[blockquote style=”3″]
بارہ ربیع الاوّل کے مبارک دن سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر لاہور میں شمعیں جلانے والوں پر ہونے والے حملے کے پس پردہ حقائق اور حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے تحقیق پر مبنی ایک خصوصی تحریر
[/blockquote]
حملے کی منصوبہ بندی
یہ تین اور چار جنوری کی درمیانی یخ بستہ رات ہے۔ پنجاب کے دل لاہور کی ایک مسجد میں چند باریش حضرات سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھے چند نوجوان خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ بارہ ربیع الاوّل کی بابرکت رات کی محفل آج پہلی دفعہ جلدی ختم کر دی گئی ہے۔ دھند بڑھ چکی ہے، اگر بتیوں کی بھینی بھینی خوشبو اور دھندلاتے رنگ برنگے قمقموں نے عجیب سا سحر پیدا کر رکھا ہے۔ اس جامعہ مسجد جس کا نام “رحمت العالمین” ہے کے کونے میں میٹنگ کی سربراہی جناب خادم حسین رضوی کررہے ہیں۔ یہ ان کی تنظیم ‘انجمن فدایان ختم نبوت’ کی خصوصی کمیٹی کی ایک خفیہ میٹنگ ہے۔ منبر رسول کے سامنے سر جوڑے باریش حضرات کچھ دیر میں ایک حتمی نتیجے پر پہنچ گئے۔ تنظیم کے ایک اہم کارکن ممتاز سندھی کے ہاتھ کا اشارہ ملتے ہی یہ ایک درجن سے زائد نوجوان میٹنگ میں شامل ہو گئے۔ خادم حسین رضوی نے معذور ہونے کے باوجود ایک پر جوش خطاب کیا جس کے آخر میں میٹنگ میں ہونے والے اہم فیصلے سے نوجوانوں کو آگاہ کیا۔ نوجوان فرط جذبات سے کانپ رہے تھے لیکن اپنے جذبات کو عملی رنگ دینے کے لیے انہیں کل بارہ ربیع الاوّل کے بابرکت دن کا انتظار کرنا تھا۔ اس سال نبی پاکﷺ کی ولادت اور پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر مرحوم کی برسی اتفاق سے ایک ہی دن تھی۔
چار جنوری کو عصرکی نماز کے بعد جب نمازی مسجد سے چلے گئے اور صرف وہی لوگ رہے گئے جو رات گئے منصوبہ بندی میں مصروف تھے، خادم حسین رضوی نے نوجوانوں کے سامنے ایک دفعہ پھر خون گرمانے والا خطاب کیا۔ خطاب کے بعد نوجوانوں کو خنجر اور پستول فراہم کیے گئے۔ جو انہوں نے بلاججھک پکڑلیے۔ اس آپریشن کا سربراہ ممتاز سندھی کو مقرر کیا گیا۔ نوجوانوں کو منصوبے کی جزئیات دوبارہ سمجھائی گئیں اور منصوبے پر عمل کا آغاز ہوگیا۔ تین بزرگ راہنما کلاشنکوف جیسے بڑے ہتھیاروں سے لیس ایک گاڑی میں بیٹھ گئے۔
چار جنوری کو عصرکی نماز کے بعد جب نمازی مسجد سے چلے گئے اور صرف وہی لوگ رہے گئے جو رات گئے منصوبہ بندی میں مصروف تھے، خادم حسین رضوی نے نوجوانوں کے سامنے ایک دفعہ پھر خون گرمانے والا خطاب کیا۔ خطاب کے بعد نوجوانوں کو خنجر اور پستول فراہم کیے گئے۔ جو انہوں نے بلاججھک پکڑلیے۔ اس آپریشن کا سربراہ ممتاز سندھی کو مقرر کیا گیا۔ نوجوانوں کو منصوبے کی جزئیات دوبارہ سمجھائی گئیں اور منصوبے پر عمل کا آغاز ہوگیا۔ تین بزرگ راہنما کلاشنکوف جیسے بڑے ہتھیاروں سے لیس ایک گاڑی میں بیٹھ گئے۔
حملے کی کارروائی
چار جنوری کی شام تقریبا ساڑھے چار بجے یہ مسلح نوجوان لاہور کے لبرٹی گول چکر پر پہنچ گئے اور اپنے اپنے رول کے مطابق پوزیشنیں سنبھال لیں۔ تھوڑی ہی دیر میں گول چکر کے وسط میں کچھ شہری نمودار ہونا شروع ہوئے۔ پہلے ایک ادھیڑ عمر خاتون اپنی بیٹی کے ہمراہ وہاں پہنچی، دو چار بزرگ اور پھر چند بچے بھی نظر آنا شروع ہوگئے۔ ایک مدرسے کے کچھ نوجوان بھی ہاتھوں میں شمعیں اٹھائے ان میں شامل ہو گئے۔ چند خواتین اور نوجوانوں کے ملنے سے شمع برداروں کی تعداد بیس سے تجاوز کر گئی۔ ان شہریوں کے ہاتھوں میں سلمان تاثیر کی برسی کے حوالے سے تصاویر کے ساتھ ساتھ بارہ ربیع الاوّل کی مناسبت سے بینرز بھی تھے۔ جبکہ ان کی زبانوں پر امن کے نعرے اور انتہا پسندی سے بیزاری کی باتیں تھیں۔
Post by The Laaltain.
آخری خبریں آنے تک محمد عدیل ، محمد فرقان، محمد افتخار اور وزیر علی کو پولیس گرفتار کر چکی اور ان کا انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر چار سے ریمانڈ لے کر ان سے تفتیش کر رہی ہے
ممتاز سندھی کی لیڈرشپ میں منصوبے کے مطابق تین مسلح نوجوان، شہریوں کے اس انتہائی معمولی اور چھوٹے سے اجتماع میں خاموشی سے جا کر کھڑے ہو گئے۔ اتنی دیر میں میڈیا کے چند لوگ بھی اپنی کوریج کے لیے اس جگہ پہنچ گئے۔ حالات بھانپنے کے بعد ممتار سندھی نے یلغار کا حکم دے دیا۔ اشارہ پاتے ہی مسلح نوجوان نہتی خواتین، بچوں اور دیگر افراد پر ٹوٹ پڑے۔ کچھ نے برچھیاں نکالیں اور سلمان تاثیر کی تصاویر پر دیوانہ وار حملے شروع کر دیئے۔ ان میں سے کئی لوگوں کوزدوکوب کر رہے تھے۔ ان کی زبانوں پر انتہائی غلیظ گالیاں تھیں جو یہاں دہرائی نہیں جا سکتیں۔ نہتے لوگ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگے۔ سب سے پہلے پہنچنے والی ادھیڑ عمر خاتون تنہا ان کے سامنے کھڑی تھی۔ یکا یک دو حملہ آور اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنی والدہ کی عمرکی اس خاتون کو اس زور سے مارا کہ وہ تلملا اٹھی۔ صحافی جو اس پرامن احتجاج کی کوریج کے لئے آئے تھے اس خاتون کو بچانے کے لیے لپکے تو ان مسلح نوجوانوں نے ان پر بھی دھاوا بول دیا۔ اس آپریشن کی نگرانی کرنے والے تنظیم کے بزرگ راہنما بھی حرکت میں آئے اور گاڑی تیزی سے اس طرف لے آئے جہاں مار پیٹ کا عمل جاری تھا۔ انہوں نے کلاشنکوفیں نکالیں اور صحافیوں کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس دوران دور سے پولیس کی موبائل وین کو آتا دیکھ کر یہ تمام مسلح افراد بھاگ کھڑے ہوئے۔
حملہ آور کون تھے؟
اب میں آپ کو ان مسلح نوجوانوں کا تعارف کرواتا ہوں۔ یہ کوئی ان پڑھ ،جاہل گنوار یا کسی مخصوص مدرسے سے خاص ذہنیت کی تعلیم حاصل کرنے والے نہیں تھے۔ یہ ایسے نہیں تھے کہ ان کو کم عقل کہا جائے۔ یہ کند ذہن بھی نہیں تھے۔
یہ نوجوان جو ہلکے براون رنگ کی جیکٹ پہنے ہوئے ہے اس کا نام محمد فرقان الحق ہے۔ یہ لاہور کے اعلی تعلیمی ادارے سے چارٹڈ اکاونٹنٹ بننے کی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اپنے دس پیپرز اعلی نمبروں میں پاس کر چکا ہے۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
یہ جینز اور ہڈ پہنے نوجوان محمد عدیل ہے اور گریجوایشن کے بعد ایک بڑے ادارے سے انگریزی زبان سیکھنے کا ڈپلومہ کر رہا ہے۔ یقینا اس کے بہت سے خواب ہوں گے، یہ کہ اچھی انگریزی لکھ اور بول کے کوئی اچھی نوکری یا پیسے کمانے کے لیے بیرون ملک جائےگا۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
سب سے پہلے حملہ کرنے والا اور نقاب اوڑھ کر تقریب کی جاسوسی اور ادھیڑ عمر خاتون پر تشدد کرنے والا یہ نوجوان محمد افتخار ہے۔ آپ پڑھ کے حیران ہوں گے کہ یہ نوجوان لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی سے ایم بے اے کر رہا ہے اور آخری سمسٹر میں ہے۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
اور یہ وزیر علی ہیں جو فرقان کی طرح چارٹڈ اکاونٹنٹ بن رہے ہیں۔ ان کا خاندان ان سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھا ہے کہ جب وزیر علی چارٹڈ اکاونٹنٹ بن جائے گا تو اس کی تعلیم پر آنے والے اخراجات کسی کو یاد بھی نہیں ہوں گے۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
یہ عثمان ہیں، حال ہی میں ماسٹرز تک تعلیم مکمل کی ہے اور اب نوکری ڈھونڈ رہے ہیں۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
یہ نوجوان کاشف منیر ایک بچی کا باپ اور گریجویٹ ہے۔ اس کی بچی کی عمر بھی اتنی ہی ہے جتنی اس تقریب میں شریک ایک اور چھوٹی سی بچی کی۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
اور یہ ہیں ممتاز سندھی صاحب جو ان پڑھے لکھے نوجوانوں کی قیادت کررہے تھے۔
[spacer color=”B2B2B2″ icon=”Select a Icon” style=”1″]
آخری خبریں آنے تک محمد عدیل ، محمد فرقان، محمد افتخار اور وزیر علی کو پولیس گرفتار کر چکی اور ان کا انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر چار سے ریمانڈ لے کر ان سے تفتیش کر رہی ہے تاکہ دیگر ملزمان کو گرفتار کیا جاسکے۔ ممتاز سندھی سمیت تمام اکابرین روپوش ہیں۔
Post by Marvi Sirmed.
حملہ آوروں کی ذہنیت؟
نبی پاکﷺ سے عقیدت کا دم بھرنے والی پاکستان کی بریلوی اکثریت کو سوچنا ہو گا کہ کیا عدیل، فرقان، افتخار اور وزیر جیسے لوگ ان کی نمائیندگی کر سکتے ہیں؟
مذہبی اکابرین نے سلمان تاثیر مرحوم کے تشخص کو اتنا مسخ کیا ہے کہ تنقیدی شعور سے عاری اور تقلیدی رویہ رکھنے والے ہمارے نوجوان بغیر یہ سمجھے کہ آخر سلمان تاثیر کہتا کیا تھا، یک لخت جنونی کیفیت میں آ جاتے ہیں۔
اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ ہمارے نبی پاک کی ناموس کے لیے بنائے گئے ایک قانون میں قانون بنانے والوں نے اتنے سقم چھوڑے ہیں کہ لوگ اس کو مذہبی منافرت اور ذاتی دشمنیوں کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس قانون کے تحت مقدمہ درج ہونے کے ساتھ ہی تمام ریاستی مشینری بے بس ہو جاتی ہے۔ مقدمہ صحیح درج ہوا کہ غلط، جس پر مقدمہ ہو گیا وہ گویا مر گیا۔ تو کیا آپ اس قانون میں مناسب اور مثبت بہتری کا مطالبہ نہیں کریں گے کہ کوئی ناحق نہ مرے اور اس قانون کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے؟ یہی بات کہنے پر سلمان تاثیر نے جان دی۔ ایک بہتر قانون بنانے کی آواز بلند کرنا ہی ان کی موت کا سبب ٹھہرا۔ اور اب تو ان کی برسی پر ان کی کوششوں کو خراج عقیدت پیش کرنا بھی جنونیت کو دعوت دینے کے مترادف ٹھرا ہے۔
سلمان تاثیر کے قاتل اور ان کی برسی پر حملہ کرنے والوں کی فرقہ وارانہ وابستگی ہمارے ملک کے سب سے بڑے مکتبہ فکر بریلویت سے ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف اس مسلک کو ماننے والے طالبان کی درندگی کا شکار ہیں اور دوسری طرف ان میں سے کچھ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے طالبان کے طریقہ کار کی تقلید کو ترجیح دیتے ہیں۔
نبی پاک سے عقیدت کا دم بھرنے والی پاکستان کی بریلوی اکثریت کو سوچنا ہو گا کہ کیا عدیل، فرقان، افتخار اور وزیر جیسے لوگ ان کی نمائیندگی کر سکتے ہیں؟ کیا تشدد اور دہشت کا راستہ رحمت العالمین سے محبت کے اظہار کا طریقہ ہو سکتا ہے؟
اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ ہمارے نبی پاک کی ناموس کے لیے بنائے گئے ایک قانون میں قانون بنانے والوں نے اتنے سقم چھوڑے ہیں کہ لوگ اس کو مذہبی منافرت اور ذاتی دشمنیوں کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس قانون کے تحت مقدمہ درج ہونے کے ساتھ ہی تمام ریاستی مشینری بے بس ہو جاتی ہے۔ مقدمہ صحیح درج ہوا کہ غلط، جس پر مقدمہ ہو گیا وہ گویا مر گیا۔ تو کیا آپ اس قانون میں مناسب اور مثبت بہتری کا مطالبہ نہیں کریں گے کہ کوئی ناحق نہ مرے اور اس قانون کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے؟ یہی بات کہنے پر سلمان تاثیر نے جان دی۔ ایک بہتر قانون بنانے کی آواز بلند کرنا ہی ان کی موت کا سبب ٹھہرا۔ اور اب تو ان کی برسی پر ان کی کوششوں کو خراج عقیدت پیش کرنا بھی جنونیت کو دعوت دینے کے مترادف ٹھرا ہے۔
سلمان تاثیر کے قاتل اور ان کی برسی پر حملہ کرنے والوں کی فرقہ وارانہ وابستگی ہمارے ملک کے سب سے بڑے مکتبہ فکر بریلویت سے ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف اس مسلک کو ماننے والے طالبان کی درندگی کا شکار ہیں اور دوسری طرف ان میں سے کچھ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے طالبان کے طریقہ کار کی تقلید کو ترجیح دیتے ہیں۔
نبی پاک سے عقیدت کا دم بھرنے والی پاکستان کی بریلوی اکثریت کو سوچنا ہو گا کہ کیا عدیل، فرقان، افتخار اور وزیر جیسے لوگ ان کی نمائیندگی کر سکتے ہیں؟ کیا تشدد اور دہشت کا راستہ رحمت العالمین سے محبت کے اظہار کا طریقہ ہو سکتا ہے؟
12 Responses
Excellent effort, very well written and evident article about the religious madness of educated people. Don’t know why our education system is producing educated and brainless people.
ظاهر سی بات ہے کہ معاملہ تها هی اتنا لرزہ خیز اور بهیانک کے سب هی دهل کر رہ گئے تهے ۔
مسجد میں معصوم بچے کی پهندہ لگی لاش ملے اور پهر اسکے ساتھ زیادتی بهی هوئی هو تو دکھ فطری تها ،لیکن لبرلرز اور دین بیزار لوگوں کے من میں یوں بهی لڈو پهوٹ رهے تهے کہ سارا معاملہ مسجد میں هوا تها۔ لہذا سب اس پہ متفق تهے مجرم کوئی مولوی ہی هوگا۔ کیونکہ مسجد کا ٹهیکہ جو اسکے پاس هوتا هے !
سیکیولر حضرات ویسے بهی میڈیا و سوشل میڈیا پر فرنٹ فرنٹ پہ کهیل رهے هیں۔ سول سوسائٹی المعروف موم بتی مافیا کا منجن بهی خوب خوب بک رها هے ۔سو سبهی نے مساجد و مولویوں کو نشانہ پر رکھ لیا،، خوب لتے لئے گئے اور انہیں درندے جانور اور نجانے کیا کیا القابات دے کر دلوں میں چهپے بغض کو نکالا گیا ۔
یہاں تک سب ٹهیک هی تها کہ اچانک کہیں دور پار سے خبر آئی کہ بچے کا قاتل گرفتار هوگیا هے اور ڈی این اے سے ثابت بهی هوچکا کہ یہی مجرم هے۔ میسر معلومات کے مطابق مجرم محلے کا نائی هے ۔ یہاں لاهور پولیس کو داد نہ دینا سراسر زیادتی هوگی جس نے اس اهم معاملے میں نہ صرف پهرتی دکهائی بلکہ اصل مجرم کو بے نقاب کرکے بہت سوں کی امیدوں پر پانی بهی پهیر دیا ۔
آخری بات:
ان تمام دوستوں سے گزارش هے کہ جنہوں نے اس ایشو پر لکها اور بعض نے مسجد و مولوی کی عزت افزائی کی ، وہ تمام اصل قاتل و مجرم کی گرفتاری پر بهی لکهیں ،تاکہ کسی حد تک ان الزامات کا کفارہ هوسکے جو ابتدائی خبر کے بعد جذباتی انداز میں لگائے گئے۔ دوسرا یہ کہ پیشہ ورانہ دیانت کہتی هے کہ میڈیا اصلی قاتل کی گرفتاری کی خبر بهی اسی طرح کی رنجیدہ دُهنوں کیساتھ نشر کرے جیسا کہ بچے کی لاش ملنے پر نقلی قاتل کیخلاف چلائی گئیں تهیں۔
(Reference)
https://www.facebook.com/MJhy.Hy.Hukm.e.Azan?fref=nf
ان نوجوانوں کی غیرت ایمانی کو سلام ہے۔۔۔
ملعون مر کر بھی لعنت اور دائمی پھٹکار کا مستحق ہے اور وہ بھی جو اس سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
AIK BAAT CLEAR HONI CHAHEY K MUMTAZ QADRI, BARALVI MASLAK KA NAHI, BALKY DEO BANDI HA, SALMAN TASEER KO KATAL KARNY SE 2 MONTH PEHLY ISNY QADRI NAAM KI ADDITION KI,TAKY SUNNI-BARALVI SAMJA JAEY…BOHAT MUMQIN HA, ISS KATAL K PICHY USS WAQT KI PUNJAB GOVT. K AIK AHAM WAZEER KI PLANNING HO.
PARENTS AND TEACHERS SHOULD KEEP AN EYE ON IT.
religious madness of educated people
good investigative journalism done – keep it up -protect yourself from these evil forces !
ایک بڑی غلط فہمی جو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ مذہبی انتہاپسندی صرف دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں حالانکہ بریلوی ان سے دو ہاتھ آگے ہیں بس ایشوز کے اختلافات ہیں ۔ یوبندی شریعت کی نفاذ کے لئے جانیں لینے کو جائز کہتے ہیں اور بریلوی عشق رسول کے نام پر ۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ مورخین کے اتفاق کی رو سے بارہ ربیع الاول حضور پاک (ص) کی وفات کا دن ہے. یوم ولادت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ نو ہے یا بارہ ..سلمان تاثیر کی شہادت کا دن اور حضور پاک (ص) کی رحلت کا اس سال ایک ہی دن واقع ہونا عجب اتفاق ہے
lagta hai likhnay wala sari meetings main saath bthta tha in k….
Marr Gaya Mardood…… NA FAtiha Na Darood………
کسی بھی مرنے والے کے اعمال کا حساب کتاب اللہ کے سپرد ہوجاتا ہے۔ وفات کے بعد انگشت نمای اور عاقبت کے بارے میں ناگفتنی نامناسب ہوگا۔
بھائی جان آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے
اعتراف ا جرم آپ کے سامنے ہے. براۓ مہربانی ویڈیو ملاحظہ فرماۓ
https://www.facebook.com/video.php?v=993034720726647&set=vb.852900141406773&type=2&theater