letters-to-the-editor-featured1

لاڑ سندھ کا وہ علاقہ ہے جو اپنی سمندری ہواوں، چاول کے لہلاتے کھیتوں، مچھلی، چھوٹی چھوٹی جھیلوں، امن اور رواداری کی وجہ سے مشہور تھا مگر پچھلی کچھ دہائیوں سے جاگیرداری اور سیلاب کی وجہ سے بڑھتی ہوئی بھوک افلاس، اور بھوک افلاس سے بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور مذہبی انتہا پسندی نے اس علاقے کی شناخت تبدیل کر دی ہے۔ حالانکہ بدین اپنی معدنیات کی وجہ سے سندھ سمیت پاکستان کی معیشت کا اہم حصہ بھی ہے۔ کتنی عجییب بات ہے کہ پاکستان کو 65 فیصد تیل اور گیس مہیا کرنے والا امیر ترین ضلع آج اس نہج پر پہنچا ہے کہ نوجوان بیروزگاری سے تنگ آ کر شدت پسند تنظیموں کا رخ کر رہے ہیں۔ سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بدین کے تیل اور گیس کے کنووں پر کام کرنے والوں میں مقامی لوگوں کی نمائندگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہاں کے مزدوراں کی اکثریت غیر سندھی ہے۔ بدین کی نوجوان نسل کے بوڑھے ماں باپ کی آنکھوں کے آنگن سے سپنے بھی الوداع کہہ گئے ہیں، جوان اولاد کے جنازوں، بیروزگاری اور بے بسی نے انہیں ایسا نڈھال کر دیا ہے کہ اب موت بھی ان سے دور بھاگتی ہے۔

جاگیرداری کی زنجیروں نے خاندانوں کو غلامی میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اب آزادی بھی موت کے جیسی لگتی ہے، اور غلامی میں زندگی نظر آتی ہے
جاگیرداری کی زنجیروں نے خاندانوں کو غلامی میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ اب آزادی بھی موت کے جیسی لگتی ہے، اور غلامی میں زندگی نظر آتی ہے، جب انسان کے پاس زندگی کی کوئی آس امید نہ بچے تو زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور اس بوجھ کو ڈھوتے زندگی کے دن بس انگلیوں پر گن کر پورے کرنے پڑ جاتے ہیں۔ لاڑ کے لمس میں اب وہ حرارت بھی نہیں رہی کہ وہاں سے پھر کوئی دودو سومرو جاگے اور تمام دشمن عناصر اور رہزنوں کو لے ڈوبے، نہ کسی تاری سومری کے پیدا ہونے کی امید نظر آتی کہ وہ اس کہن زدہ مردود معاشرے کو اپنا گھناؤنا پن دکھائے۔

ہاریوں مزدورں اور مزاروں کی آخری امید کامریڈ فاضل راھو کو بھی کلہاڑی نے کاٹ دیا، آج بھی بوڑھی اور ناامید غلام آنکھیں فاضل راھو کا نام سن کر پھر سے چمک اٹھتی ہیں،کیونکہ جس طرح شہید کامریڈ فاضل راھو نے جاگیرداروں،شدت پسندوں اور انتہا پسندوں کی دوڑیں لگوائی تھیں ایسا یودھا پھر بدین کے بدن نے ہیدا نہیں کیا۔ مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد، عدم برداشت، قتل وغارت نے شاید بدین کی عورتوں کے لاشعور میں ایسا ڈر بھر دیا کہ ماؤں کی کوکھوں نے دلیر اور دیداوروں کو جنم دینا ہی چھوڑ دیا ہے۔

اس وقت لاڑ کو ایک اور فاضل راھو اور تاری سومری کی اشد ضرورت ہے۔

کچھ ہی دن پہلے ٹنڈو غلام حیدر بدین روڈ کے نزدیک چانڈیو برادری کے کچھ لوگوں نے 14سالا وجیش کوہلی کو بے رحمی سے قتل کر دیا، آس پاس کے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگوں میں سے کسی میں اتنی ہمت پیدا نہ ہوئی کہ ان وحشیوں کو روک سکیں۔ ان مردہ ضمیرانسانوں نے بس تماشا دیکھا اور آنکھوں میں ڈر لیے وجیش کوہلی کے گھر والوں کو اس کی موت کی خبر پہنچا دی۔ ایک پل تک تو ان بوڑھی آنکھوں اور کانوں کو یقین ہی نہیں آیا ہو گا کہ ایسی قیامت ان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، خون سے لت پت لاش سب کے چہرے پر ہزاروں سوال چھوڑگئی تھی، یہ اس دور کے نام نہاد آزادانہ معاشرے کے منہ پر ذلت کا ایک ایسا طمانچہ تھا جس کے نشانات شاید سالوں تک درد کتھا بن کرشرم دلاتے رہیں۔

ایک پل تک تو ان بوڑھی آنکھوں اور کانوں کو یقین ہی نہیں آیا ہوگا کہ ایسی قیامت ان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، خون سے لت پت لاش سب کے چہرے پر ہزاروں سوال چھوڑگئی تھی،
جس طرح لاڑ کو لہو سے نہلایا جا رہا ہے اور جس طرح سماجی نا برابری، غلامی، اور مذہبی منافرت کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے، معصوم عام لوگوں اور مذہبی اقلیتوں کو جاگیرداری، اور مذہبی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے، وہ سندھ دھرتی کے امن و رواداری کے لیے زہر قاتل ہے۔ سچ کو سامنے لانے والی زبانوں پر چپ کے تالے لگا دیئے ہیں، حکومت کے ساتھ ساتھ قدرت بھی ہر چار پانچ سال بعد اپنے عذاب کی بارش ایسے برساتی کہ جاگیرداروں کے گودام ہی بھرے رہتے ہیں، اور عام انسان سیلابی پانی کی نظر ہوجاتا ہے۔ جو چند ایک وجیش جیسے معصوم نوجوان بچتے ہیں وہ وحشت اور شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ وجیش کوہلی کے والد سونو کوہلی کے کہنے پر ٹنڈو غلام حیدر تھانہ پر پرچہ تو کاٹ دیا گیا ہے، قاتل بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں، مگر انصاف کی آس جاگیرداری کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ جہاں وجیش کوہلی کو قتل کیا گیا ہے وہیں سے سندھ کے موجودہ ڈی آئی جی، اے ڈی خواجہ کا بھی روحانی رشتہ ہے، اب دیکھتے ہیں کہ وجیش کو انصاف ملے گا یا پھر یہ قتل بھی پولیس فائل سے نکل کر ٹوکری کی نظر ہوجائے گا۔

(نوٹ: لاڑ سندھ کے جنوبی حصے کو کہا جاتا ہے، لاڑ کا مطلب نشیبی، زیریں یا نچلا علاقہ بھی ہے۔لاڑ میں بدین، ٹھٹہ، ٹنڈومحمد خان، کراچی کا جنوبی حصہ شامل ہیں۔)

2 Responses

  1. Aamir Abbasi

    Could not control my tears.why people are so barbaric and cruel.why they are enemy of humanity.why for the sake of religion they kill innocent people.rest in peace vejesh…

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: