سُر آخری بار اکٹھے ہوئے، شور نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ اب صرف اسی کو کہا، سنا اور گایا جائے گا،سو انھوں نے دنیا چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ ساتوں ایک اتھاہ ویرانے میں چپ بیٹھے تھے،سُروں نے کچھ دیر خاموشی کو سنا اور دُنیا کا چکر لگانے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ ہمیشگی جتنی پرانی ویران اور اُداس غاروں میں سے گزرے تو غاریں چونک کر جاگیں اور ہر پتھر نے ناچنے کی کوشش میں اپنی جگہ چھوڑ دی۔
وہ ہمیشگی جتنی پرانی ویران اور اُداس غاروں میں سے گزرے تو غاریں چونک کر جاگیں اور ہر پتھر نے ناچنے کی کوشش میں اپنی جگہ چھوڑ دی۔سُر کھیتوں سے گزرے اور فصلوں نے ان کی تال کی اُکساہٹ پر ایک دوسرے کو روند ڈالا۔صحراؤں سے گزرے تو ہوا کی آمادگی سے کشتہ ، خانہ بدوش ریت نے خود کو نغموں کی شکل میں جامد کر لیا ۔ جنگلوں سے گزرےتو صدیوں سے ایک جگہ ایستادہ درختوں نے جڑوں کی مٹی چھوڑی اور اتنا خوبصورت ناچے کہ سُر انھیں دیکھنے کو ایک بار پھر پلٹے۔ کون جانتا تھا کہ اتنے متین درخت ایسا حسین رقص کر سکتے ہیں، کون جانتا ہے؟وہ بستیوں سے گزرے تو ان کی تحریک پر اندھے مکانوں نے ایک دوسرے سے سر ٹکرا ٹکرا کر خود کو تباہ کر لیا۔ عمارتوں کی جڑیں نہیں ہوتیں سو جب اُنھوں نے ناچنے کو قدم اٹھائے تو دھڑدھڑاتی ہوئی زمین پر آ رہیں۔ سُروں نےاُن کے بے سُرے ہونے کو اچھی نظر سے نہ دیکھا مگر عماتوں کے ملبے سے اُٹھنے والی گرد نے یہ کسر پوری کر دی۔ گرد کے بگولے اٹھے اور بڑی ترنگ میں ناچتے ہوئے بادلوں سے جا ملے۔ پھرمٹی اور پانی مل کر چھناچھن برسے اور ہر شے کیچڑ کر دی۔ سُروں نےبادلوں کے ساتھ آخری بار قطرہ قطرہ ہو کر برسنے کا مزہ لیا،جھرنا جھرنا ، ندی ندی ہو کر دریا بنے، دریادریا ہوتے ہوئے سمندروں میں گرنے لگے اورسمندر ان کے ساتھ جھومتا اور گاتا ہوا بلند ہونے لگا۔
ایک فقط شور سے بہرہ ہو چکا انسان نہ جان سکا کہ آخر اس تباہی کا سبب کیا ہے اور اپنے بے تال قدموں سے لڑکھڑاتا، ڈولتا ، ہر شے سے ٹکراتا پھرا۔ سُروں نےپیچھے مُڑ کر دیکھے بغیر دنیا چھوڑ دی۔
ایک فقط شور سے بہرہ ہو چکا انسان نہ جان سکا کہ آخر اس تباہی کا سبب کیا ہے اور اپنے بے تال قدموں سے لڑکھڑاتا، ڈولتا ، ہر شے سے ٹکراتا پھرا۔ سُروں نےپیچھے مُڑ کر دیکھے بغیر دنیا چھوڑ دی۔
Leave a Reply