Laaltain

احتجاج، جمہور اور پاکستان

11 اگست, 2014
Picture of علی زین

علی زین

پاکستان میں انقلابی و احتجاجی سیاست کی تاریخ شاید اتنی ہی پرانی ہوتی جتنا پرانا خود پاکستان ہے اگر قیام پاکستان کے وقت عمران خان اور شہباز شریف یا طاہر القادری جیسے سیاست دان اور شعلہ بیان مقرر پاکستان کو دستیاب ہوتے۔ عمران خان تو پاکستان بنتے ہی فوری طور پر پاکستان کی سرحد بندی میں ہوئی دھاندلی پر دھرنوں کا اعلان کرتے تو شاید شہباز شریف لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی مالا جھپتے۔ طاہر القادری بھی کبھی اذان انقلاب تو کبھی نماز انقلاب ادا کرتے نظر آتے۔ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے اور پاکستانی تاریخ میں جن افراد نے ایام آمریت میں علم بلند کیے ان کو ذرہ برابر رعایت نہ دی گئی اور کبھی تو زندان اور کبھی کوڑے مارے جانے کی شرعی سزا ان کا مقدر ٹھہری۔ محض اتفاق کہیے یا سازش، قیام پاکستان کے بعد ہمیں جمہوریہ بننے میں بھی برسوں بیت گئے اور اس عرصے میں پاکستان میں کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔
احتجاج جمہوریت کا حسن ہے اور پاکستانی تاریخ میں جن افراد نے ایام آمریت میں علم بلند کیے ان کو ذرہ برابر رعایت نہ دی گئی اور کبھی تو زندان اور کبھی کوڑے مارے جانے کی شرعی سزا ان کا مقدر ٹھہری۔

563939_378635665545765_1852711883_n

پاکستان میں باقاعدہ احتجاجی سیاست یا بھرپور احتجاج کے زور پر اپنے سیاسی مطالبات منوانے کا آغاز انہی دنوں میں ہوا جب جنرل ایوب کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹونے صدر پاکستان سے ناراض ہو کر کابینہ سے استعفٰی دے دیا اور پیپلزپارٹی کے نام سے نئی سیاسی پارٹی قائم کر لی۔ پھر اپوزیشن جماعتوں کے بھرپور اور مسلسل احتجاج کے نتیجے میں صدر ایوب کو استعفٰی دے کر گھر جانا پڑا۔ اس کے بعد خود ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئے پاکستان کے دوسرے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر احتجاجی تحریک نے زور پکڑا تو بھٹو نے اس احتجاج کو ریاستی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی، نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو کے ہی تعینات کئیے گئے جنرل ضیاالحق نے ملک میں مارشل لاء لگا کر ان کو گرفتار کر لیا اور بات ایک قتل کے مقدمے میں بھٹو کی پھانسی پر ختم ہوئی۔
جنرل ضیاء کے بد ترین آمرانہ دور میں جہاں ایک جانب آئین پاکستان میں ترامیم پر ترامیم کرکے اصل آئین کا نقشہ بگاڑا گیا وہیں احتجاج کرنے والوں کا مقدر بھی قید تنہائی اور کوڑے ٹھہرے۔ خود ضیاء الحق کی مرضی کے مطابق غیرجماعتی بنیادوں پر ہوئے انتخابات کے نتیجے میں بنی حکومت کو بھی حدود سے تجاوز کرنے پر چلتا کر دیا گیا۔ ضیاء الحق کے دور میں احتجاجیوں سے آ ہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا ۔ پاکستان شاید آج بھی ضیائی دور میں ہوتا اگر جہاز کی پرواز حادثے کا شکار ہو کر ان کو خالق حقیقی سے ملاقات کرنے پر مجبور نہ کر دیتی۔

bb0003

جنرل ضیا ء کے بعد پاکستان میں ایک بار پھر سے جمہوریت کا سورج طلوع ہو ا اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں مگر ان کی حکومت زیادہ عرصہ چل نہ سکی۔نتیجہ یہ ہوا کہ پھر انتخابا ت ہوئے اور میاں محمد نوازشریف پہلی بار ملک کے وزیر اعظم بنے ۔ بے نظیر بھٹو کی جانب سے نوازشریف حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگے اور انہوں نے حکومت کے دوسال پورے ہوتے ہی لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ انیس سو بانوے میں ہونے والے اس احتجاج کو قاضی حسین احمداور نوابزادہ نصرللہ کی حمایت بھی حاصل تھی تاہم نوازشریف کی جانب اس لانگ مارچ کے ساتھ سختی سے نمٹا گیا، پورے ملک میں احتجاج کرنے والے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا، اسی مارچ کے دوران ہی سلمان تاثیر مرحوم کو بہت پیٹا گیا اور گرفتار کر کے قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو بھی جیسے ہی جلسہ گاہ پہنچی ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا باقائدہ لانگ مارچ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ پہلے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد بے نظیر بھٹو نے دوسرے لانگ مارچ کا اعلان کیا ۔ یہ لانگ مارچ اتنا پر تاثیر تھا کہ اعلان کے بعد ہی وزیراعظم نوازشریف نے استعفٰی د ے دیا۔ دوبارہ عام انتخابات ہوئے اور بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
اس کے بعد بڑی احتجاجی تحریک جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس وقت سامنے آئی جب دوہزار سات میں انہوں نے ملک میں ایمرجنسی لگاتے ہوئے اعلی عدلیہ کے بیشتر ججز کو معزول کرکے گھر بھیج دیا۔ اس کے نتیجے ملک بھر میں وکلاء کی جانب سے ججز بحالی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ بے نظیر بھٹو نے تب ہی اپنے تیسرے لانگ مارچ کا اعلان کیا تاہم ان کو نظر بند کر دیا گیا اور ان کا یہ مارچ بھی نہ ہو سکا۔تاہم وکلاء تحریک جاری رہی اور اگلے ہی برس ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کی حمایت کے ساتھ ملک میں ایک اور لانگ مارچ ہوا۔ ملکی تاریخ کے برعکس اس لانگ مارچ کا پیپلز پارٹی کی نئی قائم شدہ حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں استقبال کیا گیا، تمام شرکاء کو نہ صرف سکیورٹی مہیا کی گئی بلکہ مشروب سے تواضع بھی کی گئی۔تاہم اس لانگ مارچ کے مقاصد کے حصول میں ناکامی ہوئی کیونکہ معزول جج حضرات کی بحالی کی بجائے محض بحالی کا وعدہ ہی کیا گیا۔

Pakistani_Lawyers_3

دوہزار نو میں ملک بھر کی اپوزیشن جماعتوں کی تائید میں وکلاء تحریک کا دوسرا لانگ مارچ ہوا، اس لانگ مارچ کو حکومت کی جانب سے نا قابل قبول قرار دیا گیا تاہم اسی لانگ مارچ میں پیپلزپارٹی کے اپنے کئی سرکردہ رہنما بھی شریک ہوئے۔ملک کے کئی شہروں میں لانگ مارچ کو روک لیا گیا تاہم لاہور میں پولیس لانگ مارچ کو روکنے میں ناکام رہی اور ہزاروں افراد اسلام آباد کی طرف نکل پڑے۔ مارچ ابھی گوجرانولہ ہی پہنچا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے تمام مطالبات مان کر ججز کی بحالی کا اعلان کر دیا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری سال میں عین انتخابات سے پہلے ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ تحریک کے روح رواں علامہ طاہر القادری کی جانب سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا گیااور دھرنا دیا گیا۔ ان کے مطالبات میں کئی انتخابی اصلاحات شامل تھیں،حکومت کی جانب سے ان کو روکا نہیں گیا اور چند دن کے دھرنے کے بعد ان کو ایک معاہدے سے نواز کراسلام آباد سے روانہ کر دیا گیا جس میں انتخابی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس معاہدے پر بعد میں عمل نہیں کیا گیا لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ لانگ مارچ بھی ناکام ہی لوٹا تھا۔
دونوں فریقین کی ہٹ دھرمی سے جگ ہنسائی جمہوریت اور پاکستان کی ہو رہی ہے۔اوربلاشبہ یہ حکومت اور اپوزیشن کی ہٹ دھرمی ہی تھی جس نے بار بار طالع آزماؤں کو آئین کے پرخچے اڑانے کا جواز فراہم کیا ۔
آج پھر دوہزار چودہ میں جب پاکستان اپنی آزادی کے سڑسٹھ سال مکمل کررہا ہے، ملک کو ماہ آزادی میں احتجاجی تحریکوں کا سامنا ہے، تیسری نواز شریف حکومت کے خلاف بیک وقت دو لانگ مارچ ہو رہے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کے ایک ہی تاریخ کو ہونے والے لانگ مارچوں میں ایک مشترکہ مطالبہ اس حکومت کی برخاستگی ہے۔ حکومت کی جانب سے لانگ مارچ سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس کا نمونہ یو م شہداء کے لیے آنے والے عوامی تحریک کے کارکنوں کو روکنے کے لیئے شہر شہر ناکہ بندی کرکے اور کنٹینرز رکھ کرپیش کیا گیا۔ عوامی تحریک اور پولیس میں ہونے والی جھڑپوں میں کئی پولیس اہلکار اور کارکنان زخمی و ہلاک بھی ہوئے۔ تمام بڑے شہروں میں حکومتی احکامات کے ذریعے تیل کی فروخت بند ہو چکی ہے اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لانگ مارچ کی تاریخ اب چونکہ نزدیک ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ شہر شہر محاصرے ، پولیس کریک ڈاؤن اور تیل کے قلت اس لانگ مارچ کے اختتام تک جاری رہی گی۔ ان مسائل سے عام شہری بھی نالاں ہیں اور قیدیوں کی طرح شب وروز گزارنے پر مجبور ہیں۔
حکومت اور حکومت گرانے والے کسی قسم کی لچک دکھانے پر تیار نہیں اور اس لڑائی میں نقصان ملک اور عوام کا ہو رہا ہے۔ لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مظاہرین کے احتجاج کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں روکنے کے لیے کئے گئے اقدامات پر نظر ثانی کرے اور ’سربراہ مملکت ‘کی طرح فراخدلی کا مظاہرہ کرے کیونکہ حکومتی رویہ عام آدمی کے دل میں بھی حکومت کے خلاف نفرت کو جنم دے رہا ہے۔ا سی طرح لانگ مارچ کرنے والے فریقین کو بھی چاہیے کہ اپنے احتجاج کو عام آدمی کے دل میں پزیرائی دینے کے لیے ہر قسم کے تشدد سے گریز کریں اور اپنے مطا لبات میں بھی لچک پیدا کریں۔کیونکہ دونوں فریقین کی ہٹ دھرمی سے جگ ہنسائی جمہوریت اور پاکستان کی ہو رہی ہے۔اوربلاشبہ یہ حکومت اور اپوزیشن کی ہٹ دھرمی ہی تھی جس نے بار بار طالع آزماؤں کو آئین کے پرخچے اڑانے کا جواز فراہم کیا ۔

ہمارے لیے لکھیں۔