بارہ جولائی کوڈان اردومیں چھپنے والے اپنے بلاگ “شادی کے سائیڈ ایفیکٹس” جس میں کچھ رنڈووں، مُطلقوں اور ایک مُجرد کا ذکر کیا گیا تھا، ایک مرتبہ پھر اسی بے لاگ بلاگ کودیسی گھی کا تڑکا لگاکر تازہ کرنے کاوقت آن پہنچا ہے کیوں کہ ایک رنڈوا دُبئی سے پرواز کرکےملک میں قائم بے یقینی کی صورتحال کا حل نکالنے پاکستان آن پہنچا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھرایک رنڈوا (آصف علی زرداری) ہی ایک رنڈوے (مولانا ڈاکٹر طاہرالقادری) اور ایک طلاق یافتہ (عمران خان) کا توڑ نکال سکتا ہے۔
دسمبر 2007 میں رنڈوا ہونے والے سابق صدر آصف علی زرداری جمعہ کے روزکراچی پہنچے اور اپنے مِشن کا آغاز اگلے ہی روز وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر 70 مختلف اقسام کے کھانوں کا مزہ چکھنے کے بعد لاہور سے کیا جہاں انہوں نے جماعت اسلامی کے رہنماوں کے علاوہ چوہدری برادران سے بھی ملاقات کی۔
زرداری صاحب کو بخوبی اندازہ ہے کہ اگر عمران خان اور مولانا قادری کی وجہ سے حکومت جاتی ہے تو مستقبل میں کوئی بھی للو پنجو چندہزار لوگ لےکر اسلام آباد کے ڈی چوک پردھرنا دینے آجائیگا اور حکومت کےمستعفی ہونے کی ضدکریگا۔
یوم آزادی کو لاہور سےچلنے والے آزادی اور انقلاب مارچ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں تقریباً روز ہی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آج وہ ایک ایسا اعلان کرنے والے ہیں،جو ملک کی تقدیر بدل دے گا۔گزشتہ دوہفتوں کے دوران متعدد مواقع پرسابق کرکٹ کپتان کی جانب سے ملک کے شریف ترین "شریفوں” کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کی گئی۔خان صاحب کی جانب سے حکومت کودھمکیاں بھی دی گئیں کہ اگرنوازشریف مستعفیٰ نہ ہوئے تو وہ اپنے کارکنوں کو اسمبلی ہاوس اوروزیر اعظم ہاوس پرقبضہ کرنے سے روک نہیں سکیں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پرہوگی۔ایسے بیانات اور دھمکیوں کے بعد ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کہ دھرنوں میں شریک "جم حقیر” کےساتھ گھروں میں سہمےبیٹھے کروڑوں پاکستانیوں کو مارشل لا لگنے یا خون خرابہ ہونے کی پریشانی لاحق ہوگئی۔اس دوران حکومت کےتحریک انصاف اورعوامی تحریک کے رہنماوں کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے مگر فریقین کے اپنے مطالبات پر اڑے رہنے کی وجہ سے ابھی تک  ڈیڈ لاک ختم نہیں ہوسکا۔ ان حالات میں اب آئے روز "وزیٹنگ انقلابی” اور "چکنے انقلابی”کی جانب سے کارکنوں کو ڈیڈ لائنز دی جارہی ہیں۔
مگر اب جبکہ محترمہ بینظیربھٹو کے رنڈوے شوہر اورپاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری اس گُتھی کو سلجھانےمیدان میں اتر پڑے ہیں تو امید ہے کہ جیسے زرداری صاحب نے جنوری 2013 میں مولانا انقلابی کو رام کر کے کینیڈا چلتا کیا تھا، اسی طرح زرداری صاحب حکمران کشمیریوں کی بھی مدد کریں گےاوردونوں انقلابی اسلام آباد میں دو ہفتےگزارنے کے بعد اپنی اپنی جیت کا اعلان کرتے اپنے اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔
ہاں یہ الگ بات ہے کہ سابق صدر کوئی بھی مشورہ اپنے مفاد کے بغیر شریف برادران کو کیوں دیں گے اور ویسےبھی زرداری صاحب کو چھوٹے میاں صاحب کا”زراداری کو لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا”  والا بیان ابھی بھولانہیں شاید اسی بیان کی وجہ سے چھوٹے میاں صاحب زرداری صاحب کو دیے گئے ظہرانے میں شریک نہیں تھے۔مگر زرداری صاحب کبھی بھی انتقامی کاروائی نہیں کریں گے کیوں کہ اس وقت انھیں یہ نظام بچانا مقصود ہے۔ زرداری صاحب کو  بخوبی اندازہ ہے کہ اگر عمران خان اور مولانا قادری کی وجہ سے حکومت جاتی ہے تو مستقبل میں کوئی بھی للو پنجو چندہزار لوگ لےکر اسلام آباد کے ڈی چوک پردھرنا دینے آجائیگا اور حکومت کےمستعفی ہونے کی ضدکریگا۔
ممکن ہے کہ لمبی اننگز کو سامنے رکھتے ہوئے زرداری صاحب کی جانب سے اگلے سال ہونے والے سینیٹ انتخابات سےمتعلق وزیر اعظم سے کچھ وعدے لئے گئے ہوں۔ کچھ بھی ہو زرداری صاحب کی گیدڑ سنگھیاں جلد ہی سامنے آجائیں گی۔
زرداری صاحب اور ان کے وفد کی وزیر اعظم اور نواز لیگ کے رہنماوں کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعدمیڈیا پر آنے والی خبروں کے مطابق زرداری صاحب نےوزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ رد کرتے ہوئےوزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہ قومی اسمبلی یاقوم سے خطاب کریں، جوڈیشل کمیشن تحقیقات کے بعد حکومت کے کسی عہدیدار کو دھاندلی میں ملوث قرار دے تو وہ فوری مستعفی ہوجائیں اورحکومت جوڈیشل کمیشن سے ساٹھ یا نوے دنوں میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کی درخواست کرے۔ زرداری صاحب نے پرتکلف کھانے کے بعد آئندہ انتخابات بائیو میٹرک سسٹم کے تحت کرانے اورانتخابی اصلاحات ایک ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی تجویز بھی پیش کی۔ سابق صدر کی طرف سے ماڈل ٹائون سانحہ کی ایف آئی آر درج کروانے کی بھی درخواست کی گئی۔مگر یہ تمام اقدام ایسے ہیں جس کا مشورہ وزیراعظم کوکوئی بھی باشعور پاکستانی دے سکتا تھا، یقیناً زرداری صاحب کی جانب سے کچھ ایسے مشورے بھی دیے گئے ہوں گے جو میڈیا تک نہیں پہنچ سکے، کیوں کہ اگر یہی مشورے دیے جانے تھے تو وہ دبئی سےرائیونڈ محض اپنے لاڈلےباورچی یاسین کےبنائے پکوان کھانے تو نہیں آئے تھے۔یہ بھی ممکن ہے کہ لمبی اننگز کو سامنے رکھتے ہوئے زرداری صاحب کی جانب سے اگلے سال ہونے والے سینیٹ انتخابات سےمتعلق وزیر اعظم سے کچھ وعدے لئے گئے ہوں۔ کچھ بھی ہو زرداری صاحب کی گیدڑ سنگھیاں جلد ہی سامنے آجائیں گی۔
ایک طرف زرداری نواز ملاقات کے چرچے تھے تو دوسری طرف چند روز پہلے سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کی جانب سے بیان دیا گیاتھا کہ ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں اورہمیں امید ہے کہ اتوار تک پیپلز پارٹی بھی تحریک انصاف کے دھرنے کا حصّہ بن جائے گی۔بھولے شیخ صاحب پتہ نہیں کیوں اتنا سیاسی تجربہ رکھنے کے باوجود ایسے بیانات داغتے رہتے ہیں۔ شاید ان کو ابھی بھی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں شیخ صاحب کی ختم ہوتی ہے۔ ایویں نہیں وہ محترمہ کی شہادت کے بعدصدر بنے اور پانچ سال حکومت میں بھی نکال گئے۔ خیرابھی تک تو زرداری صاحب کی طرف سے کئے گئے اقدامات کام کرتے دکھائی نہیں دے رہےلیکن سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ دونوں انقلابیوں کی طرف سے پیش کئے گئے مطالبات ہی کچھ ایسے ہیں کہ جن کے حل کے لئے رنڈوے زرداری صاحب کو کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

2 Responses

  1. Nawaz

    الله تعالی نے بنی آدم کو قابلِ تکریم بنایا هے کسی انسان کو کسی ایسے عیب پر هنسنے کی اجازت نهیں جو عیب الله تعالی کی طرف سے هو.الله تعالی سے ڈرنا چاهیے شاید تضحیک کرنے والا الله تعالی کے امتحان کی زد میں آسکتا هے.هاں کسی پر مثبت انداز میں تنقید کرنا چاهیے اور وه بهی اس نیت سے که شاید وه اپنی خامی کی طرف متوجه هو کر اسکی اصلاح کر لے.
    باقی رهی "ایک زرداری سب پے بهاری”تو میں اس سے اتفاق اس لیے نهیں کرتا که زرداری صاحب کے پانچ سال پورا کرنے میں پاکستان کے حالات اور دوسرے نواز شریف صاحب کا کمال هے.پاکستان کے حالات کی وجه سے پاکستان آرمی اس پوزیشن میں نهیں که ملکی سیاسی حالات میں کهل کر اپنا کردار ادا کر سکے اورنواز شریف اپنی بے انتها کرپشن کی وجه سے زرداری سے هاته ملانے پر مجبور هیں.
    مگر سنا هے که الله تعالی کی رسی ڈهول جتنی موٹی هوتی هے اس کو ٹوٹنے کے لیے بڑا وقت درکار هوتا هے مگر جب ٹوٹتی هے تو اسے گانٹه نهیں پڑتی.اب ایسا لگتا هے که نواز شریف اور زرداری اور ان جیسے اور بے شمار کرپٹ لوگوں کی رسی ٹوٹنے والی هیں اور پاکستانی غریبوں مسکینوں اور یتیموں اور بےواوں کی داد رسی هونے والی هے.رات جتنی بهی لمبی هو صبح کے سویرے نے یقیناََ آنا هوتا هے.

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: