عالمی اردو کانفرنس کا ساتواں کنونشن آرٹس کونسل کراچی میں اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور کئی ممالک سے کنونشن میں آئے اردو کے چاہنے والے کراچی سے واپس لوٹ چکے ہیں۔ اردو کانفرنس کا مقصد اردو زبان کی ترویج کے ساتھ ساتھ اس زبان کو انگریزی سے درپیش خطرات سے بچانا مقصود تھا ۔اس کانفرنس کے دوران اردو زبان کے لئے انگریزی زبان کو اسی طرح خطرہ قرار دیتے رہے جس طرح بلوچ ادیب اور قوم پرست اردوزبان کو بلوچی کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اردو بولنے والوں کی بلوچوں سے اجنبیت کا اظہاربے حد تکلیف دہ تھا۔ اردو کانفرنس میں بلوچستان کی جانب سے نمائندگی کے لئے صرف شاہ محمد مری کا نام شامل کیا گیا تھا جوپروگرام میں شریک نہ ہو سکے ۔البتہ مہر در پبلی کیشن اور عابد میر کی جانب سے ایک بک اسٹال کی صورت میں بلوچ نمائندگی کی کمی دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ سٹال اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ اس طرح بلوچستان کی کتابیں ملکی اور بین الاقوامی دانشوروں اور ادیبوں کے سامنے آئیں ۔ بلوچ ادیبوں کے اس سٹال پر شاہ محمد مری اورعابد میر کے علاوہ بلوچستان کے دیگر ادیبوں کی کتابیں موجود تھیں۔ عابد میر بلوچستان کے مختلف مسائل روزنامہ ایکسپریس میں کالم کی صورت میں اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
کانفرنس کے دوران اردو زبان کے لئے انگریزی زبان کو اسی طرح خطرہ قرار دیتے رہے جس طرح بلوچ ادیب اور قوم پرست اردوزبان کو بلوچی کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اردو کانفرنس کے دوران اردو کو درپیش خطرات کے لئے حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا جنہوں نے انگریزی کو ہر حوالے سے فوقیت دی۔ دلچسپ امر تحریک پاکستان کے دوران اردو کو سیاسی رنگ دینے پر انتظار حسین کی تنقید تھی جنہوں نے مسلم لیگی رہنماوں پر اردو زبان کو متنازعہ بنانے کا الزام عائد کیاحکومتوں کے اقدامات سے نہ صرف زبان پستی کا شکار ہوئی بلکہ بولنے والوں کی بھی کمی ہوئی۔بلوچستان کے دانشور بھی حکومت اور غیر بلوچ سیاستدانوں کو بلوچ زبان کی زبوں حالی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ بلوچ اپنی زبان کو لاحق خطرات کے لئے حکومتوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جو مختلف ادوار میں بلوچی کی جگہ اردو کو رائج کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
اردو کنونشن میں بلوچوں کی عدم شرکت کے باعث اہل بلوچستان نے اپنی زبان کو وسعت دینے کے مواقع گنوا دیے ہیں، ایک طرف بلوچوں نے ” اردو ادب” کو نظرانداز کرکے اپنی انا برقرار رکھنے کی کوشش کی تو دوسری طرف اہل اردو نے بلوچستان کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں مدعو ہی نہیں کیا تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت سے بلوچی علم و ادب کو نئے عالمی رحجانات سے روشناس کرایا جا سکتا تھااور بلوچی زبان و ادب کے فروغ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ اس ادبی کانفرنس میں بلوچی اکیڈمی کی مطبوعات کی عدم دستیابی بھی ایک حیران اور پریشان کن بات تھی گو کہ اردو ادیب اور اہل زبان دیگر علاقائی زبانوں کی موجودگی کوپسند نہیں کرتے لیکن ان تعصبات سے بالاتر ہو کر بلوچوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیئے تھی۔
اردو کنونشن میں بلوچوں کی عدم شرکت کے باعث اہل بلوچستان نے اپنی زبان کو وسعت دینے کے مواقع گنوا دیے ہیں، ایک طرف بلوچوں نے ” اردو ادب” کو نظرانداز کرکے اپنی انا برقرار رکھنے کی کوشش کی تو دوسری طرف اہل اردو نے بلوچستان کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں مدعو ہی نہیں کیا تھا۔ اس کانفرنس میں شرکت سے بلوچی علم و ادب کو نئے عالمی رحجانات سے روشناس کرایا جا سکتا تھااور بلوچی زبان و ادب کے فروغ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ اس ادبی کانفرنس میں بلوچی اکیڈمی کی مطبوعات کی عدم دستیابی بھی ایک حیران اور پریشان کن بات تھی گو کہ اردو ادیب اور اہل زبان دیگر علاقائی زبانوں کی موجودگی کوپسند نہیں کرتے لیکن ان تعصبات سے بالاتر ہو کر بلوچوں کی موجودگی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیئے تھی۔
بلوچستان میں یونیورسٹی میں بلوچ زبان کی تدریس کا عمل اس قدر غیر معیاری ہے کہ فارغ التحصیل طلبہ بلوچ زبان میں مہارت حاصل کیے بغیر بھی باآسانی امتحانات پاس کر رہے ہیں۔
بلوچ زبان و ادب کی خدمت جس انداز میں کرنے کی ضرورت ہے اس طرح نہیں کی جا رہی ہے، جس قدر رقم اردو اور پنجابی کی ترویج پر سرکاری سطح پر خرچ کی جا تی ہے بلوچ زبان اور ادب اس سے محروم ہے۔بلوچ ادب کے سرپرست ادارے چند ادیبوں کی سرپرستی کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ ملیر میں قائم سید ہاشمی لائبریری قائم کرنے والے صباء دشتیاری کے اس دنیا فانی سے چلے جانے کے بعد سے بلوچ زبان یتیم ہو گئی ہے۔ ان کی قائم کردہ یہ لائبریری آج کل بلوچ دانشور رمضان بامری کی نگرانی میں کام کرہی ہے۔ بیشتر بلوچ دانشور انفرادی طور پر بلوچی زبان و ادب کی خدمت کررہے ہیں، کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں اجتماعی سطح پر کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہا۔
بلوچی زبان و ادب کے فروغ کے لئے قائم بلوچی اکیڈمی کا رخ کریں تواندر داخل ہوتے ہی ادارے کی ابتر صورتحال کا اسکی ویرانی سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ ادارے کی شائع کردہ بیشتر کتابیں نہ اکیڈمی میں دستیاب ہیں نہ بازارمیں ، بلوچی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کی باتیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔بلوچ قوم اپنی زبان لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی صلاحیت سے بتدریج اسی طرح محروم ہو رہی ہے جیسے اردو کی جگہ انگریزی رائج ہوتی چلی جارہی ہے۔ بلوچستاں میں یونیورسٹی میں بلوچ زبان کی تدریس کا عمل اس قدر غیر معیاری ہے کہ فارغ التحصیل طلبہ بلوچ زبان میں مہارت حاصل کیے بغیر بھی باآسانی امتحانات پاس کر رہے ہیں۔بلوچی زبان اور ادب کو بلوچ قوم کی مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ موجود اداروں اور دستیاب وسائل کے ساتھ ہی اس زبان کو آنے والے وقتوں کے لئے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو اور بلوچی دونوں ایک جیسے خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت بلوچی زبان میں شائع ہونے والے رسالوں سے زیادہ پذیرائی دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے رسالوں کو مل رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچی زبان میں رسالے شائع کرنے والے اداروں اور اداروں کے سربراہان کو کافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ ماہنامہ ساھگ جس کے ایڈیٹر زرخان بلوچ اس رسالے کو صوبے میں بلوچی زبان کے قارئین کی انتہائی کم تعداد کے باعث بیک وقت چار زبانوں میں شائع کرنے پر مجبور ہو ہیں۔ اسکی دوسری مثال کوئٹہ کی سطح پر بلوچی زبان میں شائع ہونے والے اخبار نوائے وطن کی ہے جسے بلوچ زبان کو اپنی خالص شکل مین شائع کرنے کے باعث قارئین کی کمی کا سامنا ہے۔بلوچی زبان کو دسویں جماعت تک لازمی مضمون قرار دیے کراس زبان کے لکھاریوں، قارئین اور سامعین کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔اسحاق خاموش کی بلوچی، اردو اور انگلش لغت بھی اس میدان میں خدمت کے لئے ایک اہم قدم ہے۔
بلوچی زبان و ادب کے فروغ کے لئے قائم بلوچی اکیڈمی کا رخ کریں تواندر داخل ہوتے ہی ادارے کی ابتر صورتحال کا اسکی ویرانی سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ ادارے کی شائع کردہ بیشتر کتابیں نہ اکیڈمی میں دستیاب ہیں نہ بازارمیں ، بلوچی زبان کو نصاب میں شامل کرنے کی باتیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔بلوچ قوم اپنی زبان لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی صلاحیت سے بتدریج اسی طرح محروم ہو رہی ہے جیسے اردو کی جگہ انگریزی رائج ہوتی چلی جارہی ہے۔ بلوچستاں میں یونیورسٹی میں بلوچ زبان کی تدریس کا عمل اس قدر غیر معیاری ہے کہ فارغ التحصیل طلبہ بلوچ زبان میں مہارت حاصل کیے بغیر بھی باآسانی امتحانات پاس کر رہے ہیں۔بلوچی زبان اور ادب کو بلوچ قوم کی مخلصانہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ موجود اداروں اور دستیاب وسائل کے ساتھ ہی اس زبان کو آنے والے وقتوں کے لئے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
اردو اور بلوچی دونوں ایک جیسے خطرات سے دوچار نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت بلوچی زبان میں شائع ہونے والے رسالوں سے زیادہ پذیرائی دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے رسالوں کو مل رہی ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچی زبان میں رسالے شائع کرنے والے اداروں اور اداروں کے سربراہان کو کافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ ماہنامہ ساھگ جس کے ایڈیٹر زرخان بلوچ اس رسالے کو صوبے میں بلوچی زبان کے قارئین کی انتہائی کم تعداد کے باعث بیک وقت چار زبانوں میں شائع کرنے پر مجبور ہو ہیں۔ اسکی دوسری مثال کوئٹہ کی سطح پر بلوچی زبان میں شائع ہونے والے اخبار نوائے وطن کی ہے جسے بلوچ زبان کو اپنی خالص شکل مین شائع کرنے کے باعث قارئین کی کمی کا سامنا ہے۔بلوچی زبان کو دسویں جماعت تک لازمی مضمون قرار دیے کراس زبان کے لکھاریوں، قارئین اور سامعین کی کمی کو دور کیا جاسکتا ہے۔اسحاق خاموش کی بلوچی، اردو اور انگلش لغت بھی اس میدان میں خدمت کے لئے ایک اہم قدم ہے۔
بلوچی زبان میں لکھنےاورپڑھنے والوں کی کم تعداد تبھی بڑھ سکے گی جب اس زبان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سکولوں کی سطح پر اس کی معیاری تدریس کا انتظام کیا جا ئے گا۔
احمد اقبال کا قائم کردہ بلوچی زبان کا واحد چینل وش نیوز اس زبان کی بقاء اور فروغ کے لئے ایک اہم قدم ہے،گو پی ٹی وی بولان بھی بلوچی زبان کے پروگرام نشر کرہا ہے مگر اس کی نشریات غیر معیاری ہونے کے باعث بلوچستان کی حقیقی نمائندگی نہیں کر رہا۔وش نیوزکے ناظرین کی بڑی تعداد بلوچستان اور بلوچی زبان کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے اسے دیکھتی ہے اور اس چینل نے کم وقت میں بلوچ عوام میں بہت پذیرائی حاصل کی ہے۔ جسکا سہر ا رزاق سربازی، زرخان بلوچ، بشیر بلوچ، حنیف دلمراد، شاہنواز بلوچ، اکرم بلوچ اور دیگر اینکر پرسنز کو جاتا ہےتاہم گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران وش چینل کا معیار بھی گرا ہے۔
بلوچی زبان میں لکھنے اورپڑھنے والوں کی کم تعداد تبھی بڑھ سکے گی جب اس زبان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سکولوں کی سطح پر اس کی معیاری تدریس کا انتظام کیا جا ئے گا۔ اسکے علاوہ علاقائی سطح پر اکیڈمیاں قائم کر کے زبان و ادب کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ بلوچ قوم پرست حکومت کو اپنی تعلیمی ترجیحات میں بلوچ زبان اور ادب کے تحفظ کو شامل کرنا ہو گا ورنہ بلوچ قوم پرستوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
بلوچی زبان میں لکھنے اورپڑھنے والوں کی کم تعداد تبھی بڑھ سکے گی جب اس زبان کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سکولوں کی سطح پر اس کی معیاری تدریس کا انتظام کیا جا ئے گا۔ اسکے علاوہ علاقائی سطح پر اکیڈمیاں قائم کر کے زبان و ادب کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ بلوچ قوم پرست حکومت کو اپنی تعلیمی ترجیحات میں بلوچ زبان اور ادب کے تحفظ کو شامل کرنا ہو گا ورنہ بلوچ قوم پرستوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
One Response
agr as mlk me aik zban ko qomi zuban ka draja dia jata hie to dosre zuban ki itnhi aimyat nie di jati hie me misal deta ho india abhi tak india ka qumi zuban hindi ya urdu nahe hie tamil malyanam ya gujrati telgu bangali sab zuban ko utni hamyat jitni hindi ko magar hamre yah ulta raha swal as blog me aap ke is bat pr atfaq karta ho ,,,,,,,,,,