رفاقت حیات کے ناول ‘میر واہ کی راتیں‘ کی دیگر اقساط پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔
صبح کو چاچی خیرالنسا اس کی چارپائی کے پاس کھڑی ہو کر اسے جگانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس نے گنگناتے ہوئے دھیمے لہجے میں دو تین مرتبہ اس کا نام پکارا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی گہری نیند پر وہ حیرت سے کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ وہ لحاف اوڑھے اوندھے منھ بستر پر سو رہا تھا۔ اس کا جسم مکمل طور پر بے حس تھا اور اس کی اکھڑی ہوئی، بے ترتیب سانسوں کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ آخر تنگ آ کر چاچی نے اس کے چہرے سے رضائی اْتار دی۔ اس کی آنکھیں زور سے مندی ہوئی تھیں اور اس کے ہونٹ آپس میں ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے۔
وہ اس کے ہونٹوں کی سرخی کو اچھی طرح جانتی تھی کیونکہ اکثر خوابوں میں وہ اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم چکی تھی۔ مگر اس وقت وہ اس کے ہونٹوں کی نیلاہٹ دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ چاچی نے جھجکتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا، پھر اس کے گالوں اور ہونٹوں کو مس کیا۔ اسے اس کی پیشانی، گالوں اور ہونٹوں سے خفیف سی گرم لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ا س نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور گھبرائی ہوئی کمرے کے دروازے سے اندرجھانکنے لگی۔
وہ اس کے ہونٹوں کی سرخی کو اچھی طرح جانتی تھی کیونکہ اکثر خوابوں میں وہ اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم چکی تھی۔ مگر اس وقت وہ اس کے ہونٹوں کی نیلاہٹ دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ چاچی نے جھجکتے ہوئے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا، پھر اس کے گالوں اور ہونٹوں کو مس کیا۔ اسے اس کی پیشانی، گالوں اور ہونٹوں سے خفیف سی گرم لہریں اٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ا س نے فوراً اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور گھبرائی ہوئی کمرے کے دروازے سے اندرجھانکنے لگی۔
اس دوران صحن اور برآمدے میں روشنی پھیل گئی تھی۔ اس نے پڑوسیوں کی چھت پر گرتی سورج کی شعاعوں کو دیکھا تو جلدی سے مصلیٰ بچھا کر نماز قضا کر کے پڑھنے لگی۔
اس کا شوہر وہاں گہری نیند سو رہا تھا۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد وہ دوبارہ نذیر کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہو گیا ہے۔ اس نے جھک کر اس کے کندھے کو دھیرے سے ہلایا مگر اس مرتبہ بھی اس نے کوئی جنبش نہ کی۔
اس نے فکرمندی سے آس پاس نظر دوڑائی اور صحن میں بڑھتی ہوئی روشنی کو دیکھا۔ فجر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ اس نے نذیر کو اس کے حال پر چھوڑا اور خود دیوار پر کیل میں لٹکا ہوا مصلّیٰ اتار کر اسے زمین پر بچھانے لگی۔
ابھی اس نے مصلیٰ بچھایا ہی تھا کہ اسے نذیر کے منہ سے نکلتی بے معنی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے جسم نے اضطراب سے ایک کروٹ لی اور اس کا لحاف اس کے جسم سے اتر کر نیچے جا گرا۔
اس نے فکرمندی سے آس پاس نظر دوڑائی اور صحن میں بڑھتی ہوئی روشنی کو دیکھا۔ فجر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا تھا۔ اس نے نذیر کو اس کے حال پر چھوڑا اور خود دیوار پر کیل میں لٹکا ہوا مصلّیٰ اتار کر اسے زمین پر بچھانے لگی۔
ابھی اس نے مصلیٰ بچھایا ہی تھا کہ اسے نذیر کے منہ سے نکلتی بے معنی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے جسم نے اضطراب سے ایک کروٹ لی اور اس کا لحاف اس کے جسم سے اتر کر نیچے جا گرا۔
اس دوران صحن اور برآمدے میں روشنی پھیل گئی تھی۔ اس نے پڑوسیوں کی چھت پر گرتی سورج کی شعاعوں کو دیکھا تو جلدی سے مصلیٰ بچھا کر نماز قضا کر کے پڑھنے لگی۔
اس نے جیسے تیسے نماز ختم کر کے یہ فرض ادا کیا۔ اس کے بعد اس نے کمرے میں جا کر اپنے شوہر کو نیند سے جگایا اور خود باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔
کچھ دیر کے بعد غفور کھانستا ہوا صبح کی چائے پینے کے لیے باورچی خانے میں آیا تو وہ اسے نذیر کی صحت کے بارے میں بتانے لگی۔ “پتا نہیں آج اسے کیا ہو گیا ہے۔ میں نے کئی دفعہ اسے جگایا مگر ایک بار بھی اس کی آنکھ نہیں کھلی۔”
جب وہ دونوں چائے پی چکے تو اٹھ کر برآمدے میں سوئے ہوئے نذیر کے پاس گئے۔ چاچی ذرا پیچھے ہٹ کر فاصلے پر کھڑی ہو گئی جبکہ غفور اپنے بھتیجے کو جگانے میں مصروف ہو گیا۔ جھنجھوڑے جانے پر نیند کے عالم میں اس کا بدن کسمسایا اور اس نے عجیب انداز سے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ان دونوں کو تکنے لگا۔
“کیا بات ہے نذیر؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” غفور چاچا نے فکرمندی سے پوچھا۔
“کیا بات ہے نذیر؟ تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” غفور چاچا نے فکرمندی سے پوچھا۔
“ہاں، میں ٹھیک ہوں۔” وہ آنکھیں مسلتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کے اٹھ کر بیٹھنے پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔
“جوانی کی نیند بہت دیوانی ہوتی ہے،” چاچے نے شرارت آمیز نظر سے اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
نذیرانگڑائی لے کر اٹھنے کے بعد کچھ دیر ٹانگیں لٹکائے اور سر جھکائے بیٹھا رہا۔ پھر چارپائی سے اٹھتے ہوئے بڑبڑایا: “پتا نہیں کیوں، آج میرے جسم میں درد ہو رہا ہے۔” اس کی آنکھیں گہری سرخ ہو رہی تھیں اور اس کا چہرہ کمزور لگ رہا تھا۔
“اچھا، آج تْو گھر پر آرام کر لے۔ دکان میں چلا جاتا ہوں،” غفور چاچا نے تشویش سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک ہے،” جواب دیتے ہوئے وہ غسل خانے کی طرف چلا گیا۔
“ٹھیک ہے،” جواب دیتے ہوئے وہ غسل خانے کی طرف چلا گیا۔
اس کے منہ کا ذائقہ شاید کل رات چرس پینے کی وجہ سے اب تک کڑوا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی سی پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اس کا حلق اس طرح سوکھ رہا تھا جیسے اس نے کئی دن پانی پیے بغیر طویل مسافت طے کی ہو۔
واپس آ کر نذیر دوبارہ چارپائی پرلیٹ گیا۔ اس کے سر میں تیز درد ہو رہا تھا۔ اس کے منہ کا ذائقہ شاید کل رات چرس پینے کی وجہ سے اب تک کڑوا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی سی پپڑی جمی ہوئی تھی۔ اس کا حلق اس طرح سوکھ رہا تھا جیسے اس نے کئی دن پانی پیے بغیر طویل مسافت طے کی ہو۔ وہ لحاف میں دبکا ہوا اپنی اس عجیب حالت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کل شب کے لذت بھرے واقعے کی وجہ سے اس کے بدن کو سبک اور لطیف ہونا چاہیے تھا، مگراس وقت اس کے بدن کا عضو عضو درد سے اینٹھ رہا تھا۔ اس کے باوجود اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اسے باربار شمیم کے ہونٹوں کی نرمی یاد آ رہی تھی۔ وہ حیرانی سے سوچ رہا تھا۔ شب کے تیسرے پہر اس مہربان عورت کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک زمین پر گھٹنے ٹیکے، اسے جاتے ہوئے تکتا رہا تھا۔ اس وقت اس نے اپنے آپ کو وہ زمین خیال کیا تھا جس کی چھاتی پر پاؤں دھرتی ہوئی وہ جس طرف سے آئی تھی اسی طرف واپس لوٹ گئی۔ رات میں فضا سے گرنے والی اوس نے نہ صرف اس کے کپڑوں کو گیلا کیا تھا بلکہ زمین پر اگی ہوئی گھاس کا سبز رنگ بھی ان پر لگ گیا تھا۔ اس وقت وہ خوف کی جگہ سخت اذیت میں مبتلا تھا۔ اس کے پیٹ میں عجیب سے مروڑ اٹھ رہے تھے اور اس کی ٹانگوں سے جیسی ساری جان نکل گئی ہو۔ مسکراتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ سے کہا، “ایسی حسین اور دل ربا رات کی خاطرایسی لاکھ اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں تو کر لینی چاہییں۔ اس سخی عورت کی وجہ سے آخر میری انگلیوں نے پہلی بار خالص نسوانی لمس کا ذائقہ چکھا ہے اور میرے ترسے ہوئے ہونٹ بوسوں کی لذت سے ہم کنار ہوئے ہیں۔” اس نے ایک لذیذ سی آہ بھرتے ہوئے بستر پر کروٹ لی۔
کچھ دیر بعد چاچی خیرالنسا اس کے لیے چائے کا پیالہ ہاتھ میں لیے ہوئے چارپائی کے پاس آئی اور اسے مخاطب کر کے چائے پینے کے لیے کہا۔ نذیر نے اٹھ کر اس کے ہاتھوں سے چائے کا پیالہ لیتے ہوئے اپنی انگلیاں اس کے پورے ہاتھ کے ساتھ مس کیں۔ نذیر نے جرات سے اپنا سر اٹھا کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی نظریں جھکا دیں اور اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتی ہوئی فوراً چلی گئی۔ وہ گم سم ہو کر اس کے ہاتھوں سے بنی میٹھی چائے کی چسکیاں لینے لگا۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد چاچا غفور اسے ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لینے اور آرام کرنے کی تنبیہ کرکے گھر سے باہر چلا گیا۔
چاچی خیرالنسا اسٹیل کی تھالی میں اس کے لیے دو اُبلے ہوئے انڈے لے آئی۔ اس کی چارپائی پر اس کے قریب بیٹھ کر وہ انڈوں پر سے چھلکے اْتارنے لگی۔ اسے کام میں محو دیکھ کر وہ اپنی آنکھوں سے چاچی کا جسم ٹٹولنے لگا۔ وہ بھی اپنے لباس کی شکنوں سے بے نیاز تھی۔ معاً وہ انڈے چھیلتے ہوئے کہنے لگی، “مجھے لگتا ہے کہ تجھے بخار ہو گیا ہے۔ اور دیکھ! سردی کا بخار اچھا نہیں ہوتا۔ میں دن میں تین بارانڈے ابال کر تجھے کھلاؤں گی۔ تیرا چاچا دکان سے کسی کے ہاتھ مرغی کا گوشت بھی بھجوا دے گا۔ یخنی پی کر تیری صحت بہتر ہو جائے گی۔ سوتے میں تجھے اپنی رضائی کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ رضائی اترنے سے تجھے سردی لگ گئی ہے۔”
وہ انڈے کا ٹکڑا اپنے منہ میں رکھتے ہوئے بولا، “معاف کرنا چاچی، میری وجہ سے تجھے تکلیف اٹھانی پڑی۔ تیری پریشانی ختم ہونے کے بجاے بڑھ گئی۔ چاچا بھلاچنگا ہوا تو اب میں بیمار پڑ گیا۔”
صبح سے اب تک کی اپنی مصروفیت کا حال سنانے کے بعد چاچی نے اس سے کہا، “تْو آرام سے بیٹھ کر یہ کھا، میں تیرے لیے صحن میں چارپائی بچھا دیتی ہوں۔ تجھے دھوپ اچھی لگے گی۔ کام سے فارغ ہو کر میں تیرے سر کی مالش بھی کر دوں گی۔ “
“ہاں چاچی، واقعی میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔” وہ دل جمعی سے انڈے کھانے لگا۔ انڈے کا آخری ٹکڑا منہ میں رکھ کر وہ اٹھا اور تیز دھوپ میں جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر آسمان کی طرف دیکھا تو دیکھ نہیں سکا۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ لمبی سانسیں بھرنے لگا۔
اس نے چاچی خیرالنسا کو جھک کر چارپائی اٹھاتے ہوئے دیکھا تو دنگ رہ گیا۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے اچانک اس کا سر چکرایا۔ وہ صحن میں گرتے گرتے بچا۔
چارپائی کے صحن میں بچھتے ہی وہ تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ گہری نیند سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر آسمان کی طرف دیکھا تو دیکھ نہیں سکا۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ لمبی سانسیں بھرنے لگا۔
دو روز تک اس کا بخار نہیں اترا اور وہ گھر سے باہر نہ جا سکا۔
شمیم سے ملاقات کی یاد دھیرے دھیرے اس کے ذہن سے محو ہوتی جا رہی تھی۔ جب بھی اس ملاقات کا عکس اس کی نگاہوں میں جھلملاتا تو خودبخود چپکے چپکے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل جاتی اور وہ جلدازجلد صحت یاب ہونے کی خواہش کرنے لگتا۔
اسے غسل کیے ہوئے بھی تین روز گزر گئے تھے۔ اس کی گردن پر میل کی تہہ جم گئی تھی اور اسے اپنے بدن میں سوئیاں سی چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔
بخار کے پہلے روز تو وہ چاچی خیرالنسا کی خدمت سے بہت لطف اندوز ہوا۔ اسے کھاٹ پر اْبلے ہوئے انڈے، گرم یخنی اور چائے وغیرہ ملتی رہی۔ شام کو اس نے اس کے لیے خس خس کا حلوہ بھی تیار کیا۔ دوسرے دن چاچی سرسوں کے تیل سے اس کے سر کی مالش کرنے لگی تو وہ تلملا اْٹھا۔ اس کے بھاری ہاتھوں کی رگڑ اتنی تیز تھی کہ اس نے اس کی منّتیں کر کے اپنی جان چھڑائی۔ اسے حیرت ہوئی کہ جن ہاتھوں کو کئی مرتبہ اس نے چومنے کی خواہش کی تھی وہ درحقیقت کتنے سخت اور کٹھور نکلے۔
چارپائی پرلیٹے لیٹے وہ عاجز آ گیا تھا۔ کئی بار وہ اٹھ کر صحن میں چہل قدمی کرنے لگا اور دروازے کے پاس جا کر گلی میں بھی جھانکنے لگا۔
گھر میں رہتے ہوئے اس نے کسی معاملے پر بھی احتجاج نہیں کیا۔ وہ اپنی پیاری چاچی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نذیر کو سر کی مالش کروانا پسند نہیں تھا مگروہ زبردستی اس کے سر کی مالش کرتی رہی تھی۔ ایک مرتبہ تو نذیر کی صحت یابی کے لیے اس نے گیارہ دفعہ سورہ یٰسین بھی پڑھ ڈالی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کا سورج بھی غروب ہو چکا تھا اور اب آسمان پر پھیلی شفق بھی معدوم ہوتی جا رہی تھی۔ اسے اپنے معمولات کی یکسانیت پر وحشت سی ہونے لگی تھی۔ آج پورے تین دن ہو گئے تھے اور اس نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ اسے معلوم تھا، اس کے لیے نئی ملاقات کا سندیسہ لے کر نورل جوگی قصبے کی گلیوں اور چائے خانوں میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا ہو گا۔
اس کے دل میں چاچی کے لیے کینہ توز مخاصمت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ اچھی طرح جان گیا تھا کہ وہ اس کے سامنے کبھی بھی کھل کر اپنے جذبات کو ظاہر نہیں کرے گی۔ اس کے رویے میں ہمیشہ ایک پراسراریت رہے گی۔ وہ کبھی اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے گا کہ وہ آخر اس سے کس بات کی متقاضی تھی؟ وہ پورے ایک دن تک اس سے اس کے معمولی بوسے پر خفا رہی جبکہ مالش کے دوران وہ خود اپنا سینہ اس کی پیٹھ سے ٹکراتی رہی تھی اور اس پر خود ہی نادم بھی ہوتی رہی تھی۔
نذیر نے سوچا کہ شمیم تک رسائی کے بعد اسے غیرضروری چیزوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔ چاچی خیرالنسا کے معاملے میں اس کا جلد یا بدیر احساسِ گناہ سے دوچار ہونا طے ہو چکا تھا اور اس گناہ کے نتیجے میں خاندان بھر میں اس کا ذلیل و رسوا ہونا بھی طے ہو چکا تھا۔
نذیر نے سوچا کہ شمیم تک رسائی کے بعد اسے غیرضروری چیزوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔ چاچی خیرالنسا کے معاملے میں اس کا جلد یا بدیر احساسِ گناہ سے دوچار ہونا طے ہو چکا تھا اور اس گناہ کے نتیجے میں خاندان بھر میں اس کا ذلیل و رسوا ہونا بھی طے ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ڈھلتے ہی گھر کے دروازے پر تیز دستک ہوئی۔ نذیر نے جا کر کنڈی کھولی تو باہر کھڑا حیدری اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے جلدی سے بتایا کہ نورل جوگی پہلوان کے چائے خانے پر بیٹھا اس کا انتظار کر رہا ہے۔ نذیر کے دل میں نجانے کیا سمائی کہ وہ چاچی خیرالنسا کو بتائے بغیر اس کے ساتھ چل دیا۔
پہلوان دستی کے چائے خانے تک پہنچتے پہنچتے حیدری کی ساری چونچالی ختم ہو گئی اور وہ دل ہی دل میں اپنے دوست سے حسد کرنے لگا کیونکہ اس کی کسی عورت سے دوستی نہیں تھی۔
راستے میں حیدری نے اس سے چھیڑچھاڑ کرتے ہوئے شکایت بھی کی کہ وہ پچھلے کچھ دنوں سے اسے نظرانداز کر رہا ہے۔ وہ دراصل اب اس کے راز جاننا چاہتا تھا، مگر نذیر ہوشیار تھا، اس نے اسے عام سی باتیں بتا کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی۔ اس نے دوست کا دل رکھنے کی خاطر روکھے پھیکے انداز سے رات کی اپنی مہم کو بیان کیا۔ پھر اسے اپنی بیماری کے متعلق بتانے لگا۔
پہلوان دستی کے چائے خانے تک پہنچتے پہنچتے حیدری کی ساری چونچالی ختم ہو گئی اور وہ دل ہی دل میں اپنے دوست سے حسد کرنے لگا کیونکہ اس کی کسی عورت سے دوستی نہیں تھی۔
نذیر گھر میں اپنی تین دن کی اسیری سے نکل کر چائے خانے کے ماحول میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے رفیقوں سے درخواست کی کہ وہ قصبے سے باہر نکلنے والی سڑک پر چہل قدمی کے لیے اس کے ساتھ آئیں۔
وہ تینوں اپنی بے تکی باتیں کرتے ہوئے سڑک پر ٹہلنے لگے۔ سڑک پر واقع دکانیں کچھ دور تک جا کر ختم ہو گئیں۔ وہ تعلقہ ہسپتال کے قریب سے گزرے، پھر آگے چل کر ٹاؤن کمیٹی اور سیشن کورٹ کی عمارتیں آئیں۔ واٹرسپلائی کی اونچی ٹنکی تاریکی میں کسی دیو کی طرح کھڑی نظر آ رہی تھی۔ سڑک پر بجلی کے کھمبوں میں بلب نہیں تھے۔
نورل جوگی اپنی اندھی عقیدت کے جوش میں چند روز پیشتر گردونواح میں رونما ہونے والے ایک معجزے کا ذکر کرنے لگا۔ اس کے خیال میں یہ معجزہ قیامت کے نزدیک آنے کی علامت تھا۔
نورل جوگی اپنی اندھی عقیدت کے جوش میں چند روز پیشتر گردونواح میں رونما ہونے والے ایک معجزے کا ذکر کرنے لگا۔ اس کے خیال میں یہ معجزہ قیامت کے نزدیک آنے کی علامت تھا۔ وہ جوشِ عقیدت سے کہہ رہا تھا، “ہم ظالم لوگ ہیں، ظالم لوگ! سادات خاندان کے معصومین پر ہونے والے جبر کو چپ چاپ سہہ گئے۔ ہم باطل کی آواز میں آواز ملاتے رہے۔ پہلے سیہون شریف میں سیاہ عَلم پر حضرت امام حسین کا سر دکھائی دیا ہے۔ ان کے چہرے پر نور ہی نور تھا اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کی مسکراہٹ حقیقت میں حق کی فتح کی علامت ہے۔ سیہون شریف کے بعد اب سیٹھارجہ اور پیر وسن میں بھی امام عالی مقام کی شبیہ نظر آئی ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ہاں۔ معجزہ ہے، معجزہ!”
نذیر اور حیدری اس کی باتوں پر اور اس کے جذباتی انداز پر ہنستے رہے۔
حیدری نے مذاقاً اس کے چٹکی لی۔ “بھنگ اور چرس پی کر تو چاروں طرف شبہیں ہی شبیہیں نظر آتی ہیں۔”
نورل جانتا تھا کہ اس کا والد وہابی ہے مگر وہ اس بات پر حیران بھی تھا کہ اس کے وہابی باپ نے آخر کیا سوچ کر اس کا نام حیدری رکھ دیا تھا۔ اس کا یہ طعنہ سن کر حیدری پھٹ پڑا۔ نذیر بہ مشکل ان دونوں میں صلح کروا کر انہیں چپ کروا سکا۔
وہ تینوں ہائی اسکول کے میدان میں جا بیٹھے۔ کھیل کا یہ میدان ناہموار تھا اور وہاں جابجا خودرو جھاڑیاں اْگی ہوئی تھیں۔ نذیر کی فرمائش پر نورل چرس کا سگریٹ بنانے لگا۔ اس دوران حیدری چرس اور شراب کا موازنہ کرنے لگا۔ اس کے خیال کے مطابق شراب چرس سے بہت بہتر تھی۔ اس کی باتیں سنتے ہوئے پکوڑافروش کے لیے خاموش رہنا محال ہو گیا۔ وہ اس کے خیال کو باطل قرار دیتے ہوئے چرس کی خوبیاں بیان کرنے لگا۔ کچھ دیر تک وہ دونوں آپس میں الجھتے رہے۔ نذیر خاموشی سے گردوپیش کے ماحول کو دیکھتا رہا۔
چاند مشرقی سمت سے آسمان پر طلوع ہو چکا تھا۔ شام کی مدھم مدھم ہوا چل رہی تھی۔ سڑک تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ بہت دور واقع پٹرول پمپ کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔
نورل نے چرس کا سگریٹ بنانے کے بعد اسے دیاسلائی دکھا کر سر کیا اور اس کا طویل کش لیا۔ اس کے بعد وہ کھنکھار کر گلا صاف کرنے کے بعد سنجیدگی سے کہنے لگا، “کل شمیم میری بیوی سے ملنے آئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی، کل وہ سچل سرمست کے مزار پر حاضری کے لیے درازہ شریف جائے گی۔ اس کے ساتھ اس کے شوہر کے علاوہ میری بیوی بھی ہو گی۔ وہ سب وہاں رات گزار کر صبح واپس آ جائیں گے۔”
“کیا اس نے میرے لیے کوئی پیغام بھیجا ہے؟ کیا وہ چاہتی ہے کہ میں بھی وہاں آؤں؟”
“ہاں، اس نے پیغام بھیجا ہے کہ تم ضرور آؤ،” نورل نے اسے سگریٹ تھماتے ہوئے کہا۔
نذیر نے سوال پوچھا، “کیا تم نہیں چلو گے؟”
“میں نہیں جاؤں گا بوہتار۔”
“اگر میں تم سے چلنے کی درخواست کروں تو؟”
پکوڑافروش جواب دینے کے بجاے مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں اس کی رضامندی پنہاں تھی۔
نذیر کے لیے پوری رات گھر سے باہر گزارنا مشکل تھا۔ اگر وہ چاچی سے اجازت مانگتا تو وہ اسے چاچے سے بھی اجازت دلا دیتی مگر وہ چاچی سے مدد مانگنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ گھر سے باہر اس کی شب گزاری کے حوالے سے خوامخواہ کسی شک میں بھی مبتلا ہو سکتی تھی۔
نذیر کے لیے پوری رات گھر سے باہر گزارنا مشکل تھا۔ اگر وہ چاچی سے اجازت مانگتا تو وہ اسے چاچے سے بھی اجازت دلا دیتی مگر وہ چاچی سے مدد مانگنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ گھر سے باہر اس کی شب گزاری کے حوالے سے خوامخواہ کسی شک میں بھی مبتلا ہو سکتی تھی۔
سچل سرمست کے مزار پر شب گزارنا دونوں دوستوں کی پرانی خواہش بھی تھی۔ حیدری نے بھی اپنے والد سے جھوٹ بول کر درازہ شریف جانے کی اجازت حاصل کر لی۔
حیدری کے تعاون سے اس کی یہ دشواری حل ہو گئی۔ اس نے اگلے دن دکان پر جا کرچاچے غفور سے درخواست کی کہ کل رات ہنگورجہ میں اس کے رشتے دار کی شادی ہونے والی ہے اور وہ نذیر کو وہاں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے۔ حیدری سے یہ سن کر چاچے غفور کو حیرت ہوئی کہ اس کے گھروالوں نے شادی کے موقع پر اس سے کپڑے کیوں نہیں سلوائے؟ حیدری نے اسے اطمینان دلایا کہ وہ ان کے دور پرے کے رشتے دار ہیں اور دور کے رشتے داروں کی شادی کے لیے ایسے لوازمات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مضبوط دلیل سن کر چاچا غفورنے نذیر کو جانے کی اجازت دے دی۔
سچل سرمست کے مزار پر شب گزارنا دونوں دوستوں کی پرانی خواہش بھی تھی۔ حیدری نے بھی اپنے والد سے جھوٹ بول کر درازہ شریف جانے کی اجازت حاصل کر لی۔
پکوڑافروش نے انہیں پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ وہ لوگ ڈھائی بجے والی بس سے پہلے ہنگورجہ جائیں گے، پھر وہاں سے بس تبدیل کر کے درازہ شریف کے لیے دوسری بس میں سوار ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں قصبے کے مختصر سے بس اسٹاپ پر دوپہر ڈھائی بجے سے پہلے ہی پہنچ گئے اور کھڑکھڑاتی ہوئی گول باڈی بس کے قریب کھڑے ہو کر ان کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ دوپہر کو قصبے سے باہر جانے والے لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی انھوں نے بس کی سیٹوں پر ایک رومال رکھ کر اپنے لیے نشستیں محفوظ کر لیں۔ وقت گزارنے کے لیے وہ دونوں مونگ پھلیاں کھاتے رہے۔
کچھ دیر بعد انھوں نے دو عورتوں اور دومردوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی ٹولی کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا۔ مرد آگے چل رہے تھے جبکہ دونوں عورتیں ان کے پیچھے آ رہی تھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ پکوڑافروش تو اپنے پرانے اور بوسیدہ لباس میں تھا جبکہ شمیم کا ٹیلی فون آپریٹر شوہر عجیب رنگ میں نظر آ رہا تھا۔ اس نے کلف سے اکڑا ہوا سفید لباس اور اس پر سرخ رنگ کی واسکٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ گردن میں اجرک، سر پر شیشے کے کام والی سندھی ٹوپی اور آنکھوں پر سیاہ چشمہ بھی لگا رکھا تھا۔ وہ میلہ گھومنے نکلا تھا۔
نذیر نے برقعے میں شمیم کو پہچان لیا۔ آج نذیر کو اس کی آنکھیں کچھ زیادہ ہی تاب ناک لگ رہی تھیں۔ نورل کی ادھیڑعمر بیوی بھی آج برقعے میں لپٹی ہوئی تھی۔ شمیم نے بس پر سوار ہوتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر اپنے ابرو سے ایک اشارہ کیا۔ نذیر اس اشارے کا مطلب نہیں سمجھ سکا۔
تھوڑی دیر بعد جب انھوں نے ڈرائیور کو اپنی نشست پر بیٹھتے ہوئے دیکھا تو وہ دونوں بھی اندر جا بیٹھے۔ بس جو کھڑی ہوئی بہت دیر سے کانپ رہی تھی، بالآخر اسٹاپ سے چل پڑی۔
پردہ دار عورتیں ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی تھیں جبکہ نورل اور ٹیلی فون آپریٹر داہنی طرف کی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ نذیر سوچ رہا تھا کہ ہنگورجہ تک شمیم کا اسے اپنی گردن موڑ کر دیکھنا مشکل ہو گا۔ وہ حیدری سے اسی لیے اونچی آواز میں باتیں کرتا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی آواز شمیم تک پہنچتی رہے۔ وہ باربار پہلو بدلتے اس کے جسم کی بے چینی کو محسوس کر رہا تھا۔ دفعتاً اس کی نگاہ ڈرائیور کے سامنے لگے آئینوں پر جا کر ٹھہر گئی اور اس کی مسرت کی کوئی حد نہ رہی۔ سامنے لگے ہوئے ہر آئینے میں اسے اس کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ نذیر کی آنکھیں ان آئینوں کے درمیان بھٹکنے لگیں۔
دفعتاً اس کی نگاہ ڈرائیور کے سامنے لگے آئینوں پر جا کر ٹھہر گئی اور اس کی مسرت کی کوئی حد نہ رہی۔ سامنے لگے ہوئے ہر آئینے میں اسے اس کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ نذیر کی آنکھیں ان آئینوں کے درمیان بھٹکنے لگیں۔
اس نے برقع پوش شمیم کو بھی ان آئینوں میں جھانکتے ہوئے دیکھ لیا۔ ان دونوں کی نظریں آئینوں میں باہم ملنے لگیں۔ اس نے اپنے شوہر کی موجودگی کی پروا کیے بغیر اپنا نقاب ذرا سا الٹ دیا اور زیرِلب مسکراتی اپنے نوخیز عاشق کو مستی بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔
نذیر بہت چوکنا بیٹھا تھا اس لیے اس نے کچھ ہی دیر میں بھانپ لیا کہ اس کا ٹیلی فون آپریٹر شوہر سفید چادر میں لپٹی ہوئی ایک لڑکی کی طرف متوجہ تھا۔
شمیم کی نشیلی آنکھوں میں گم خود اسے باہر سے گزرتے ہوئے مقامات کا کوئی پتا نہ تھا۔ گول باڈی بس گرد اڑاتی سڑک پر چلتی رہی۔ اس کے اطراف میں کہیں گندم کا کھیت نظر آتا تو کہیں کماد کی فصل، کہیں لیموں تو کہیں کھجور کا باغ، اور کہیں کہیں سیم و تھور سے متاثرہ زمینیں بھی گزرتی جا رہی تھیں۔
سوا گھنٹے بعد وہ ہنگورجہ پہنچ گئے۔ یہ قصبہ سپر ہائی وے کے ساتھ ہی واقع تھا۔ اسٹاپ پر بس کے رکتے ہی سارے مسافر ذرا سی دیر میں نیچے اْترگئے۔ وہاں سے کوئی سواری سیدھی درازہ شریف نہیں جاتی تھی، اس لیے وہ لوگ مجبوراً سکھر جانے والی بس پرسوار ہو گئے جس نے انہیں رانی پور میں بابِ سچل سرمست کے قریب اتار دیا۔
وہاں سے ایک سوزوکی پر بیٹھ کر وہ درازہ شریف پہنچے۔ شام ڈھلنے میں تھوڑی سی دیر باقی تھی، جب وہ سچل سرمست کے مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔
مزار پر واقع مسجد میں لوگ مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ہوا سے ہلتا، پھریرے کھاتا ہوا مزار کا سیاہ علم بہت بلندی پر قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ کشادہ اور وسیع لنگرگاہ میں ان قمقموں کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ وضوخانے کے نلوں سے پانی بہنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ لوگ مزار کے وسیع و عریض احاطے میں واقع قبروں پر فاتحہ پڑھتے اور فاتحہ سے فارغ ہو کرلنگرگاہ کے فرش پر بیٹھ جاتے۔
حیدری اور نذیر مزار سے باہرٹھیلے والوں کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور چلغوزے خرید کر کھانے لگے۔ مزار پر پہنچتے ہی شمیم نے برقع اْتار دیا اور سر پر صرف چادر اوڑھ کر مسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں اندر مزار کے احاطے کی طرف نہیں گئے۔ انھوں نے ٹیلی فون آپریٹر کے شک کو بھانپ لیا تھا۔ کسی بدمزگی سے بچنے کی خاطر انھوں نے فاصلے پر رہنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
مزار پر واقع مسجد میں لوگ مغرب کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ہوا سے ہلتا، پھریرے کھاتا ہوا مزار کا سیاہ علم بہت بلندی پر قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔
وہ دونوں چلغوزے کھاتے ہوئے باہر ہی ٹہلتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد نورل جوگی ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کے ہاتھ میں بھی کچھ چلغوزے تھما دیے اور مزار کے قریب سے گزرنے والی سڑک پر واقع ہوٹل کی طرف چل پڑے۔
کوٹھڑی نما ہوٹل لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ وہاں اندر وی سی آر پر کوئی پنجابی فلم چل رہی تھی۔ وہ دونوں باہر چولھے کے پاس بنچ پر بیٹھ گئے جبکہ حیدری پنجابی فلم دیکھنے ہوٹل کے اندر چلا گیا۔
نورل نذیر کے پاس بیٹھ کر ٹیلی فون آپریٹر کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالتا رہا۔ نذیر کو ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے ہوٹل کے بیرے کے چائے کی پیالی لاتے ہی اس نے موضوع بدل دیا۔
پکوڑا فروش اسے بتانے لگا کہ کھانے کے لنگر کے بعد محفلِ موسیقی شروع ہو گی جو صبح فجر سے پہلے تک جاری رہے گی۔ بے سْرے شوقین فنکار صبح تک عارفانہ کلام گائیں گے۔ ہو سکتا ہے ان کی گائیکی سے بے زار ہو کر ٹیلی فون آپریٹر رَلّی بچھا کر وہیں سو جائے، مگراس خبیث کا کچھ پتا نہیں، اگر اسے کوئی عورت بھا گئی تو حرامی رات بھرآنکھ نہیں جھپکے گا۔ خیر، چاہے کچھ بھی ہو جائے، اس کی بیوی شمیم کو لے کر قبرستان پہنچ جائے گی جہاں ان دونوں کو مختصر سی ملاقات میسر آ سکے گی۔
نذیرمطمئن ہو گیا کہ اس کا یہاں آنا اکارت نہیں جائے گا۔ اس نے سچل سرمست سائیں کی عظمت کا ذکر چھیڑ دیا اور نورل عقیدت سے اس کی باتیں سنتے ہوئے اپنا سر دھننے لگا۔ بہت دیر تک وہ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔
جب اندر فلم ختم ہو گئی تو سب لوگ انگڑائیاں لیتے ہوئے باہر نکلے۔ حیدری ٹھنڈی آہیں بھرتا ہوا آیا اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں وہاں سے اٹھے اور ٹہلتے ہوئے دوبارہ مزار تک آئے اور لنگرگاہ میں گھومنے لگے۔
ٹیلی فون آپریٹر نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے نورل کو بلایا۔ اس نے رات میں بھی کالا چشمہ آنکھوں پر پہن رکھا تھا۔
ٹیلی فون آپریٹر نے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے نورل کو بلایا۔ اس نے رات میں بھی کالا چشمہ آنکھوں پر پہن رکھا تھا۔
نورل کے جانے کے بعد ان دونوں نے وضوخانے میں جا کر ہاتھ منھ دھویا اور اس کے بعد دونوں نے سچل کے مزار کے اندر جا کر فاتحہ خوانی کی۔وہ فاتحہ خوانی کر کے نکلے تو صحن میں شمیم برگد کے ایک گھنے پیڑ کے نیچے اپنے شوہر کے قریب بیٹھی ہوئی نورل کی بیوی سے باتیں کر رہی تھی۔ اسے دیکھنے کے لیے نذیر حیدری کے ساتھ کچھ دیر وہاں گھومتا رہا۔ وہ اسے اپنے گردوپیش منڈلاتے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہی تھی۔ جب وہ ٹہلتا ہوا اس کے نزدیک سے گزرتا تو وہ مسکراہٹ سے اسے دیکھتی، اپنی آنکھوں کے کونوں سے اشارے کرتی اور اپنے شوہر سے نظر بچا کر ہاتھ بھی ہلاتی۔
لنگر شروع ہوتے ہی لنگرخانے میں دیگوں کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا۔ مزار کے خلیفے اور مجاور زائرین کو صبر کی تاکید کرتے رہے۔ جسے مٹی کی تھالی میں اپنے حصے کا لنگر ملتا وہ وہاں سے دور جا بیٹھتا۔ حیدری نے ہمت کرتے ہوئے ہجوم میں راستہ بنا کر لنگر حاصل کر لیا۔ مٹّی کی تھالی میں گرماگرم چاولوں نے انہیں بہت مزہ دیا۔ چاول ختم ہونے کے بعد وہ دونوں اپنی انگلیاں چاٹنے لگے۔
سماع گاہ میں فرش کی صفائی کے بعد کھلے صحن میں چٹائیاں بچھا دی گئیں۔ مقامی فنکار طبلے اور ہارمونیم سنبھالے اپنی مخصوص نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ لنگر ختم ہونے کے بعد محفلِ سماع سے لطف اندوز ہونے والے بہت کم لوگ باقی رہ گئے تھے۔
کچھ ہی دیر میں پورے احاطے میں طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم کے سْر پھیل گئے اور سب کے سب لوگ سروں کی کشش میں کھنچے سماع گاہ میں آ آ کر ڈیرہ ڈالنے لگے۔
نذیر شمیم سے بے خوف و خطر ہو کر ملاقات کرنا چاہتا تھا۔ وہ یہاں کے اجنبی لوگوں سے ہرگز خوفزدہ نہیں تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ یہاں کا سارا اہتمام صرف اس کی ملاقات کے لیے کیا گیا ہے۔
مقامی فنکار طبلے اور ہارمونیم سنبھالے اپنی مخصوص نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ لنگر ختم ہونے کے بعد محفلِ سماع سے لطف اندوز ہونے والے بہت کم لوگ باقی رہ گئے تھے۔
رات ہولے ہولے دبے پاؤں گزر رہی تھی۔ کئی لوگ قوالی سنتے سنتے اپنی چٹائیوں پر ہی گہری نیند سو گئے اور بہت سے دھیرے دھیرے اٹھ اٹھ کر رخصت ہو گئے۔
ٹیلی فون آپریٹر بھی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کی وجہ سے جماہی پر جماہی لے رہا تھا۔ شمیم نے اس کے لیے رلّی بچھائی۔ اس نے اپنی ٹوپی، چشمہ اور بٹوا اس کے حوالے کیا اور خود اجرک اوڑھ کر سو گیا۔
محفلِ سماع چل رہی تھی۔ بوڑھے قوال اپنا اپنا ہنر دکھا کر چلے گئے تو ہارمونیم اور طبلے پر نوخیز قوالوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ وہ اپنی محرومیوں اور ناآسودہ خواہشوں کا غبار چیخ چلّا کر نکالنے لگے۔
نذیر نے اِدھراْدھر نگاہ دوڑائی۔ سماع گاہ کے فرش پر لوگ یہاں وہاں بکھرے ہوئے تھے۔ مسجد کے مینار اور محرابیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ مسجد سے متصل مزار کی دیوار اونچی اور سیاہ تھی۔ بہت دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے نذیر کو بھی اونگھ سی آنے لگی تھی۔ نورل نے آ کر اسے جھنجھوڑا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اسے باہر چلنے کو کہا۔
نذیر اٹھ کر اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ سب ٹھیلے والے وہاں سے جا چکے تھے۔ نذیر لمبے سانس بھرتا سامنے واقع خالی ڈھنڈار میدان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہاں یکہ و تنہا کھجور کا درخت آسمان کے نیچے اپنے پنکھ پھیلائے کھڑا تھا۔ اس کے تنے کی کھردراہٹ اور میلی رنگت رات کی تاریکی کے سبب اوجھل ہو گئی تھی۔ اس کی ٹیڑھی میڑھی شباہت میں اسے عجیب حسن دکھائی دے رہا تھا۔ شاعرِ ہفت زبان کے مزار کے سامنے اسے رات کے اس پہر کھجور کا یہ درخت پرکشش محسوس ہو رہا تھا۔ نورل اسے اکیلا چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے شمیم کو نورل کے ساتھ آتے دیکھا تو اسے کھجور کے درخت کے لیے اپنے دل میں پیدا ہونے والی پسندیدگی کی حقیقت معلوم ہو گئی۔ شمیم اس وقت بھی سرتاپا برقعے میں لپٹی ہوئی تھی۔ نذیر نے اپنے جگری یار حیدری کو قبرستان کے باہر پہرے داری پر مامور کیا اور خود شمیم سے ذرا تسلی سے بیٹھ کر دو باتیں کرنے کے لئے قبرستان کے اندر چلا گیا۔
اس مختصر سے قبرستان میں جابجا کیکر اور بوڑھ کے ٹنڈمنڈ درخت کھڑے تھے جن کے بیچ بہت سی چمگادڑیں اڑتی پھرتی تھیں۔ وقفے وقفے سے ان کی نوکیلی آواز گونجتی اور پورے قبرستان میں پھیل جاتی۔
نذیر شمیم سے آگے آگے احتیاط سے چل رہا تھا تاکہ کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ سکے جہاں ان کا کچھ دیر بیٹھنا ممکن ہو۔ “اس پراسرار ماحول سے شمیم کہیں خوفزدہ نہ ہو جائے،” اس نے سوچا۔
نذیر کے ہاتھوں کی جنبش اسے بے خودی کی خواب آگیں وادیوں کی طرف لیے جا رہی تھی۔ لذت کا ست رنگا پرندہ اس کی پور پور میں دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلانے لگا تھا۔
پیڑوں کے بیچ چلتے ہوئے وہاں واقع ایک چھوٹے سے خستہ اور بوسیدہ مزار کی داہنی دیوار کے ساتھ انہیں کچھ جگہ مل گئی۔ اس نے اپنے جوتوں کی مدد سے وہ جگہ صاف کی اور آس پاس کی زمین پر اینٹوں کے ایسے ٹکڑے تلاش کرنے لگا جن پر تھوڑی دیر بیٹھا جا سکے۔
ایک سبک رو چمگادڑ شمیم کے کانوں کے قریب سے گزر گئی۔ چمگادڑ کو اپنے بہت قریب دیکھ کر اور اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن کرشمیم دہشت زدہ ہو گئی اور اس کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ اس کی چیخ سن کر قبرستان کے باہر موجود پکوڑافروش دوڑتا ہوا آیا۔ اس نے شمیم کی ہمت بندھانے کے لیے چند جملے کہے اور اس کے بعد واپس چلا گیا۔
نذیر اینٹوں کے ٹکڑوں کی تلاش میں کچھ دور نکل گیا تھا۔ وہ اینٹوں کے دو بڑے ٹکڑے اٹھائے واپس آیا تو شمیم تاریکی میں اسے بھی دیکھ کر سہم گئی۔ نذیر نے دیوار کے پاس اینٹوں کے ٹکڑے لگا کر بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔ شمیم اس کے ساتھ ہی ایک ٹکڑے پر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔ وہ چمگادڑ وں کے علاوہ شاید قبرستان کے وحشت ناک ماحول سے بھی سراسیمہ لگ رہی تھی، اس لیے کچھ دیر گزرنے کے باوجود اس نے نذیر سے کوئی بات نہیں کی۔
نذیر نے دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے شانے پر رکھ دیا اور اسے ہولے ہولے دبانے لگا۔ مردانہ ہاتھ کے بے صبر مگر اپنائیت بھرے لمس نے اسے خوف کی دلدل سے نکالا تو وہ اپنی بزدلی پر ندامت محسوس کرتی مسکرانے لگی۔
نذیر کا ہاتھ اس کے نرم کندھے سے ہوتا ہوا اس کے گداز بازو میں اتر گیا۔ شمیم کا ذہن بٹانے کے لیے اس نے پچھلی ملاقات کا ذکر چھیڑتے ہوئے اس کی جرات اور بہادری کو سراہا۔ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ نذیر سے اپنی تعریف سننا اسے اچھا لگ رہا تھا۔
وہ اسے آہستگی سے اپنی طرف کھینچتے ہوئے ہنس کر بولا، “تم مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتی ہو کہ اگر تمھارے شوہر کے خاندان میں کسی کو ہمارے اس تعلق کے بارے میں ذرا سی بھنک بھی پڑ گئی تو ہم دونوں کو کاروکاری کر کے مار دیا جائے گا۔ ہم آگ کے دریا کے اوپر بندھی ہوئی باریک سی ڈوری پر چل رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر تم مجھ پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتی رہیں تو ہم آگ کے دریا کے پار ضرور اتریں گے۔” اس نے شمیم کی تاب ناک آنکھوں میں جھانکا۔ وہ اس کی بے باک نگاہوں کی تاب نہیں لا سکی اوراس نے اپنا سر جھکا لیا۔ وہ بھی اپنے دل کے منجمد دریا کو پگھلا نے والے اور اسے ایک پْرشور ندی میں تبدیل کرنے والے اپنے اس محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر نذیر کے ہاتھوں کی جنبش اسے بے خودی کی خواب آگیں وادیوں کی طرف لیے جا رہی تھی۔ لذت کا ست رنگا پرندہ اس کی پور پور میں دھیرے دھیرے اپنے پر پھیلانے لگا تھا۔
نذیر تلخ سانس بھرتا ہوا قبروں کو روندتا ہوا چل رہا تھا۔ قبرستان کے باہر پہنچنے پر حیدری نے اسے ٹیلی فون آپریٹر کے نیند سے جاگنے کی خبر سنائی تو وہ اپنی کامیابی پر زیرِلب مسکرانے لگا۔
نذیر نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، “ہمارا آج کا یہ ملاپ ہمارے پیار کی یادگار ہے۔ میں اسے زندگی بھر بھول نہیں سکوں گا۔ آج حضرت سچل سرمست بھی ہمارے پیار کے گواہوں میں شامل ہو گئے۔” اس کا ہاتھ اس کے بازو کے گداز سے پھسل کر اس کے جسم کے نہاں حصوں کو ٹٹولنے لگا۔ وہ اس کے اور نزدیک آ گیا۔ “دیکھو! تم گاؤں کی عورت ہو، اور تمھیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ “
وہ مزاحمت کرنا چاہتی تھی مگر نذیر کے شریر ہاتھوں نے اس کے حواس معطل کر دیے تھے۔ اس کے بدن کے رگ و ریشے میں ایک بے چینی اور بے اطمینانی سی پھیلتی جا رہی تھی۔ وہ لذت کے ست رنگے پرندے کو اپنے بدن کی تمام پہنائیوں اور تمام وسعتوں میں مائل بہ پرواز دیکھنا چاہتی تھی۔ اس خواہش میں وہ اپنی ملاقات کا محل وقوع تک فراموش کر بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھیں خودبخود بند ہو رہی تھیں۔ اپنے بوجھل پپوٹے بمشکل پوری طرح کھول کر اس نے نذیر کی طرف دیکھا اور پہلی بار اپنے بازو پھیلا کر اسے اپنے بدن سے لپٹا لیا۔ نذیر کے تشنہ لبوں کا بوسہ لینے کے بعد اس نے بمشکل اسے اپنے آپ سے علیحدہ کر دیا۔ الگ ہونے کے بعد نذیر نے گردوپیش نظر دوڑائی تو اسے پہلی بار اس محلِ وقوع کی حرمت کا خیال آیا۔ شب کا نجانے کون سا پہر تھا اور وہ انسانی لاشوں کے مدفن میں اس وقت کیا کر رہا تھا!
اسے خاموش پا کر وہ سمجھی کہ شاید وہ برا مان گیا۔ وہ اس کا دھیان بٹانے کے لیے اپنے ٹیلی فون آپریٹر شوہر کے خلاف باتیں کرنے لگی۔ وہ اس کی باتوں کے بیچ بیچ میں اسے لقمہ دیتا، اپنا غبار نکالنے میں اس کی مدد کرتا رہا۔
اچانک قبرستان کے باہر سے پکوڑافروش کی پکار سنائی دی۔ وہ نذیر کا نام لے کر اسے بلا رہا تھا۔ نورل کی پکار سن کر وہ دونوں چونکے۔ شمیم فوراً اٹھ کر اپنے لباس کی شکنیں درست کرنے لگی۔ اس نے برقعے کا نقاب اچھی طرح کس کر باندھا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تشنہ لذت کی عدم تکمیل سے پیدا ہونے والی اذیت کا بوجھ اٹھائے ہوئے وہ دونوں نڈھال قدموں سے چلنے لگے۔
اچانک قبرستان کے باہر سے پکوڑافروش کی پکار سنائی دی۔ وہ نذیر کا نام لے کر اسے بلا رہا تھا۔ نورل کی پکار سن کر وہ دونوں چونکے۔ شمیم فوراً اٹھ کر اپنے لباس کی شکنیں درست کرنے لگی۔ اس نے برقعے کا نقاب اچھی طرح کس کر باندھا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تشنہ لذت کی عدم تکمیل سے پیدا ہونے والی اذیت کا بوجھ اٹھائے ہوئے وہ دونوں نڈھال قدموں سے چلنے لگے۔
نذیر تلخ سانس بھرتا ہوا قبروں کو روندتا ہوا چل رہا تھا۔ قبرستان کے باہر پہنچنے پر حیدری نے اسے ٹیلی فون آپریٹر کے نیند سے جاگنے کی خبر سنائی تو وہ اپنی کامیابی پر زیرِلب مسکرانے لگا۔
شمیم نورل کے ساتھ لنگرگاہ کی طرف چل پڑی جبکہ نذیر حیدری کے ساتھ سڑک کی جانب۔
(جاری ہے)
(جاری ہے)