لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز نے لاپتہ بلوچ افراد کے لیے “وائس فارمسنگ بلوچ پرسنز” کے سربراہ ماماقدیرکے ہمراہ کیا جانے والا مذاکرہ ریاستی ادارے انٹر سروسزانٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دباو پرمنسوخ کردیا ہے۔جمعرات 9 اپریل کی شام کو ہونے والے مذاکرے میں ڈائریکٹر ہیومن رائٹس کمیشن آئی ۔اے۔رحمن، سیکرٹری جنرل وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز فرزانہ مجید، قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر عاصم سجاد اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن سجاد چنگیزی کی شرکت بھی متوقع تھی تاہم مبینہ طور پر ریاستی اداروں کے دباو پر اسے منسوخ کردیا گیا۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے لمز کے استاد ڈاکٹر تیمور رحمان نے آئی ایس آئی کے دباو پر اس مذا کرے کو منسوخ کیے جانے کا انکشاف کیا،”آئی ایس آئی کے ایک وفد نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اس مذاکرے کو منسوخ کرنے کا ہدایت نامہ دیا ، ان کے مطابق بلوچستان کا معاملہ حساس ہے اور اس مذاکرے سے پاکستان کی بدنامی کااندیشہ ہے۔”ڈاکٹر تیمور نے اسے تدریسی آزادی کے منافی اقدام قرار دیا،”یہ تدریسی آزادی اور آزادی اظہار رائے کے منافی اقدام ہے۔ بلوچوں کو بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے تاکہ ہم اس مسئلے کے کسی معقول حل تک پہنچ سکیں۔”
لمز کے طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک بیان میں بھی اس مذاکرے کی منسوخی کو انسانی حقوق اور آزادیوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں طلبہ اور اساتذہ نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیوں اور ملکی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بلوچوں کی آواز دبانے کے عمل کو بلوچستان میں جاری تشدد اور ریاستی جبر کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔
Un-Silencing Balochistanکے عنوان سے ہونے والے اس مذاکرے کا مقصد بلوچستان کے لاپتہ افراد اور ریاستی دہشت گردی جیسے موضوعات پر بلوچستان کا موقف سامنے لانا تھا۔ اس سے قبل ماماقدیر کوامریکہ جانےسے بھی روک دیا گیا تھا تاہم بلوچ علیحدگی پسند طلبہ کے مطابق ریاست بلوچوں کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) سے وابستہ ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاست زیادہ عرصہ انہیں خاموش نہیں رکھ سکے گی،”ریاست کے ادارے نہیں چاہتے کہ ان کے مظالم سامنے آئیں لیکن بلوچ اپنے حقوق کے لیے آواز بلندکرتے رہیں گےاور اس آواز کو دبانا ممکن نہیں۔ “
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے لمز کے استاد ڈاکٹر تیمور رحمان نے آئی ایس آئی کے دباو پر اس مذا کرے کو منسوخ کیے جانے کا انکشاف کیا،”آئی ایس آئی کے ایک وفد نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اس مذاکرے کو منسوخ کرنے کا ہدایت نامہ دیا ، ان کے مطابق بلوچستان کا معاملہ حساس ہے اور اس مذاکرے سے پاکستان کی بدنامی کااندیشہ ہے۔”ڈاکٹر تیمور نے اسے تدریسی آزادی کے منافی اقدام قرار دیا،”یہ تدریسی آزادی اور آزادی اظہار رائے کے منافی اقدام ہے۔ بلوچوں کو بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے تاکہ ہم اس مسئلے کے کسی معقول حل تک پہنچ سکیں۔”
لمز کے طلبہ اور اساتذہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک بیان میں بھی اس مذاکرے کی منسوخی کو انسانی حقوق اور آزادیوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ بیان میں طلبہ اور اساتذہ نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیوں اور ملکی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بلوچوں کی آواز دبانے کے عمل کو بلوچستان میں جاری تشدد اور ریاستی جبر کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔
Un-Silencing Balochistanکے عنوان سے ہونے والے اس مذاکرے کا مقصد بلوچستان کے لاپتہ افراد اور ریاستی دہشت گردی جیسے موضوعات پر بلوچستان کا موقف سامنے لانا تھا۔ اس سے قبل ماماقدیر کوامریکہ جانےسے بھی روک دیا گیا تھا تاہم بلوچ علیحدگی پسند طلبہ کے مطابق ریاست بلوچوں کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) سے وابستہ ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاست زیادہ عرصہ انہیں خاموش نہیں رکھ سکے گی،”ریاست کے ادارے نہیں چاہتے کہ ان کے مظالم سامنے آئیں لیکن بلوچ اپنے حقوق کے لیے آواز بلندکرتے رہیں گےاور اس آواز کو دبانا ممکن نہیں۔ “