تحریکوں کو کمزور کرنے کیلئےنام نہاد قوم پرست بھی پیدا کئے جن کا مقصد ان تحریکوں کو کھوکھلا کرنا تھا۔ انہی قوتوں کے کہنے پر ملک کی جمہوری اور حقیقی قیادت بشمول فاطمہ جناح پر غدار اور کافر کے ٹھپے لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے قومی ہیرو نیلسن منڈیلا سے زیادہ عرصہ قومی و جمہوری حقوق کیلئے جیلوں میں گزارنے والے خان عبداالصمد خان اچکزئی اور خان عبد الغفار خان (جنہوں نے تیس اور تینتیس سال انگریز اور پاکستانی حکومتوں کی جیلوں میں گزارے) غدار ٹھہرے جبکہ وہ لوگ جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح ” کھوٹے سکے” کہا کرتے تھے وہ قومی ہیرو کے طور پر پیش کیے گئے۔
جب افغانستان میں جمہور کی حکمرانی اور بعد میں نور محمد ترکئی کی سربراہی میں عوامی انقلاب آیا تو اس انقلاب سے پاکستان کے عوام اور نوجوان بھی متاثر ہوئے۔ افغانستان میں سوویت اثرونفوذ اور پاکستانی نوجوانوں میں بائیں بازو سے وابستگی کم کرنے کے لیے مجاہدین اور ملا بنائے گئے۔ افغانستان میں ثور انقلاب کے اثرات پاکستانی پشتونوں پر بھی ہوئے جس کی وجہ سے پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پشتون علاقوں میں ترقیاتی کام شروع کردیئے۔ یہ ثور انقلاب کے ہی ثمرات تھے کہ ان علاقوں میں پہلی بارہماری حکومت نے بجلی کے کھمبے اور تار بچھانے شروع کیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہاں سے افغان انقلاب کے خلاف سازشوں اور مجاہدین کی شکل میں مداخلت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ اس خطے میں سیاسی شعور کا راستہ روکنے کےلیے مقتدر قوتوں نے تعلیم، سیاسی عمل اور تاریخ کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جب افغانستان میں جمہور کی حکمرانی اور بعد میں نور محمد ترکئی کی سربراہی میں عوامی انقلاب آیا تو اس انقلاب سے پاکستان کے عوام اور نوجوان بھی متاثر ہوئے۔ افغانستان میں سوویت اثرونفوذ اور پاکستانی نوجوانوں میں بائیں بازو سے وابستگی کم کرنے کے لیے مجاہدین اور ملا بنائے گئے۔ افغانستان میں ثور انقلاب کے اثرات پاکستانی پشتونوں پر بھی ہوئے جس کی وجہ سے پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پشتون علاقوں میں ترقیاتی کام شروع کردیئے۔ یہ ثور انقلاب کے ہی ثمرات تھے کہ ان علاقوں میں پہلی بارہماری حکومت نے بجلی کے کھمبے اور تار بچھانے شروع کیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہاں سے افغان انقلاب کے خلاف سازشوں اور مجاہدین کی شکل میں مداخلت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا۔ اس خطے میں سیاسی شعور کا راستہ روکنے کےلیے مقتدر قوتوں نے تعلیم، سیاسی عمل اور تاریخ کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
افغانستان میں ثور انقلاب کے اثرات پاکستانی پشتونوں پر بھی ہوئے جس کی وجہ سے پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار پشتون علاقوں میں ترقیاتی کام شروع کردیئے۔
.ملک کے اندر انقلاب کا راستہ روکنے کےلیے جی ایچ کیو نے سیاستدانوں کی نرسریاں لگائیں۔ سندھی قوم پرستوں کو کمزور کرنے کے لیے سندھ میں ایم کیو ایم، جنوبی پنجاب میں جعلی کمیونسٹ، بلوچوں میں نواب اور سرداری نظام کی سرپرستی اور پشتونوں میں رائیونڈ کے تبلیغی، مدرسہ اور مولوی مختار کُل بنا دیئے گئے۔ بنگلہ دیش اور ملک کی دیگر اقوام بالخصوص سندھی قوم پرست سیاست کو کمزور کرنے کےلیے سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو جو ایوب خانی مارشل لاء کی پیداوار تھے، کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اور نیا پاکستان کی طرح اُس وقت بھی “روٹی، کپڑا اور مکان: کا خوشنما نعرہ لگایا گیا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پیپلز پارٹی اور سندھی نیشنلزم کو قابو کرنے کیلئے مہاجروں کا خوب استعمال کیا گیا۔ لیکن ارباب اختیار نے اپنے ہی تراشے ہوئے مہروں کو بعدازاں اپنے مفادات کے لیے ہی نظرانداز کرنا شروع کردیا۔ 1992 میں مہاجروں پر اتنے مطالم ڈھائے گئے کہ وہ پہلے سے زیادہ مظلوم اور محروم طبقہ بن گئے۔ مہاجروں کی طرح پشتونوں کی قومی سیاست کو پارہ پارہ کرنے کیلئے تخت لاہور کے وارث عسکری حکمرانوں نے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کو مسجد سے نکال کر مسلط کردیا تاکہ قوم پرست سیاست کے اثرات دور کیے جا سکیں۔ اسی طرح پوری پشتون معاشرہ ان مذہبی ٹھیکے داروں کے حوالے کردیا گیا۔
جرگہ،مسجد ، حجرا حتٰی کہ کھیل کے میدان استعماری مقاصد کے حصول کےلیے تباہ کیے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سیاسی و قبائلی لیڈروں اور کارکنوں کا مذہب اور دہشت گردی کے نام پر قتل عام کیا گیا، سوات اور فاٹا کے بیس لاکھ سے زائد لوگوں کو پہلے مہاجر بنایا گیا بعد میں اُن کے گھر مسمار کرکے انہیں ہمیشہ کےلیے اپنا محتاج بنادیا گیا ہے۔ آج ایک بار پھر تخت لاہور والوں نے عمران خان اور نواز شریف کے درمیاں ایک جعلی سیاسی مقابلہ شروع کیا ہواہے جس کے نتیجے میں مستقبل میں پاکستان پر حکمرانی کرنے والےاور حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والے دونوں تخت لاہور سے ہوں گے۔ اس طرح سیاست کو بدنام کرنے اور لوگوں کو سیاست اور سیاست دانوں سے بدظن کرنے کےلیے پی ٹی آئی کے ذریعے گالی گلوچ کا کلچر متعارف کرایا۔
مہاجروں کی طرح پشتونوں کی قومی سیاست کو پارہ پارہ کرنے کیلئے تخت لاہور کے وارث عسکری حکمرانوں نے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کو مسجد سے نکال کر مسلط کردیا تاکہ قوم پرست سیاست کے اثرات دور کیے جا سکیں
اس ملک میں کسی زمانے میں منٹو جیسے ادیب، حبیب جالیب جیسے شاعر، باچا خان، مولانا بھاشانی، عبدالصمد خان اچکزئی، جے ایم سید، پنجاب سے محمود قصوری، خیر بخش مری جیسے سیاست دان ہوتے تھے۔ یہ لوگ اصولوں کے پکے، اخلاق کے علمبردار اور عوام کے سچے نمائندے تھے۔ اب قحط رجال کا یہ عالم ہے کہ آئی ایس آئی کے گملوں میں پھلنے پھولنے والے دو نمبر سیاستدان اپنے سیاسی قبلے کے تعین کے لیے بھی امپائر کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ نیا پاکستان کا نعرہ بھی انہی مقتدر حلقوں کے سیاسی پراجیکٹ کا تسلسل ہے یعنی جب پاکستان کے موجودہ نظام میں نئی نسل گھٹن محسوس کرے تو انہیں ایک اور کھلونا تھما دیا جائے۔ نوجوان نسل میں احساس محرومی بڑھ رہا تھا، پاکستانی عوام فوج اور اُن کے پیدا کردہ سیاسی، مذہبی اور دیگر قوتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کےلیے کسی سیاسی متبادل کے منتظر تھے تو انہیں نئے پاکستان کی راہ دکھا دی گئی۔ لوگ یہ چاہتے تھے کہ کسی متبادل سیاسی قوت کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ملک میں حقیقی جمہوری انقلاب رونما ہوگا اور تبدیلی آئے۔ تبدیلی کی اس خواہش اور حقیقی عوامی انقلاب روکنے کےلیے راولپنڈی کے ‘حقیقی’ حکمرانوں نے پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں نیا پاکستان اور انقلاب کے نعرے لگوائے۔ عسکری ارباب اختیار نےسدھائے ہوئے میڈیا کے ذریعے اس نعرے اور پی ٹی آئی کو اتنا مقبول بنایا کہ نوجوان جو مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور قوم پرست سیاسی جماعتوں سے نالاں تھے بڑے پیمانے پر منظم ہونے کی بجائے پی ٹی آئی کے خوشنما نعرے کا شکار ہو گئے۔ میرے خیال میں نیا پاکستان پرانے پاکستان سے زیادہ استحصالی اور نظرانداز شدہ قومیتوں کے لیے زیادہ تنگ نظر ہے۔
تحریک انصاف کا یہ دعویٰ کہ نوجوان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ عالمگیریت اور پاکستانی استعماری پالیسیوں کے وجہ سے جوانوں میں احساس محرومی بڑھنےکے باعث تبدیلی کا خواب پاکستانی نوجوان بھی دیکھ رہے تھے۔ مصر، تنزانیہ اور دیگر عرب ملکوں میں عرب بہارنے پاکستانی نوجوانوں میں بھی انقلابی جدوجہد کے امکانات روشن کر دیئے بالخصوص پشتون نوجوانوں میں جو ریاست کی پشتون دشمن پالیسیوں سے نالاں نظر آ رہے تھے۔ سوات، پشتونخوا اور کراچی میں اسٹیبلشمنٹ کے پیدا کردہ اچھے اور برے طالبان، مدرسہ کلچر اور مذہبی انتہا پسندی سے تنگ یہ جوان کسی حقیقی انقلاب اور قائد کی تلاش میں تھے۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی بجائے پشتون قوم پرست جماعتوں نے مکمل غیر ذمہ داری اور نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس صورتحال سے اسٹبلشمنٹ نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان تحریک انصاف کی سرپرستی شروع کر دی اور نوجوانوں کی ذہنیت کے مطابق “تبدیلی”اور”نیا پاکستان” جیسے پُرکشش نعرے دیئے۔ اس طرح نوجوان ایک بار پھر حقیقی انقلاب کی بجائے جعلی و خوشنما نعرے لگانے والوں کے نرغے میں آگئے اورپاکستان میں حقیقی جمہوری انقلاب ایک بار پھر کھٹائی میں پڑگیا۔