کبھی بابائےٹک ٹک کہاگیاتوکبھی سست اوربزدل کپتان کے طعنے ملے لیکن مصباح اپنی جگہ پر ڈٹے رہے اور تنقید کے نشتر سہتے سہتے ستاسی ایک روزہ میچوں میں گرین شرٹس کی کپتانی کر گئے۔ یوں کہیں کہ سپاٹ فکسنگ سکینڈلزمیں ڈوبی ٹیم کو سنبھال کر مصباح الحق نے کپتانی کا حق ادا کر دیا۔ 2010 میں چھتیس برس کی عمرمیں مصباح کےکندھوں پر قومی ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری اس وقت ڈالی گئی جب پاکستان کرکٹ سپاٹ فکسنگ کی دلدل میں دھنس چکی تھی۔ اس سکینڈل کے مرکزی کرداروں سلمان بٹ ، محمد آصف اور محمد عامر کو سزا ملی اور پاکستان کرکٹ کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ ستم ظریفی یہ کہ ملک کو بدنام کرنے والے یہی انوکھے لاڈلے آج کل ٹی وی چینلز پر شرفاء کے کھیل کرکٹ پرتجزیے اور تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مصباح کی بدقسمتی کہیے یا پاکستان کی کہ انہیں کپتانی سنبھالنے کے بعد ساتھی کھلاڑیوں اور انتظامیہ سے وہ تعاون اور حمایت نہ ملی جو کسی بھی کپتان کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے ۔
مصباح کی بدقسمتی کہیے یا پاکستان کی کہ انہیں کپتانی سنبھالنے کے بعد ساتھی کھلاڑیوں اور انتظامیہ سے وہ تعاون اور حمایت نہ ملی جو کسی بھی کپتان کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے ۔اس پر مستزاد یہ کہ امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث وہ اپنے ملک میں ایک بھی میچ کی قیادت نہ کرسکے،دنیا کا شاید ہی کوئی کپتان ہو جو اپنے ملک میں کپتانی سے محروم رہا ہو۔ ٹیم میں دھڑے بندی ، کپتانی کے خواہش مند دیگر بزرگ کھلاڑی ، سلیکٹرز اور انتظامیہ کی بے رُخی بھی مصباح کی راہ میں مشکلات کی دیواریں کھڑی کرتی رہی۔مصباح نےہمیشہ مشکل حالات میں ٹیم کی ڈوبتی نیا کو کنارے پر لگایااسی لیے انہیں مردبحران بھی کہاگیا۔ تمام کپتانوں کی طرح ان میں بھی چند خامیاں تھیں، مصباح بوجوہ جرات مندانہ فیصلے نہ کرسکے۔اگر دلیری اور خطرہ مول لینےکی صلاحیت ہمارے کپتان جی میں ہوتی تو کرکٹ کی تاریخ میں انہیں کچھ اور الفاظ میں یاد کیا جاتا۔ٹیم میں تبدیلی سے ڈرنا بھی مصباح کی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری تھی ۔
کم زوریوں اور بحرانوں میں گھرے رہنے کے باوجود مصباح کی انفرادی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ مصباح نے ایک سو باسٹھ ایک روزہ میچوں میں43.40 کی اوسط سے 5122 رنز بنائے۔ہمیشہ مشکل وقت میں میدان میں اترنےوالےمصباح الحق کوشش کے باوجود ایک روزہ کرکٹ میں سنچری بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ کپتان کا زیادہ سے زیادہ سکور چھیانوےناٹ آؤٹ ویسٹ انڈیزکے خلاف سکور تھا۔
کم زوریوں اور بحرانوں میں گھرے رہنے کے باوجود مصباح کی انفرادی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ مصباح نے ایک سو باسٹھ ایک روزہ میچوں میں43.40 کی اوسط سے 5122 رنز بنائے۔ہمیشہ مشکل وقت میں میدان میں اترنےوالےمصباح الحق کوشش کے باوجود ایک روزہ کرکٹ میں سنچری بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ کپتان کا زیادہ سے زیادہ سکور چھیانوےناٹ آؤٹ ویسٹ انڈیزکے خلاف سکور تھا۔
اگر میچ فکسنگ کی وجہ سے کسی اور ملک میں کسی کھلاڑی کو کپتانی کی پیشکش کی جاتی تو وہ یہ عہدہ قبول کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتالیکن مصباح نے اس چیلنج کو نا صرف قبول کیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بھی بنے۔
مصباح ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے کامیاب ترین کپتان بھی ہیں ان کی سربراہی میں ٹیم 15 ٹیسٹ سیریز میں سے صرف تین ہاری ہے۔متحدہ عرب امارات جہاں اب پاکستانی ٹیم کھیلتی ہے، وہاں مصباح کی قیادت میں پاکستان سات سیریز جیت چکا ہے اور آسٹریلیا اور انگلینڈ کو وائٹ واش کر چکا ہے۔ہونا تو ایسا چاہیے تھاکہ ان حالات میں کامیابیاں حاصل کرنے اور 50 کے قریب اوسط سے ٹیسٹ میچوں میں رنز بنانے والے مصباح کو پاکستان میں پذیرائی ملتی لیکن ایسا نہیں ہوسکا ان کی ایک روزہ کرکٹ کی وجہ سے پاکستان میں لوگوں کی رائے منقسم رہی ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر، محمد یوسف اورسکندر بخت اپنے کرکٹ تجزیوں کے دوران مصباح کو بزدل اور خود غرض کپتان کہتے رہے ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر کے اعتراضات ذاتی پرخاش اور کسی حد تک بغض کی وجہ سے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ان کے اپنے کیرئیر میں کتنے مقابلے جیتے گئے اور کتنے عالمی کپ ان کی قیادت پاکستان ہارا۔ عمران خان، وسیم اکرم اور رمیض راجہ اگر تنقید کریں تو سمجھ آتی ہے لیکن خود ساختہ کرکٹ پنڈت جو کبھی پاکستان کے لیے کوئی بڑا مقابلہ نہ جیت پائے اور نہ ہی مصباح کی طرح مسلسل ذمہ دارانہ انداز میں کھیل سکے ان کی جانب سے بے جاتنقید کا کوئی جواز نہیں، مثبت تنقید ضروری ہے لیکن ذاتیات کو بیچ میں لے آنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر، محمد یوسف اورسکندر بخت اپنے کرکٹ تجزیوں کے دوران مصباح کو بزدل اور خود غرض کپتان کہتے رہے ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر کے اعتراضات ذاتی پرخاش اور کسی حد تک بغض کی وجہ سے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ان کے اپنے کیرئیر میں کتنے مقابلے جیتے گئے اور کتنے عالمی کپ ان کی قیادت پاکستان ہارا۔ عمران خان، وسیم اکرم اور رمیض راجہ اگر تنقید کریں تو سمجھ آتی ہے لیکن خود ساختہ کرکٹ پنڈت جو کبھی پاکستان کے لیے کوئی بڑا مقابلہ نہ جیت پائے اور نہ ہی مصباح کی طرح مسلسل ذمہ دارانہ انداز میں کھیل سکے ان کی جانب سے بے جاتنقید کا کوئی جواز نہیں، مثبت تنقید ضروری ہے لیکن ذاتیات کو بیچ میں لے آنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ہم شاید بحران کے دوران بلے بازی کے لیے آنے والےاور ایک کم زور ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنے والے مصباح الحق کے جذبات اور ذہنی حالت کا اندازہ کبھی نہیں کر پائیں گے۔
سابق کھلاڑیوں کے علاوہ صحافیوں کی توپیں بھی مصباح پر گولے برساتی رہیں۔ پاکستانی صحافیوں کو ہر وقت کسی ایک ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ برا کہہ سکیں اور جس کی وہ تذلیل کر سکیں اور مصباح ہمیشہ ان کے لیے آسان ہدف رہے۔ملکی ذرائع ابلاغ نے مصباح کو کبھی وہ عزت نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے تا ہم غیر ملکی میڈیا قومی کپتان کے گن گاتا رہا۔ دنیا کے نامور سپورٹس چینل سکائی سپورٹس نے مصباح الحق کے بارے میں لکھا کہ جن مشکل حا لات میں انہوں نے پاکستانی ٹیم کی قیادت سنبھالی وہ قابل تعریف ہے۔ اگر میچ فکسنگ کی وجہ سے کسی اور ملک میں کسی کھلاڑی کو کپتانی کی پیشکش کی جاتی تو وہ یہ عہدہ قبول کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتالیکن مصباح نے اس چیلنج کو نا صرف قبول کیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتان بھی بنے۔ سکائی سپورٹس نے لکھا کہ مصباح نہ صرف اپنی کپتانی سے پاکستان ٹیم کے لیے معیار طے کیا بلکہ مشکل وقت میں انفرادی کارکردگی سے آنے والے کپتانوں کے لیے مثال قائم کی۔ مصباح نے ہمیشہ ایک کم زور ٹیم کے ساتھ مضبوط ٹیموں کو ہرایا بلکہ ہر موقع پر خراب کارکردگی کے بعد ٹیم کو سنبھالا دیا۔ ورلڈ کپ 2015 میں سعید اجمل، محمد حفیظ اورجنید کی عدم موجودگی میں پہلے دو میچوں کی شکست کے بعد کھیل میں واپسی مصباح کی قیادت کی ہی بدولت ممکن تھی۔ ایک کم زور اور نا تجربہ کار ٹیم کے ساتھ ساوتھ افریقہ کو شکست دینا یقیناً ایک کارنامہ ہے۔
آسٹریلیا کے خلاف صہیب مقصود اور حارث سہیل کے سلی پوائنٹ پر کھڑا ہونے سے انکار کے بعد خود ہیلمٹ پہن کر کھڑے ہو نے والے مصباح نے تمام عمر اپنی کارکردگی کو مثال بنا کر ٹیم کو پیروی کرنے پر مجبور کیا۔ ورلڈ کپ 2015میں پاکستان کے کامیاب ترین بلے باز بھی سات میچوں میں تین سو پچاس رنز بنانے والے مصباح الحق ہی ہیں۔ سیلفی ماسٹر احمد شہزاد، عمر اکمل، صہیب مقصود اور خود ساختہ ہیرو شاہد آفریدی سمیت کسی کھلاڑی نے مصباح کی طرح ذمہ داری سے کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ کاش کوئی یہ محسوس کر پاتا کہ جب بیس رنز پر چار پاکستانی بلے باز واپس لوٹ جاتے ہیں تو تب ایک ہی بلے باز پوری ٹیم کو سنبھالا دیتا ہے ، شاید کبھی ہم اس بات کا اعتراف کرسکیں جب پاکستانی کرکٹ کا سورج غروب ہو رہا تھا، جب میچ فکسرز نے ملک کا نام بدنام کیا تب ایک ہی فرد نے ذمہ داری لی اور خوب نبھائی۔ ہم شاید بحران کے دوران بلے بازی کے لیے آنے والےاور ایک کم زور ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنے والے مصباح الحق کے جذبات اور ذہنی حالت کا اندازہ کبھی نہیں کر پائیں گے۔ شاید کسی نے سچ کہا تھا دنیا کا مشکل ترین کام مصباح الحق ہونا ہے۔مستقبل میں جب بیس پر چار اور پوری ٹیم ایک سو بیس پر آؤٹ ہو ا کرے گی گی تویقیناً مرد بحران مصباح کا نام ہم سب کے ذہنوں میں ابھرے گا جو اگرمیچ جتا نہیں پاتا تھا تو پاکستان کی لاج ضرور رکھتا تھا۔
آسٹریلیا کے خلاف صہیب مقصود اور حارث سہیل کے سلی پوائنٹ پر کھڑا ہونے سے انکار کے بعد خود ہیلمٹ پہن کر کھڑے ہو نے والے مصباح نے تمام عمر اپنی کارکردگی کو مثال بنا کر ٹیم کو پیروی کرنے پر مجبور کیا۔ ورلڈ کپ 2015میں پاکستان کے کامیاب ترین بلے باز بھی سات میچوں میں تین سو پچاس رنز بنانے والے مصباح الحق ہی ہیں۔ سیلفی ماسٹر احمد شہزاد، عمر اکمل، صہیب مقصود اور خود ساختہ ہیرو شاہد آفریدی سمیت کسی کھلاڑی نے مصباح کی طرح ذمہ داری سے کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ کاش کوئی یہ محسوس کر پاتا کہ جب بیس رنز پر چار پاکستانی بلے باز واپس لوٹ جاتے ہیں تو تب ایک ہی بلے باز پوری ٹیم کو سنبھالا دیتا ہے ، شاید کبھی ہم اس بات کا اعتراف کرسکیں جب پاکستانی کرکٹ کا سورج غروب ہو رہا تھا، جب میچ فکسرز نے ملک کا نام بدنام کیا تب ایک ہی فرد نے ذمہ داری لی اور خوب نبھائی۔ ہم شاید بحران کے دوران بلے بازی کے لیے آنے والےاور ایک کم زور ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنے والے مصباح الحق کے جذبات اور ذہنی حالت کا اندازہ کبھی نہیں کر پائیں گے۔ شاید کسی نے سچ کہا تھا دنیا کا مشکل ترین کام مصباح الحق ہونا ہے۔مستقبل میں جب بیس پر چار اور پوری ٹیم ایک سو بیس پر آؤٹ ہو ا کرے گی گی تویقیناً مرد بحران مصباح کا نام ہم سب کے ذہنوں میں ابھرے گا جو اگرمیچ جتا نہیں پاتا تھا تو پاکستان کی لاج ضرور رکھتا تھا۔
Leave a Reply