درون (ضلع آواران کا ایک علاقہ)سے تعلق رکھنے والے بدل بلوچ کوئٹہ سے کراچی جانے والے ان ہزاروں بلوچوں کی عکاسی کے لئے کافی ہیں جنہیں بلوچستان کے دورافتادہ علاقوں سے اپنے مسائل کے حل کے لئے ہزاروں کلو میٹر کا سفر صرف اس لئے طے کرنا پڑتا ہے کہ اکثر علاقوں میں سرکاری اداروں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ درون میں بدل بلوچ اور 150کے قریب خاندانوں کو بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزارنے والے قبائل کی طرح پینے اور استعمال کے پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔ پینے کا پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث بلوچستان کے کئی قبائل گلہ بانی پر انحصار کے باعث جہاں کہیں سبزہ اور پانی دستیاب ہووہ اسی جانب نقل مکانی کر جاتے ہیں۔بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بارش کے پانی کو اکٹھا کرنے کے لئے تالاب بنائےجاتے ہیں جن کا پانی قرب و جوار کی آبادی، مال مویشی اور جنگلی حیات بھی استعمال کرتے ہیں۔ بدل بلوچ بھی اپنے علاقے میں تالاب کی تعمیر کا منتظر ہے اور اس مقصد کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے دفاتر کے چکر کاٹ رہا ہے۔
حکومتی اہلکاروں، سیاستدانوں اور عرب شہزادوں کے لئے بدل بلوچ کا علاقہ محض ایک شکار گاہ ہے جہاں وہ تفریح کے لئے آتے ہیں مگر مقامی آبادی ان کے لئے جنگلی جانوروں سے بھی کم اہم ہیں۔
بدل بلوچ کےعلاقہ میں سالانہ بارشوں کی انتہائی کم مقدار کے باعث علاقے کے لوگوں کے لئے پانی جمع کرنازندگی کے تسلسل کی جنگ ہے۔ اگرچہ بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ، ضلع گوادر کی تحصیل اورماڑہ اور لسبیلہ کی تحصیل لاکھڑا ہنگول نیشنل پارک میں شامل ہیں اور جنگلی حیات کے ملکی اور غیر ملکی ادارے یہاں کام کر رہے ہیں تاہم مقامی آبادی بنیادی شہری سہولیات سے ابھی تک محروم ہے۔ ہنگول نیشنل پارک میں جنگلی حیات کے بچاؤ کے لئے گلوبل انوائرنمنٹ فنڈ (GEF) سے پانچ سالہ شراکت کے بعد اب یہ پارک حکومت بلوچستان کے زیر انتظام چلایا جا رہا ہے۔اس ادارے نے پارک میں شامل تینوں اضلاع کی تحصیلوں میں جنگلی حیات کو بچانے کے لئے بدل بلوچ سمیت کئی مقامی نگران (Watchers) بھی بھرتی کئے تھے اور بعض مقامات پر جیسے جھاؤ کے علاقے لاڈاندری میں سکول بھی قائم کئے لیکن درون اور آس پاس کے بیشتر علاقوں کو حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں نے نظر انداز کر دیا ہے۔بد قسمتی سے بنیادی حقوق نظر انداز کرنے کا عمل صرف بدل بلوچ یا درون کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ پورے بلوچستان کے ساتھ روا رکھا جاتاہے۔
حکومتی اہلکاروں، سیاستدانوں اور عرب شہزادوں کے لئے بدل بلوچ کا علاقہ محض ایک شکار گاہ ہے جہاں وہ تفریح کے لئے آتے ہیں مگر مقامی آبادی ان کے لئے جنگلی جانوروں سے بھی کم اہم ہیں۔عالمی بنک کے نمائندوں نے ایک مرتبہ اس علاقے کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے کمیونٹی کے ساتھ میٹنگ کرکےسڑکوں، سکول اور ہسپتال کی تعمیر کا وعدہ تو کیا لیکن حکومت کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی تعطل کا شکار رہا اور علاقے کے عوام ان سہولیات سے محروم رہ گئے ۔حکومت کی جانب سے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کے کام میں رکاوٹ ڈالی گئی ہو اور بلوچ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہو۔
حکومتی اہلکاروں، سیاستدانوں اور عرب شہزادوں کے لئے بدل بلوچ کا علاقہ محض ایک شکار گاہ ہے جہاں وہ تفریح کے لئے آتے ہیں مگر مقامی آبادی ان کے لئے جنگلی جانوروں سے بھی کم اہم ہیں۔عالمی بنک کے نمائندوں نے ایک مرتبہ اس علاقے کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے کمیونٹی کے ساتھ میٹنگ کرکےسڑکوں، سکول اور ہسپتال کی تعمیر کا وعدہ تو کیا لیکن حکومت کے ساتھ معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی تعطل کا شکار رہا اور علاقے کے عوام ان سہولیات سے محروم رہ گئے ۔حکومت کی جانب سے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کے کام میں رکاوٹ ڈالی گئی ہو اور بلوچ عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہو۔
گزشتہ کئی صدیوں کے احساس محرومی کے باوجود درون کے بدل بلوچ اور ان جیسے ہزاروں لوگ پر امید ہیں کہ کسی نہ کسی روز انکے علاقے میں بھی تعلیم عام ہو گی اور نوجوان اپنے لئے اور آنے والے نسلوں کے حقوق کےلئے آوازاٹھائیں گے۔
مقامی آبادی کی مشکلات میں ایک اور اہم معاملہ ضروریات زندگی اور اشیائے خوردونوشکی فراہمی کا ہے،زیادہ تر مقامی آبادی مہینے بھر کا راشن بیلہ سے دو دن کے سفر کے بعد لاتے ہیں۔ بیلہ سے سامان اراہ کے مقام تک گاڑیوں کے ذریعے لایاجاتا ہےجبکہ باقی سفر راستہ دشوار گزار اورسڑک نہ ہونے کی وجہ سے اونٹوں کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک ان علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لئے منصوبہ سازی کا فقدان رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ مقامی آبادی میں شرح خواندگی صفر ہے ۔ آنے والے کئی برسوں تک سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلی کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کے باوجود مقامی لوگ ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت سے واقف ہیں ۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مقامی افراد عطائی ڈاکٹروں پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ عام بیماریوں کا علاج جڑی بوٹیوں یا گھریلو ٹوٹکوں کی مدد سے کیا جاتا ہےجبکہ مہلک بیماریوں یا زچگی کے لئے جھاؤ کے کسی عطائی ڈاکٹر کی خدمات لی جاتی ہیں،جو بعض صورتوں میں 10ہزارروپےتک فیس وصول کرتے ہیں۔
جنگلی حیات پر کام کرنے والے زیادہ تر ادارے اس علاقے کی اہمیت و افادیت سے واقف ہیں اور مقامی جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کوشاں بھی ہیں لیکن صدیوں سے ان علاقوں میں بسنے والوں کی حالت زار پر بہت کم توجہ دی گئی ہے اوریہاں کی انسانی آبادی بجلی، آمدورفت کے ذرائع، گیس ابتدائی تعلیم، بنیادی صحت اور پانی جیسی سہولیات سےبھی محروم ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں جہاں” ہر بچہ اسکول میں” اور” صحت مند بچہ صحت مند معاشرہ”جیسے نعروں کے تحت فلاح و بہبود کے ادارے کام کر رہے ہیں وہیں بلوچستان کے لاکھوں بچےاپنے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں کے احساس محرومی کے باوجود درون کے بدل بلوچ اور ان جیسے ہزاروں لوگ پر امید ہیں کہ کسی نہ کسی روز انکے علاقے میں بھی تعلیم عام ہو گی اور نوجوان اپنے لئے اور آنے والے نسلوں کے حقوق کےلئے آوازاٹھائیں گے۔بدل بلوچ کا عزم ہے کہ وہ علاقے میں تعلیم کی شروعات کے لئے اپنے بچوں کو درون سے باہر بھیج کرپڑھائیں گےاور اسکے لئے وہ تعلیم عام کرنے والے تمام اداروں کے در کھٹکھٹائیں گے ۔
جنگلی حیات پر کام کرنے والے زیادہ تر ادارے اس علاقے کی اہمیت و افادیت سے واقف ہیں اور مقامی جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے کوشاں بھی ہیں لیکن صدیوں سے ان علاقوں میں بسنے والوں کی حالت زار پر بہت کم توجہ دی گئی ہے اوریہاں کی انسانی آبادی بجلی، آمدورفت کے ذرائع، گیس ابتدائی تعلیم، بنیادی صحت اور پانی جیسی سہولیات سےبھی محروم ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میں جہاں” ہر بچہ اسکول میں” اور” صحت مند بچہ صحت مند معاشرہ”جیسے نعروں کے تحت فلاح و بہبود کے ادارے کام کر رہے ہیں وہیں بلوچستان کے لاکھوں بچےاپنے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں کے احساس محرومی کے باوجود درون کے بدل بلوچ اور ان جیسے ہزاروں لوگ پر امید ہیں کہ کسی نہ کسی روز انکے علاقے میں بھی تعلیم عام ہو گی اور نوجوان اپنے لئے اور آنے والے نسلوں کے حقوق کےلئے آوازاٹھائیں گے۔بدل بلوچ کا عزم ہے کہ وہ علاقے میں تعلیم کی شروعات کے لئے اپنے بچوں کو درون سے باہر بھیج کرپڑھائیں گےاور اسکے لئے وہ تعلیم عام کرنے والے تمام اداروں کے در کھٹکھٹائیں گے ۔