Nara-e-Mastana

الطاف حسین کہتے ہیں کہ رینجرز کمبلوں میں اسلحہ بھر کر لائے، متحدہ ہی کے فیصل سبزواری بولے کہ پکڑا جانے والا سارا اسلحہ لائسنس یافتہ ہے جس کا علم پولیس اور رینجرز کو بھی ہے۔ الطاف حسین صاحب نے یہ بھی کہا کہ متحدہ میں دہشتگردوں کی کوئی گنجائش نہیں، چند لوگ جماعت کو بدنام کر رہے ہیں، غلطیاں کرنے والے نائن زیرو کو مصیبت میں نہ ڈالتے کہیں اور چلے جاتے میں بھی تو بیس پچیس سال سے لند ن میں ہوں۔ رات گئے انہوں نے فرمایا کہ مرکز سے ایک بھی مجرم گرفتار نہیں ہوا، نائن زیرو کے آس پاس اگر کرائے کے کسی مکان سے کچھ لوگ پکڑے گئے ہیں تو ان کا تعلق متحدہ سے ہرگز نہیں۔ اگر ایسا بھی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نائن زیرو کے آس پاس رہنے والوں کی خبر متحدہ کے عہدیداروں کو نہ ہو؟
رینجرز کے چھاپے میں پکڑے گئے ولی بابر قتل کے سزایافتہ مجرم فیصل موٹو، مختلف جرائم میں ملوث تیرہ تیرہ سالہ قید کے مجرم عبیداللہ عرف کے ٹو ، نادر الدین اور فرحان شبیر بھی ایم کیوایم کے قائد کے موقف کے برخلاف تصویر کشی کررہے ہیں۔
بظاہر تو یہی لگا کہ ایم کیو ایم کےاپنے ہاں رینجرز کے چھاپے پر کچھ کنفیوژن سی ہے۔عہدیداران کے بیانات میں تال میل کی کمی تھی اور حقائق بھی ایک کیوایم کے موقف کی تردید کرتے نظر آرہے ہیں۔ رینجرز کے چھاپے میں پکڑے گئے ولی بابر قتل کے سزایافتہ مجرم فیصل موٹو، مختلف جرائم میں ملوث تیرہ تیرہ سالہ قید کے مجرم عبیداللہ عرف کے ٹو ، نادر الدین اور فرحان شبیر بھی ایم کیوایم کے قائد کے موقف کے برخلاف تصویر کشی کررہے ہیں۔ اگر متحدہ کا تعلق ان افراد سے نہیں تو آخر یہ لوگ نائن زیرو میں کیا کر رہے تھے؟ مان لیا کہ متحدہ کی قیادت ایسے افراد سے لاتعلق اور لاعلم ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو نائن زیرو میں رکھنے والا کون ہے؟ ان سب کا ایک ہی دن مرکز پر پایا جانا اور پھر اسی روز رینجرز کا چھاپہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے یا کچھ اور؟؟ متحدہ کی قیادت کو اس نقطے پر بھی غور کرنا ہوگا۔
الطاف حسین کئی بار ‘چند’ لوگوں کا ذکر کرچکے ہیں، یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ ‘چند’ لوگ من مانی کرتے ہیں، پارٹی کی نہیں سنتے۔ اب بھی انہوں نے یہی کہا کہ رابطہ کمیٹی مجھ سے قیادت واپس لے لے اور مجھے خدمت خلق فاونڈیشن میں کام کرنے دیا جائے، یہی نہیں بلکہ ماضی قریب میں الطاف بھائی انہی ‘چند’ لوگوں کی وجہ سے بار بار رابطہ کمیٹی بھی تحلیل کر چکے ہیں۔ حالیہ واقعے میں شاید انہی ‘چند’ لوگوں کی وجہ سے متحدہ کی قیادت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا وگرنہ کسی بھی اہم قومی مسئلے پر متحدہ اور اس کی پوری قیادت کے موقف میں ہم آہنگی مثالی رہی ہے۔ رینجرز کے کرنل طاہر نےالبتہ چھاپے کے بعد تمام تفصیلات ذرائع ابلاغ کے سامنے پورے اعتماد اور اطمینان کے ساتھ پیش کیں۔ رینجرز کی بریفنگ کے مطابق تلاشی کے دوران ایسا اسلحہ ملا ہے جس کی پاکستان میں درآمد پر پابندی ہے تو آخر یہ اسلحہ کہاں سے آیا؟
موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جب ڈی جی رینجرز کراچی ہوا کرتے تھے تو انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے بابنگ دہل کہا تھا کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں میں مسلح جتھے ہیں جن کے ثبوت بھی ان کے پاس ہیں، کسی بھی جماعت نے ان سے ثبوت پیش کرنے کا نہیں کہا۔ قومی ایکشن پلان کے بعد کراچی آپریشن پر تمام جماعتیں متفق نظر آئیں، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یکسوئی دیکھتے ہوئے اب یوں لگ رہا ہے جیسے ہر پارٹی کو اپنی اپنی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ باقی جماعتوں سے قطع نظر متحدہ کی پریشانی کی وجہ محض کراچی آپریشن نہیں، سینئر صحافی اور شفیق دوست روف کلاسرا کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں سکاٹ لینڈ یارڈ نے پاکستانی حکام کو مطالبات کی تحریری فہرست پیش کی تھی، جس میں تین لوگوں کے بارے معلومات فراہم کرنے کا کہا گیا تھا، ان تینوں کے بارے مطلوبہ معلومات پاکستانی ایجنسیوں نے اکٹھی کر رکھی ہیں، اور یہ افراد متعلقہ حکام کی تحویل میں ہیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں یہ معلومات اہم ثابت ہو سکتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ معلومات ابھی تک سکاٹ لینڈ یارڈ کے حوالے کیوں نہیں کی گئیں اور ایسا کب کیا جائے گا؟ عین ممکن ہے کہ اس مواد کو ‘حکام’ متحدہ کو دباو میں لاکر لین دین کے حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہوں اور شاید یہی وجہ ہے کہ رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے کے بعد متحدہ کے رد عمل میں وہ جان نہ تھی جو ماضی میں ایسے واقعات کے بعد دیکھی گئی ہے۔
رینجرز کے چھاپے کی خبر منظر عام پر آتے ہی اپوزیشن کا واک آوٹ یہ بتاتا ہے کہ کراچی آپریشن کے کپتان قائم علی شاہ اب آپریشن کے کماندار نہیں رہے۔ چھاپے کے بعد سے اب تک سندھ حکومت کی جانب سے ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا، رہی بات وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی تو موصوف حسب ماضی شام ہوتے ہی کئی گھنٹوں بعد منظر عام پر آئے ۔ رینجزر چھاپے کو سینٹ انتخاب سے جوڑنا تو سمجھ میں نہیں آتا ہاں البتہ صولت مزرا کی موت کا پروانہ جاری کیا جانا بین السطورمتحدہ کے لیے ایک واضح پیغام ضرور ہے۔
کمپیوٹر سائنس کا طالب علم اور ایک سال سے متحدہ کے شعبہ نشر و اشاعت سے وابستہ بیس سالہ وقاص رینجرز کارروائی کے دوران نامعلوم فرد کی ٹی ٹی پستول کی گولی کی زد میں آیا اور جان کی بازی ہار گیا۔
رینجرز چھاپے کے دوران سب سے تکلیف دہ خبر وقاص علی شاہ کی ہلاکت کی ہے۔ کمپیوٹر سائنس کا طالب علم اور ایک سال سے متحدہ کے شعبہ نشر و اشاعت سے وابستہ بیس سالہ وقاص رینجرز کارروائی کے دوران نامعلوم فرد کی ٹی ٹی پستول کی گولی کی زد میں آیا اور جان کی بازی ہار گیا۔ رینجرز حکام کے مطابق وہ ایسا اسلحہ استعمال ہی نہیں کرتے جس سے وقاص کی ہلاکت ہوئی جبکہ متحدہ کہتی ہے کہ وقاص رینجرز حکام کی فائرنگ کی زد میں آیا۔سچ پوچھیں تو بس یہی اصل المیہ ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وقاص کا تعلق نہ تو فیصل موٹو سے تھا اور نہ ہی عبید کے ٹو سے، اس کا تعلق ان ‘چند’ لوگوں سے بھی نہ تھا جنہوں نے ایسے لوگوں کی مہمان نوازی کی، وقاص ایسے بد قسمت لوگوں میں شمار ہوتا ہے جو واقعی کسی سیاسی جماعت کے نظریے سے متاثر ہو کر اسے اپنا نصب العین چن لیتے ہیں۔ اگلے ہفتے وقاص کی منگنی طے تھی، جوان بہنوں اور بزرگ ماں کے سینے کیسے دہک رہے ہوں گے اس کا تصور بھی محال ہے۔ ٹی وی چینلز پر نشر کی گئی فوٹیج میں رینجرز حکام کے ساتھ ساتھ نیلے رنگ کی قمیص میں ملبوس ایک شخص کے ہاتھ میں پستول دیکھا جا سکتا ہے لیکن معلوم نہیں کہ وقاص کو کونسی گولی لگی۔رینجرز ، حکومت اور متحدہ کو گولی چلانے والے اس ہاتھ کی نشاندہی کرنا ہو گی ورنہ وقاص کا قتل فریقین کے دامن پر سرخ رنگ جمائے رکھے گا۔ باقی بقول شخصے معاملہ یہیں تک رکتا دکھائی نہیں دے رہا اور یوں لگتا ہے کہ اب یہ بات دور تلک جائے گی۔

Leave a Reply