سیانے کہتے ہیں "جھوٹ اس شدت اور روانی سے بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے” موجودہ حکومت نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہ ہو مگرحالات و واقعا ت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اس قول پر من و عن ایمان لا چکے ہیں بلکہ صِدقِ دل سے اس پر لفظ بہ لفظ عمل پیرا بھی ہے۔ حکومت اسقدر دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے عوام کے کانوں میں جھوٹ انڈیل رہی ہے کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے، مگر جب کبھی اس جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی ہے تو حکمرانوں کے ہاتھ سوائے رسوائی کہ کچھ نہیں آتا۔انتخابات کے دوران لوٹی دولت واپس لائیں گے، بیروزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ کر دیں گے، کرپٹ افراد کو سڑکوں اور چوراہوں پر گھسٹیں گے، بجلی کا بحران چھ ماہ میں ختم کر نے اورملک کو ایشیا کی معاشی طاقت بنانے کے اعلانات کے ساتھ ایسے ایسے جھوٹ بولے گئے کہ عوام ایک بار پھر انہیں سچ جان کر اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجانے لگی تھی۔ خیر عوام کا کیا ہے یہ تو انتخابی وعدے تھے اور انتخابی وعدے تو صرف انتخابات جیتنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ پورا کرنے کے لئے۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب ایسے رہنماخودکو جمہوریت کا سر خیل سمجھتےاور جمہوری روایات کا پاسبان کہتے ہیں۔ خود کو جمہوریت کا نگہبانکہنے والےعوام کو بیوقوف بنانے اور اپنی واہ واہ کے لئے اس تسلسل اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں کہ کسی کی باتوں پر اعتبار کرنا ممکن نہیں رہا۔ دور نہ جائیے نندی پور پاور پراجیکٹ کو ہی دیکھ لیجئے اس کی تشہیر پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا،اخبارات میں طرح طرح کے دعوٰے کئے گئے، جتایا گیا کہ ہم نے رات دن کی محنتِ شاقہ سے وقت سے پہلے اس منصوبے کو مکمل کرکے بجلی کی قومی پیدوار میں 450 میگاواٹ کا اضافہ کر دیا ہے۔ ہوا کیا رات دن کی محنت سے تیار ہونے والا پراجیکٹ جس پر ہماری روشنیوں کا دارومدار تھا چند دنوں بعد ہی گل ہو گیا۔
حکومت اسقدر دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے عوام کے کانوں میں جھوٹ انڈیل رہی ہے کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے، مگر جب کبھی اس جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی ہے تو حکمرانوں کے ہاتھ سوائے رسوائی کہ کچھ نہیں آتا۔
یوتھ فیسٹول کے نام پر جو کھیل پنجاب میں کھیلا گیا یہ بھی اپنی طرز کا ایک انوکھا کھیل تھا۔ اس کھیل میں سینکڑوں ورلڈ ریکارڈز بنائے گئے، بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر کی گئی اور ملک اور اپنا خوب نام روشن کیا گیا۔ ہوا کیا کسی اور ریکارڈ کا تو ورلڈ ریکارڈ کی بک میں اندراج نہ ہو سکا ہاں یوتھ فیسٹول نے جھوٹ اور عوام کو بیوقوف بنانے کا ریکارڈ ضرور بنا لیا کیونکہ یہ سارا کھیل ہی جعلی تھا۔ عوام کو دھوکا دینے کے لئے گننز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے جعلی نمائندے بھی پیدا کر لئے گئے۔ گننز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی انتظامیہ نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ہمارا کوئی نمائندہ پنجاب یوتھ فیسٹول میں نہیں گیا اس لئے کسی بھی ریکارڈ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوتے ہی جھوٹ کی ایک نئی کتاب کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے۔خادم اعلیٰ نے واقعہ کے فوراً بعد تواتر سے کہا،” بیرئیر غیر قانونی تھے، مظاہرین اسلحے سے لیس تھے، انہوں نے پولیس پر گولیاں چلائیں، پولیس نے جوابی کاروائی کی، واقعے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، مجھے اس واقعے کا علم نہیں تھا، میری طرف انگلی بھی اٹھی تو میں مستعفی ہو جاؤں گا۔”مگر کیا ہوا پتا چلا کہ بیرئیر بھی قانونی تھے، مظاہرین مسلح تھے اور نہ ہی انہوں نے پولیس پر حملہ کیا، واقعے میں بیرونی ہاتھ کی بجائے اپنا ہی ہاتھ ملوث تھا اور جناب خادم اعلٰی کی جانب ایک انگلی نہیں بلکے کئی ہاتھ ان کے گریبان کی جانب لپکے مگر صرف 14 افراد کے قتل پر کون مستعفی ہوتا ہے ایک وقتی اعلان تھا سو کر دیا۔
ہمارے محترم وزیر اعظم نے جمہوریت بچانے کے لئے "جمہوری روایات” کے عین مطابق ایک سیاسی مسئلے میں آرمی چیف کو مصالحت کار کے طور پر مدد کے لئے بلایا جس پر اپوزیشن جماعتوں نے خوب شور مچایا اور حکومت پر شدید تنقید کی اس پر جناب ہمارے وزیراعظم صاحب نے فوراً پینترا بدلا اور ایوان میں اپنی بات سے پھر گئے حالانکہ آئی ایس پی آر اور بعد میں وزارتِ داخلہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جناب وزیر اعظم نے آرمی چیف کو اس سیاسی مسئلے میں ملوث ہونے کا کہا تھا۔
پچھلے دنوں ہماری حکومت نے اعلان کیا کہ چینی صدر نے اپنا دورہ پاکستان دھرنوں کے سبب ملتوی کر دیا ہے ،جس کے بعد حکومتی ارکین اور وزراء نے میڈیا میں ان دونوں صاحبان کے خلاف تنقید کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ دورہ ملتوی ہونے کا اسقدر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ چینی سفارت خانہ کووضاحت کرنی پڑی۔ سفارت خانے کے مطابق پسِ پردہ چینی صدر کے دورے کی تفصیلات طے کی جا رہی تھی لیکن دورہ ابھی حتمی نہیں تھا اور نہ ہی کسی قسم کی تاریخ دی گئی تھی اس لئے جب دورہ حتمی طور پر طے ہی نہیں تھا تو اس کے ملتوی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اپنے مخالفین کو بدنام کرنے اور اپنی سیاسی فائدوں کے لئے عوام سے اسطرح جھوٹ بول کر انہیں بیوقوف بنانے کی ایسی مثالیں شاید ہی کسی اور جمہوری ملک میں ملتی ہونگی۔ مگر ارباب اختیار ہیں کہ کہے جاتے ہیں "کہتا ہوں سچ کے جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔” شریف برادران کو یاد رکھنا چاہئے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے ،جن کے جھوٹ کا پول کھلتا ہے ان کے بولے ہوئے سچ پر بھی اعتبار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

Leave a Reply