Laaltain

سماجی مظاہر اور لینن ازم

13 اپریل، 2016

youth-yell-featured

جرمنی میں پیدا ہونے والے کارل مارکس کو نظریاتی طور پر روسی بالشویک انقلاب کا سب سے بڑا فکری رہنما اور نظریاتی رہبر تصور کیا جاتا ہے۔ 1848 میں شائع ہونے والے اس کے پمفلٹ کمیونسٹ منشور (communist manifesto) اور 1867 کی شہرہ آفاق تصنیف سرمایہ (das capital) نے ہیگل کی جدلیات کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ہیگل کی جدلیات کے مطابق اختلافات انقلاب کو جنم دیتے ہیں اورانقلاب قدامت سے جدت کی طرف سفر کا نام ہے۔ اگر اختلاف نا ہو گا تو قانون قدرت جمود کا شکار ہو جائے گا جو روزمره سرگرمیوں میں بطور ایندھن کام کرتا ہے۔ اس نے اس کو آقا اور غلام کے تناظر میں پیش کیا جسے بعد میں کارل مارکس نے مزدور اور سرمایہ دار کے باہمی تعلق کی شکل میں پیش کیا۔

 

اپنی تصانیف میں اس نے لکھا کہ سرمایہ مزدور کی محنت کے باعث مزید سرمائے کو جنم دیتا ہے لیکن مزدور کی روزمره اجرت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں صرف اتنا ہی دیا جاتا ہے کہ وہ زنده ره سکیں۔
اپنی تصانیف میں اس نے لکھا کہ سرمایہ مزدور کی محنت کے باعث مزید سرمائے کو جنم دیتا ہے لیکن مزدور کی روزمره اجرت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں صرف اتنا ہی دیا جاتا ہے کہ وہ زنده ره سکیں۔ اس نے کہا کہ ایسا کرنے سے سرمایہ دار امیر تر اور مزدور غریب تر ہوتے جائیں گے۔ اس سارے پیرائے میں مفادات کا اختلاف ( clash of interests)پیدا ہوتا ہےاور اس اختلاف کے نتیجے میں ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان مزدوروں کی حالت اتنی خستہ ہو جائے گی کہ ایک دن وہ سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گےاور دولت کی منصفابہ تقسیم یعنی اشتراکیت سے ہی معاشرے میں امن ممکن ہو سکے گا۔

 

اس زمانے میں جب مارکس اپنی تحریروں کی وجہ سے ایک نئی اشتراکی فکر اور جدوجہد کی بنیادیں کھڑی کر رہا تھا روس کے ایک چھوٹے سے قصبے سمرسک( simrsik) میں لینن پیدا ہوا۔ لینن ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور نوجوانی میں اس کے بھائی کو زار روس پر قاتلانہ حملے کے جرم میں گرفتار اور پھر قتل کر دیا گیا۔ مڈل کلاس طبقے کی کمزوری، معیشت کی بدحالی اور زار کے غیر منصفانہ طرز حکومت نے اسے بغاوت پر مجبور کیا۔ مارکس نے کمیونزم کی بات تو کی تھی لیکن اس کی تحریروں میں اس کے لئے ایک ایسےوقت کے انتظار یا ایک ایسی مزدور اکثریت کی پرامن جدوجہد کا تذکرہ ملتا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے عروج سے پیدا ہونے والے معروضی حالات کا نتیجہ ہو گی، یعنی ایک دن لوگ خود بخود پورے نظام پر قبضہ کر لیں گے اور عالمی سرمایہ داری کے متبادل ایک عالمی اشتراکیت پیدا ہو جائے گی۔ لینن مارکسسٹ تو تھا لیکن اس نے لوگوں کے خودبخود کھڑے ہونے کا انتظار کیے بغیر ان کو ایک مخصوص پلیٹ فارم پر یکجا کر کے اجتماعی طور پر لڑنے اور کھڑا ہونے کے لئے تیار کیا۔ ایک پارٹی کا وجود لینن اور مارکس کے درمیان سب سے بنیادی فرق تھا۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کچھ دوست پہلی انٹرنیشنل کا ایک پارٹی کے طور پر حوالہ دے کر اختلاف کریں گے لیکن بات وہی ہے کہ انٹرنیشنل اس طرح میدان عمل میں نہیں اتری اور سرگرم نہیں رہی جو ایک انقلاب کی بنیاد رکھ سکے۔

 

چے گویرا کے بقول اگر فطرت خود مارکسسٹ ہے تو وه کیا کر سکتا ہے اس کی مثال وہ سورج اور ہواؤں کے سب کے ليے یکساں ہونے کی دیتا ہے۔
اپنی کتاب کیا کیا جائے( what is to be done) اور دیگر کتابچوں میں لینن نے حکمت عملی بتائی کہ کس طرح جدوجہدکی جائے اور انقلابی ریاست کی کیا شکل ہو گی۔ اس نے لکھا کہ انقلابی ریاست میں وسائل سب کے لئے یکساں ہوں گے اور ہر کسی سے اتنا ہی کام لیا جائے گا جتنا وه کر سکے اوراس کو بدلے میں اتنا دیا جائے گا جو اس کی ضروریات کے لئے کافی ہو گا۔ ایک اشتراکی روس میں کسی کے ساتھ امتیاز یا زیادتی نہیں کی جائے گی۔ اگر مولانا مودودی صاحب کے افکار اور سوشلزم کے بارے میں ان کے اقوال کو دیکھا جائے تو اشتراکیت خدا کے انکاری سر پھرے لوگوں کی قانون قدرت کے خلاف بغاوت کے علاوه اور کچھ نہیں اور دوسری طرف ماده پرستوں کے نزدیک یہ ایک جبری طور پر مسلط کردہ معاشی نظام اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ایک آمرانہ طرز حکومت ہے جس میں انفرادیت اور شخصی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ اس سارے تناظر میں وه یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کرہ ارض پر ہر معاشی نظام عام لوگوں پی زبردستی مسلط کیا گیا ہے اور عوام نے مجبورأ ہر نظام کو قبول کیا ہے، اس کی مثال پچھلےستر سالوں میں سوشلزم سے لے کر صدارتی نظام حکومت تک کا پاکستان میں نفاذ ہے۔ اشتراکیت پر تنقید کی بنیادی وجہ سرمایہ دار طبقے کو اشتراکیت کے نتیجے میں پہنچنے والا نقصان ہے جو ایک ذاتی عناد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

 

چے گویرا کے بقول اگر فطرت خود مارکسسٹ ہے تو وه کیا کر سکتا ہے اس کی مثال وہ سورج اور ہواؤں کے سب کے ليے یکساں ہونے کی دیتا ہے۔

 

اس بات سے قطع نظر کہ فطرت کیا ہے اور کیا نہیں، اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ لینن ازم یا سوشلزم کس طرح سے ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی میں رائج رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اشتراکیت کی بعض بے حد دلچسپ صورتیں رائج ہیں جن میں سے ایک دعوت ولیمہ بھی ہے۔ چند روز پہلے ایک ولیمہ میں شرکت کا اتفاق ہوا اور بعض حیران کن مشاہدات نظر سے گزرے۔ یہ مشاہدہ واقعی حیران کن تھا کہ کس طرح یکا یک سب لوگ تمام اختلافات کے باوجود عملی لیننسٹ بن جاتے ہیں اور عملی طور پر اس کا مظاہره بھی کرتے ہیں۔ یعنی کس طرح ایک دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے، ہم خیال لوگوں ( دوستوں،رشتہ داروں) کو اس میں شریک کیا جاتا ہے اور ان کے سامنے وسائل (کھانا اور مشروبات) برابر مقدار میں رکھے جاتے ہیں۔ ہر شخص جتنی ضرورت ہو اس کے مطابق کھاتا ہے اور حسب استطاعت سلامی پیش کرتا ہے۔زیاده کھانا ڈالنا اور ضائع کرنا افسر شاہی کی روایت ہے۔ یہی نہیں ہمارے دیہات کی شادی بیاہ کی بہت سی رسمیں اسی اشتراکیت کی مظہر ہیں جن میں بارات کے ٹھہرنے کے انتظام سے لے کر رخصتی کے انتظامات تک سبھی کام مل جل کر کیے جاتے رہے ہیں، یہی معاملہ فوتگی اور پیدائش کی رسموں کا بھی رہا ہے۔

 

لنگر کا اصول تھوڑا الگ ہے کہ کسی کو دعوت نہیں دی جاتی لوگ مرضی سے آتے، کھاتے اور چلے جاتے ہیں اور ادائیگی کا بھی کوئی تصور نہیں
لنگر کا اصول تھوڑا الگ ہے کہ کسی کو دعوت نہیں دی جاتی لوگ مرضی سے آتے، کھاتے اور چلے جاتے ہیں اور ادائیگی کا بھی کوئی تصور نہیں، ایک انارکی کا سا ماحول پیدا ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ زیاده تر کم پیسوں کے کھانے کے عوض زیاده نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔ یہی سماجی مظاہر دراصل سوشلزم کی سچائی ثابت کر رہے ہیں اور بے خبری میں ہر کوئی اسی کا حصہ بن جاتا ہے، شاید ہر شخص جس نے دور جدید کی کسی شادی میں شرکت کی ہو وه لیننسٹ بن چکا ہے۔

 

اس صورت حال کی مضحکہ خیزی ایک طرف مگر اسے دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے ایک یہ کہ کون سی دعوت میں ایسا ہوتا ہے کہ خوشی بھی اپنی ہو، ناک اونچی رکھنے کے تصور سے عالی شان کھانا بھی دیا جائے اور آخر میں ایک بھکاری دروازے پر اس نیت سے بٹھا دیا جائے کہ احباب کا خرچہ کافی ہو چکا ہے اور اس مد میں جو قرض لیا ہے وه بھی چکایا جا سکے اور دوسرا یہ کہ سلامی دینے والوں نے بھی کبھی نہ کبھی یہی کیا ہوتا ہے، آخر کہیں نہ کہیں سے تو اس رسم نے جنم لیا ہوتا ہے۔

 

دوسرا پہلو جو مثبت ہے وہ میزبان کی امداد ہے اور جب یہ امداد یا مدد ایک غریب رشتہ دار امیر کی کرتا ہے تو طبقاتی تقسیم کی دیوار زمین بوس ہو جاتی ہے اور ایک طبقاتی تقسیم سے آزاد معاشرے کا جنم ہوتا ہے خواه اس کا دورانیہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔

 

ایک سوشلسٹ سماج سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے، اور ہمارے معاشرے میں جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کے قائل نہیں انہیں سب سے پہلے اس ولیمے کی رسم کے خلاف آواز اٹھانا ہو گ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *