[blockquote style=”3″]
جناب اڈیٹر صاحب، تسلیم! ذیل میں مسز لکشمی این. مینن صاحب ایم. اے.، ایل. ایل. بی. کے مضمون کا ترجمہ ہے۔ موصوفہ نے میری خواہش پر خاص معلومات کے لیے عنایت کیا ہے گو ترجمہ لفظی نہیں ہے لیکن کوشش کی ہے کہ ممدوحہ کے خیالات اردو میں بدل نہ جائیں۔ جیساکہ مضمون میں ذکر ہے، تعلیم نسواں کی طرف سے لوگوں میں ایک طرح کی بیداری ضرور پیدا ہوگئی ہے لیکن لڑکوں والی تعلیم لڑکیوں کو نہیں دی جاتی۔ یہ کیوں؟ صاف صاف عرض کروں تو لوگ بدتمیز کہیں گے لیکن بغیر کہے رہا بھی نہیں جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ ڈرتے ہیں کہ عورتیں اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گی تو پردہ ہلکا کرنا پڑے گا اور اگر پردہ ہلکا ہوگیا تو آوارگی دُہری ہے۔ میرے تو عقل ناقص میں آوارگی اور علمی قابلیت میں کہیں دور کا بھی لگاؤ نہیں ہے۔ آوارہ ہونے والیاں آج پردے میں بھی بیٹھی آوارہ ہیں اور عفیفہ پردے کے باہر بھی آبدار موتی کی طرح بے عیب ہیں۔ علم کی حفاظت مزید برآں، وجہ یہ ہے کہ آوارگی افتادِ طبع پر موقوف ہے اس معاملے میں جکڑ بندیاں بیکار ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں تو پردہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ خود مسلمانوں کے یہاں بھی پردے کے بارے میں اختلاف ہے۔ بہت سے حضرات اس کے قائل ہیں کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ نصّ صریح کی رو سے نہیں ہے۔ حج اور روزمرہ کی نماز میں تو چہرہ کھلے ہی گا۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں جو آیت چہرہ ڈھانکنے کی آئی ہے اور جس سے زیادہ صاف کوئی دوسری آیت چہرے کے پردے کی نہیں ہے اس سے بھی صرف وقتی حکم معلوم ہوتا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۂ احزاب۔ مولانا کرامت حسین صاحب اعلی اللہ مقامہٗ سابق جج ہائی کورٹ، الٰہ آباد، عربی کے عالم متبحر تھے اور انگریزی فلسفہ و قانون کے عالم تھے۔ وہ بھی اسی خیال کے تھے۔ اور اگر لوگوں کو ووٹ کھو بیٹھنے کا ڈرنہ ہوتا تو آج بھی اس خیال کے لوگ موجود ہیں لیکن بڑا غضب تو یہ ہے کہ ہم لوگ اگر قرآن پڑھتے بھی ہیں تو اپنے روزمرہ کے اعمال سدھارنے کے لیے نہیں بلکہ صرف تلاوت کا ثواب حاصل کرنے کے لیے، رہے اعمال وہ حضرات علما کی حسب پسند درست ہوتے رہتے ہیں۔ حالاں کہ قرآن شریف میں تدبّر کا بھی حکم ہے اور اس طرح کی بھی آیتیں موجود ہیں کہ ولایتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللہ (اور اختیار نہیں کرتے ہیں اپنے میں سے بعضوں کو اپنے خدا علاوہ خدا کے) ۔ ملاحظہ ہو سورۂ آلِ عمران و تفسیر بیضاوی۔ اور اس طرح کی بھی آیتیں موجود ہیں کہ اتخذوا احبارہم و رُھبانھم ارباباً من دون اللہ (اختیار کیا لوگوں نے اپنے دانایان اور گوشہ نشینوں کو اپنے خدا سوا خدا کے)۔ ملاحظہ ہو سورۂ توبہ، مگر اس کے معنی ہم مقلدین اور معتقدین کیا سمجھ سکتے ہیں۔ ہم تو صرف اس قدر جانتے ہیں کہ جناب مولانا جو فتویٰ دے دیں وہی ٹھیک ہے۔ پردے کے لیے انھوں نے فرما دیا کہ پردے کے یہ معنی ہیں جو ہم ہندوستان میں کرتے ہیں۔ بس مجال دم زدن کس کو باقی ہے۔
(محمد علی عفی عنہٗ)
(محمد علی عفی عنہٗ)
[/blockquote]
مترجم: چودھری محمد علی ردولوی
ہم لوگ آج تک یہ نہ طے کرسکے کہ تعلیمِ نسواں کس طرح کی ہونی چاہیے، اس قدر تو ہوگیا ہے کہ تعلیم کی ضرورت کو سب نے تسلیم کرلیا ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ خیال ابھی تک ہم پر مسلط ہے کہ عورت ہماری سماجی زندگی میں کم درجہ رکھتی ہے۔
ہم لوگ آج تک یہ نہ طے کرسکے کہ تعلیمِ نسواں کس طرح کی ہونی چاہیے، اس قدر تو ہوگیا ہے کہ تعلیم کی ضرورت کو سب نے تسلیم کرلیا ہے لیکن اسی کے ساتھ یہ خیال ابھی تک ہم پر مسلط ہے کہ عورت ہماری سماجی زندگی میں کم درجہ رکھتی ہے۔
اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ عورتیں علمی تاریکی میں نہیں رکھی جاسکتیں، نہ وہ اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ سکتی ہیں۔ ہماری معاشرتی اور سیاسی زندگی کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ نصف اولاد آدمؑ کو بجائے عاقل، مکلّفہ تسلیم کرنے کے مردوں نے بے بس اور کم درجہ کی مخلوق سمجھ رکھا ہے۔
اگر یہ مان لیا گیا ہے کہ تعلیم انسان کے لیے ہر حال میں بہتر ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو صرف اس قدر تعلیم دینا چاہیے جو خانہ داری کے انتظامات کے لیے ضروری ہو یا اس سے زیادہ بھی یعنی ان کو ایسی تعلیم دی جائے کہ ملک کے مختلف معاملات میں دخل دیں یا صرف شوہر اور بچوں کو آرام پہنچا سکیں۔
ممکن ہے کوئی صاحب یہ فرمائیں کہ اگر ہر خاندان آرام سے ہے تو پورا ملک بھی آرام سے ہوگا۔ کیوں کہ جس طرح کے تمام اجزا ہوں گے اسی طرح کی مجموعی چیز بھی ہوگی۔ اس دلیل میں مغالطہ اتنا بیّن ہے کہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے علاوہ آخرالذکر طریقے میں عورت اور مرد کے معیار نظر میں زمین آسمان کا فرق ہوجانا لازمی ہے۔ عائلی زندگی اور سیاسی زندگی میں کہیں کا تال میل ہی نہ رہ جائے گا۔ ایک میں عورت کی شرکت ہو گی اور دوسری میں صرف مرد ہی کارفرما رہیں گے۔
سوابتدائی تعلیم کے دونوں جنسوں کا نصاب تعلیم بالکل مختلف ہوجائے گا۔ لڑکی اپنی نصابی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑی اچھی باورچن یا دھوبن ہوجائے یا خانہ داری میں کمال دکھادے، لیکن اس کے آگے نہیں جاسکتی۔ لڑکے کے لیے ماشاء اللہ بہت سے علمی دروازے کھلے ہیں۔ بہت سی شاہراہیں موجود ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا، مشاغل اور نظریے جدا جدا ہوگئے۔ تعاون عمل اور ہم خیالی کی چول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈھیلی رہ گئی۔ قومی ترقی کا اڑان اس چڑیا کی پرواز کی طرح ہوگیا جو صرف ایک بازو سے ہوا پر قائم رہنا چاہتی ہو۔ یورپ کی مثالیں میں نہ دوں گی۔ گو واقعات واقعات ہی ہیں، چاہے یہاں ہوں چاہے وہاں۔ یورپ کی حالت اور ہے، ہندوستان کی حالت اور (اور نہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ ہندوستان کی حالت غیر ہے)۔ ہندوستان کی حالت یورپ سے جداگانہ اسی لیے کہی جاتی ہے کہ ہمارا ملک ترقی کی راہ میں آبلہ پا ہے، یہ اپنی عورتوں کو اور اپنی بہت سی قوموں کو بُری حالت میں ڈالے ہے معلوم نہیں کب وہ سُبھ گھڑی آئے گی کہ ہمارا ملک بھی یہ قدیم ڈھرا چھوڑکر دوسرے ممالک کے دوش بدوش آگے بڑھے گا اور ہندوستان کی تباہ کن خصوصیات کا پشتارہ پھینک کر صعوبات سفر کم کرے گا۔ آخر اور ممالک بھی تو ہیں۔ ترکی کو دیکھیے، مصر پر نظر کیجیے، جاپان اور چین کی حالت ملاحظہ فرمائیے۔ اگر قدیم زمانے کی تہذیب ہی اصل چیز ہے تو چینیوں کے یہاں اگلے وقتوں کا کاٹھ کباڑا اثاث البیت ہم سے کہیں زیادہ بھرا پڑا ہے۔ لیکن اس نے پرانی زنجیریں کس طرح توڑی ہیں، آزادی و ترقی کے حصول میں کیسی کوشش کی ہے، بیرونی اثرات سے چھٹکارا پانے کے لیے کیا کیا زور لگائے ہیں۔ معلوم نہیں کہ وہ غریب کامیاب ہوگا یا ناکام رہے گا، لیکن :
عورت کو حوّا کی بیٹی سمجھنے کے پہلے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ آدم کی بھی بیٹی ہے۔ ہم کو یہ مان لینا پڑے گا کہ باوجود جنسی اختلاف کے تعلیمی ضرورتیں عورت کی بھی وہی ہیں جو مرد کی ہیں۔
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
کم سے کم جدوجہد اور جان توڑ کوشش کا ٹیکا تو اس کے ماتھے پر رہا۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ اگر چین اور ترکی سے ہم بھی یہی سبق پڑھ لیں تو قبل از وقت نہ ہوگا۔ اور اگر واقعات حاضرہ پر بجائے گزشتہ ترقیوں کے خواب دیکھنے کے ایسی نظر ڈالیں جو مشاہدات کا تقاضا ہے تو بہتر ہی ہوگا۔ میرے خیال میں عورتوں کو خالی پُہلا سڑوں کی تعلیم دینا اور منہ سے ان کو سرتاج اور دیبیاں کہنا اگر لوگ چھوڑ دیں تو عورتوں پر احسان کریں۔ خوب صورت اور رنگین پروں والی چڑیاں بھی خالی باغ کی ہوا اور مزے مزے کی زفیلوں پر زندہ نہیں رہ سکتیں، تو عورت کیسے رہے گی۔ کیوں کہ اپنی تکلیفوں کا اندازہ کرکے اگر کوئی طبقہ ہے جس نے مشاہدات کے رو سے جانچ کرلیا ہے اور زبانی جمع خرچ کی اصلیت سے واقف ہوگئی ہے تو وہ غریب عورت ہی ہے۔ گھر کی دیوی اور پگڑی کا پھول سنتے سنتے اب وہ اُکتا گئی ہے۔
تعلیمِ نسواں میں کس بات کی کمی ہے اور ہم کیا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلی بات جو مانگتے ہیں وہ یہ ہے کہ لڑکیوں کا تعلیمی نصب العین بدل دیا جائے، یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم لوگ عورتوں کو اپنا کھلونا سمجھنے کے بجائے ان کو شریک کار سمجھیں۔ اگر ہم نے معاشرتی دنیا میں اس کی نئی حیثیت تسلیم نہ کی تو ہم اِس سے بہتر قسم والی تعلیم کیوں کر دے سکیں گے۔ عورت کو حوّا کی بیٹی سمجھنے کے پہلے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ آدم کی بھی بیٹی ہے۔ ہم کو یہ مان لینا پڑے گا کہ باوجود جنسی اختلاف کے تعلیمی ضرورتیں عورت کی بھی وہی ہیں جو مرد کی ہیں۔ زندگی کی مشکلیں جھیلنے کے لیے عورت پر مرد سے زیادہ بوجھ پڑا ہوا ہے اس کے بعد بھی اگر ہم مقابلہ کرنے کے لیے اس کو پوری طرح سے تیار نہ کریں تو حیف ہے۔ ان کو بیویاں بننا ہے، مائیں بننا ہے، مگر اس کے لیے کہاں سے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ دست نگر رکھی جائیں اور بے بس بنائی جائیں۔ اگر کوئی عورت اپنے گھر بار، بال بچوں میں منہمک ہے تو خدا مبارک کرے۔ اس کے ساتھ اگر کسی کا تجربہ تلخ ہوا ہے تو اس کو ایسا بنادینا چاہیے کہ وہ اپنی بیڑیاں کاٹ ڈالے اور اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے۔ قصہ مختصر لڑکی لڑکے کی تعلیم یکساں ہونی چاہیے تاکہ ہم خیالی کا توازن قائم ہوسکے اور ’’من چہ می سرایم و تنبورۂ من چہ می سراید‘‘ جیسا عموماً ہندوستانی گھروں میں دکھائی دیتا ہے، اس سے چھٹکارا ملے۔
جس طرح انسانی آزادی کی تحریک نے ممالک کو آزاد کیا۔ حرفتی تحریک نے پیشہ ور کا عقدہ وا کیا اسی طرح ہم بھی عورتوں کے تعلیمی نصاب میں ایک سریع السیر انقلاب چاہتے ہیں تاکہ عورت بندی خلاص ہو۔
ہمارے قومی لیڈران کی یہ حالت ہے کہ سیاسی مطمع نظر آسمان سے تارے توڑ لانے پر تیاری، مگر معاشرتی نقطۂ نظر سے دیکھیے تو اچھے خاصے چغد ہیں۔ ان کو سیاسی ترقی کی چھوٹی چھوٹی خوراکیں تسکین نہیں بخشتیں۔ آزادی کے میدان میں ہماری آہستہ قدمی پر ان کو رنج ہے۔ لیکن ہمارے لیے جو قانون وراثت مقرر کیا گیا ہے اس کو وہ دل و جان سے پسند فرماتے ہیں اور بالکل کافی وافی سمجھے ہیں۔ ہمارے نصاب تعلیم کو وہ مردوں کے نصابِ تعلیم سے علاحدہ ہی رکھنا چاہتے ہیں یہ ملک کی بدنصیبی ہے اور انھیں بدنصیبیوں کی وجہ سے پولیٹکل اور سوشل ترقی میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتا ہے۔ ’’دھوبی کا چھیلا آدھا اُجلا آدھا میلا۔‘‘ یہ ہی لیڈران ہیں جن میں خود ہمارے جنس کے افراد بھی شریک ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کے جہیز میں روشن خیالی اگر نہ ہوئی تو کوئی ہرج نہیں۔ تاریخ اور ریاضی کی عورت کو کیا ضرورت ہے۔ اگر بعض شاہان سلف کی اہلی زندگی خراب تھی یا ریاضی کے مسائل مشکل ہیں تو عورت کو کیا، اور اگر اس کے برعکس ہوا تو عورت کو کیا۔ اس کے لیے عمدہ بی بی اور عمدہ ماں بن جانا کافی ہے ۔ ڈاکٹر لوگ مریض کا مذاق چاشنی دریافت کرکے دوا نہیں دیتے، تو پھر نصابِ تعلیم ہم سے پوچھ کر کیوں مقرر ہو۔ جو چارہ مرغ کے لیے مناسب ہے وہ مرغی کے لیے مناسب ہو یا نہ ہو۔ لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ تعلیمی معاملات میں انسان کی دونوں جنسوں کی ضرورتیں برابر ہیں بشرطیکہ طبیعت کا رجحان ہو۔ اسی طبیعت کا رجحان دیکھ کر نصابِ تعلیم میں فرق جائز ہے لیکن جہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں اختلاف صراصر ظلم ہے۔
متذکرہ بالا مستثنیات کے علاوہ میرا دعویٰ ہے کہ لڑکی لڑکوں کے نصابِ تعلیم میں کوئی اور فرق بربنائے جنس نہ ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں عورتوں کی فلاح کے بہت سے مسائل ہیں ان کے حل کرنے کے لیے کونسلوں میں عورتوں کی تعداد روز افزوں زیادہ ہونا چاہیے اور ایسی عورتیں برسرکار ہونا چاہییں جن کا علمی درجہ اس قدر بلند ہو کہ وہ مشکلات کو سمجھ سکیں اور ان کو حل بھی کرسکیں۔ مرد لوگ ہزار ہمدردی کریں لیکن عورت کی مہم عورت ہی سر کرسکتی ہے، جس کو مصیبت کی تکلیف اور اس کے دور کرنے کا احساس ہو۔ جس طرح انسانی آزادی کی تحریک نے ممالک کو آزاد کیا۔ حرفتی تحریک نے پیشہ ور کا عقدہ وا کیا اسی طرح ہم بھی عورتوں کے تعلیمی نصاب میں ایک سریع السیر انقلاب چاہتے ہیں تاکہ عورت بندی خلاص ہو۔