sir-syed

نام کتاب : سر سید کے مذہبی عقائد و افکار:ایک مکالمہ
صفحات: 102
مولف: خو شتر نورانی
مبصر: سید تالیف حیدر

متذکرہ بالہ کتاب مولانا خو شتر نورانی کی تالیف ہے۔ جس کو انھوں نے عالمانہ انداز میں تر تیب دیا ہے۔ اس کتاب میں سر سید کے مذہبی عقائد وافکار پر ایک مختصر مکالمہ پیش کیا گیا ہے۔ جس میں اہل سنت و جماعت کی تین بر گزیدہ شخصیات پیر علی شاہ محدث علی پوری، حامد حسن قادری اور علامہ ارشد القادری کے افکار شامل ہیں۔یہ مکالمہ الفقیہ ہفت روزہ،امرتسرمیں قسط وار شائع ہوا۔ یہ اخبار 1918 سے مسلسل 38برسوں یعنی تقریباً1953تک نکلتارہااوراس اخبار میں سنی و حنفی مسلک کے ان تمام مسائل سے بحث کی جاتی تھی جس کا برا ہ راست تعلق سواد اعظم سے ہوتا تھااور جس کو اہل سنت و جماعت کا اپنے عہد کا کم وبیش سب سے بڑا اخبارکہا جا سکتا ہے۔ اس اخبار میں اس مکالمے کی شمولیت اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ یہ مباحثہ کتنا اہم اور ضروری ہوگاجو الفقیہ جیسے بڑے اخبار میں اپنی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ الفقیہ اخبار کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے کہ کس کس طرح اس اخبار نے نہ صرف مسلکی بلکہ ملی و قومی سطح پہ کیسی کیسی خدمات انجام دی ہیں۔ قیام پاکستان میں اس اخبار کا بڑا رول رہا ہے اور اس اخبار کے مدیر جناب معراج الدین احمد جو اپنے عہد کی بہت متحرک شخصیت تھی، انھوں نے اس اخبار کے ذریعے مسلم لیگ اور سنی سیاست داں حضرات کے خیالات کی نشر و اشاعت جیسابڑاکانامہ انجام دیا ہے۔

مولانا خوشتر نورانی جو عہد حاضر کے با صلاحیت نوجوان علما میں شمار کئے جاتے ہیں اور جن کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں پر اس عہد کی معتبر شخصیات (جن میں صف اول کے علما،ادبا اور شعرا کا شمار ہوتا ہے) نے ان کی پیٹھ تھپتھپائی ہے۔ انھوں نے اس نادر مباحثے کی تالیف سے اس بات کی مزید وضاحت کر دی ہے کہ کوئی بھی اہم تالیفی کا م کن کن امور کا متقاضی ہوتا ہے۔خو شتر صاحب نے الفقیہ کے اس مکالمے کو جو اپنی بوسیدہ فائلوں میں دبا خاک کی نذر ہو رہا تھا از سر نو ترتیب دے کر اپنے علمی، فکری، صحافتی،تہذیبی، قومی، ملی و مسلکی فرائض کی ادائیگی کی ہے۔ان کی تالیف جو بصورت تحقیق ہمارے سامنے ہے اس سے بہت سے تاریک باب روشن ہوتے ہیں۔ ہمارے مکالموں کی خوبیاں و خامیاں سامنے آتی ہیں اور علمی مباحث کا طرز اجاگر ہوتا ہے۔

اس مختصر کتابچے کے مشمولات چار ابواب پر مشتمل ہیں۔ابتدائیہ، تقدیم، سر سید کے مذہبی عقائد و افکار:ایک مکالمہ اور ان اشخاص کی فہرست جن کا ذکر حواشی میں کیا گیا ہے۔ان چاروں ابواب کا مطالعہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ مولف نے اس کتاب کی تالیف سے اپنے تحقیقی مزاج کا ثبوت پیش کیا ہے۔ میں نے اس ضمن میں ابتدائیہ کو بھی اس لئے شامل رکھا ہے کیوں کہ اس ابتدائیہ سے ہی ہمیں علم ہوتا ہے کہ مولانا کو اس مسودے کاحصول کیوں کر ہوا۔ ان چاروں ابواب میں سب سے اہم مضمون وہ ہے جو ‘تقدم ‘کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔یہ مضمون اگر نہ ہوتا تو اس پورے مکالمے کی وہ صورت ہر گز سامنے نہ آتی جس سے اس مکالمے کے حسن و قبح کے نقوش اجاگر ہوتے ہیں۔ سر سید کے مذہبی عقائد و افکا ر پر اصل بحث ہمیں اسی مقدمے میں ملتی ہے۔ جس میں تیرہ ذیلی عناوین میں سے چھ عنوانات سر سید کی شخصیت کے مختصر ترین تعارف ان کے ہمعصراوران کے احباب کے ان سے اختلافات، ان کے مذہبی عقائد،علما کے ان سے اختلافات اور اسی طرح کی دیگر بحثوں پر مشتمل ہیں۔اسی طرح باقی سات عناوین کے ذیل میں مقدمہ نگار نے ان تنیوں اشخاص(جنہوں نے اس مکالمے میں حصہ لیا) اس اخبار اور مدیر اخبار کی مختصر مگر جامع تاریخ پیش کی ہے،جن کا تعلق اس مکالمے سے ہے۔ان ہی سات عنواوین میں مقدمہ نگار نے ایک عنوان فکری انتہا پسندی کے نام سے بھی رقم کیا ہے جس کے ذیل میں موصوف نے ایسی بصیرت افروز گفتگو کی ہے کہ جس کا مطالعہ کر کے صاحب مقدمہ کے تفکرات تک رسائی حاصل ہوتی ہے کہ کس دقیقہ رسی سے وہ مشرقی طرز تنقید کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کا علانیہ اظہار فرماتے چلے جاتے ہیں۔اس مختصر گفتگو سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے اور ایمان داری سے فیصلہ کیجئے کہ کیا یہ طرز انتقاد مشرقی تنقید کا خاصہ نہیں:

ہندو پاک میں حمایت و مخالفت کا پیمانہ عموماً فکری انتہا پسندی پر استوار ہے۔ ہم جب کسی کی حمایت کرتے ہیں تو اس کی تمام خامیوں اور عیوب کو نہ صرف نظر انداز کردیتے ہیں بلکہ انہیں صحیح ٹھہرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں، یونہی جب کسی کی مخالفت پر اترتے ہیں تو ا س کی خوبیوں کو پس پشت ڈال کر اس کی خامیوں کی اشاعت ہی اپنی زندگی کا ہدف بنا لیتے ہیں۔ برصغیر ہندو پاک میں حمایت و مخالفت کے یہ مظاہر عام ہیں جو بلا شبہ سیاسی تغلب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ انداز فکر و نظر سراسر غیر علمی بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ علم و فن اور خدمات کا اعتراف اور عقیدہ و عمل کا احتساب دو الگ الگ چیزیں ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے جاہلی شاعر امراؤ القیس کو الشعرشعرالعرب بھی فرمایا ہے اور حامل نواءھم الی النار بھی۔ پہلا جملہ امراؤ القیس کی فنی عظمت کا تعارف ہے اور دوسرا جملہ اس کی گمراہی فکر و عمل پر مہر۔

میں مولانا کی اس تالیف کو ان کی تحقیق اس لئے بھی سمجھتا ہوں کیوں کہ انھوں نے اپنے موضوعات سے بحث کرتے ہوئے ان ماخذات تک رسائی حاصل کی ہے جہاں تک مولفین پہنچنا اپنا فرض نہیں سمجھتے۔ مثلاً وہ سر سید کے عقائد کی مخالفت میں تحریر کئے گئے نادر رسائل کا تذکرہ اپنے مقدمے میں کراتے ہیں اور نہ صرف اسی تذکرے پر اکتفا کرتے ہیں بلکہ ان تنیوں رسائل جن میں مولانا غلام دستگیر قصوری کا ’جواہر مضیہ رد نیچریہ‘، ڈپٹی مولوی امداد لعلی کا ’امداد الافاق بر جم اہل النفاق بجواب پرچہ تہذیب الاخلاق‘ اور مفتی محمد لدھیانوی کا ’نصرۃ الابرار‘ شامل ہیں، مختصر تعارف بھی پیش کرتے ہیں جو در حقیقت ان کا حاصل مطالعہ ہے۔ ان رسائل کو حاصل کرنا ان کا مطالعہ کرنا اور صرف اخفائے حال سے واقفیت حاصل کر کے مقدمہ نگاری کرنا اس عہد میں بہت کم مولفین کا شیوہ ہے۔پھر ایسی شخصیات کا ذکر جن کا اصل بحث سے کوئی تعلق نہیں لیکن مقدمے میں ان کا تذکرہ دلیل واقعہ کی صورت میں ملتا ہے اس سے بھی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔مثلاً مولانا حمید الدین برادر مولانا شبلی نعمانی کا اور مولانا حبیب، مدیر روزنامہ ’غازی‘ وغیرہ کا تذکرہ اسی ضمن میں آتا ہے۔

تقدیم کے بعد اصل ’مکالمہ‘ آتا ہے جس میں سات عنوان شامل ہیں یہ ہی وہ مکالمہ ہے جو شمارہ 21 تا 28 جنوری 1946 سے شروع ہو کر شمارہ 21 تا 28 ستمبر تک چلا ہے اور جس کی ابتداء پیر سیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری کے فرمان مبارک (مسلم لیگ شرعی حیثیت سے) سے ہوئی اور اختتام علامہ ارشد القادری کے استفسار کا تحقیقی جواب قسط سوم پر ہوا۔اس مکالمے کے ذیل میں یہ فہرست شامل ہے۔

مسلم لیگ شرعی حیثیت سے پیر سیدجماعت علی شاہ محدث علی پوری
بریلوی علام جواب دیں! سلامت اللہ ولی بھائی کاٹھیاواڑی
اذکرو اموتاکم بالخیر پروفیسر حامد حسن قادری
مقام حیرت علامہ ارشد القادری
استفسار نامہ نگار
حیرت پر حیرت پروفیسر حامد حسن قادری
استفسار کا تحقیقی جواب(1) علامہ ارشد القادری
استفسار کا تحقیقی جواب(2) علامہ ارشد القادری
استفسار کا تحقیقی جواب(3) علامہ ارشد القادری

اس فہرست سے مکالمے کی ترتیب مثلاً فتویٰ،استفسار،جواب،جواب الجوب مزید سولات اور اس سوالات کے مزید جوابات وغیرہ کا علم ہوتا ہے۔ مکالمے میں مدلل گفتگو سوائے علامہ ارشد القادری کے کسی نے نہیں کی ہے۔ پرو فیسر حامد حسن کے معروضات،مفرضات نظر آتے ہیں اور ایک ضمنی اعتراض جو علامہ ارشد القادری کی گفتگو پر ایک ایسے شخص کی طرف سے پیش کیا گیا ہے جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا اس کا مدلل جواب علامہ نے طویل مضمون میں دیا ہے۔ تمام مکالمے میں ایک بڑی غلط فہمی کی فضا مسلسل قائم رہی ہے جس کی نشان دہی مولانا خوشتر نورانی نے اپنے مقدمے میں کی ہے۔ایک حدیث اذکرو اموتاکم بالخیر جس کو حامد حسن صاحب نے اپنے مضمون کا موضوع بنایا ہے اور جس پر پورے مکالمے میں بحث ہوتی چلی آئی۔ صاحب مقدمہ نے یہ انکشاف فرمایہ ہے کہ در اصل ایسی کوئی حدیث موجود ہی نہیں ہے۔ اس انکشاف سے ایسے مکالموں پر ایک بڑا سوال قائم ہوتا ہے۔ مکالمہ دیگر معنوں میں بھی کافی معلوماتی اور اہم ہے لیکن پورے مکالمے پر علامہ ارشد القادری کا استدالی رویہ اور حامد حسن صاحب کا خندۂ استہزا دو متضاد صورتوں میں نظر آتا ہے۔ جس سے حامد حسن صاحب کے تحقیقی اور استدالالی منصب کی نشان دہی ہوتی ہے۔

کتاب کے اخیر میں مولف نے کتابیات کے عنوان سے ان تمام کتب و رسائل کا اجمالی تذکرہ ایک جدول کی صورت میں پیش کر دیا ہے جس سے ہر کوئی ان تمام کتب تک بہ آسائی رسائی حاصل کر سکتا ہے جس کا تذکرہ اس کتابچے میں موجود ہے۔

Leave a Reply