[blockquote style=”3″]
مولانا طاہر القادری کا حکومتی ایوان پر دھاوا بولنے کا اعلان نیا نہیں ہے۔حالیہ حکومت مولانا کے انقلابی مارچ کے ردعمل میں ضرورت سے زیادہ توانائیاں صرف کر رہی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مولانا کے مارچ سے نمٹنے میں گزشتہ حکومت کی معاملہ فہمی سے سبق حاصل نہیں کر رہی۔ مرتضیٰ سولنگی سینئر صحافی اور ریڈیو پاکستان کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ مولانا کے گزشتہ انقلاب کو جھیلتے ہوئے وہ سابقہ وزارت اطلاعات کے ساتھ مشاورت میں سرگرم رہے۔ ان سطروں میں انہوں نے اس وقت کے طاقت کے ایوانوں میں مولانا کاسامنا کرنے کے لیے ہونے والی سیاسی چہ مگوئیوں کے چشم دید احوال بیان کیے ہیں۔
[/blockquote]
بدھ سولہ جنوری کی اس سرد صبح کو ہم وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ کے فلیٹ پہنچے۔
پچھلے دو دنوں سے عورتیں، بچے اور قادری کے مرید سردی سے ٹھٹھر رہے تھے جبکہ قادری صاحب ایک گرم اور آرام دہ شہادت پروف کنٹینر میں براجمان تھے اور ان کے انقلابی اعلانات اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ حکومت کے اندر قادری سے نمٹنے پر بحث و تمحیص بھی جاری تھی۔
اس فلیٹ سے چند بلاک دور طاہرالقادری اپنے کچھ ہزار حامیوں اور مریدوں کے ساتھ خیمہ زن تھے۔ میں، امجد بھٹی اور وزارت اطلاعات کے ایک نوجوان افسر کائرہ صاحب کے بیڈ روم میں بیٹھ گئے۔ ہم لوگ خبریں دیکھتے، خبروں پر تبصرہ کرتے اور پھر اپنے روزمرہ کے کام میں جُت جاتے۔ آج بھی قادری صاحب کے انقلابی اعلانات صبح کی اخبارات کی زینت تھے؛
زرداری صدر نہیں رہے۔ وزیرِاعظم نہیں رہے۔ اسمبلیاں ختم ہو چکیں، وغیرہ وغیرہ۔
ہم ایک متضاد کیفیت کا شکار تھے۔ قادری کے بیان پر ہنسی بھی آرہی تھی اور افسوس بھی ہو رہا تھا۔ تقریباً یہی حال پوری قوم کا تھا۔
پچھلے دو دنوں سے عورتیں، بچے اور قادری کے مرید سردی سے ٹھٹھر رہے تھے جبکہ قادری صاحب ایک گرم اور آرام دہ شہادت پروف کنٹینر میں براجمان تھے اور ان کے انقلابی اعلانات اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ حکومت کے اندر قادری سے نمٹنے پر بحث و تمحیص بھی جاری تھی۔ نوکر شاہی یا تو الٹی سیدھی تجاویز دے رہی تھی یا خاموشی سے پارلیمانی نظام کے لپیٹے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔
ہم نے طے کیا کہ بہتر یہ ہوگا کہ اس کی غیرسنجیدہ باتوں کو مذاق میں اُڑایا جائے نہ کہ مکھی کے لیے توپ کا گولا استعمال کیا جائے۔ کیونکہ قادری پارلیمان کونشانہ بنا رہے تھے اس لیے ہم نے طے کیا کہ کائرہ صاحب پارلیمان کے سامنے، اپنے اسمبلی کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر قادری کا جواب دیں گے۔ لیکن یہ جواب، دھمکی کا جواب دھمکی کے ساتھ کم اور ان کی غیر سنجیدگی کی قلعی کھولنے کے لیے زیادہ ہوگا۔
زرداری صدر نہیں رہے۔ وزیرِاعظم نہیں رہے۔ اسمبلیاں ختم ہو چکیں، وغیرہ وغیرہ۔
ہم ایک متضاد کیفیت کا شکار تھے۔ قادری کے بیان پر ہنسی بھی آرہی تھی اور افسوس بھی ہو رہا تھا۔ تقریباً یہی حال پوری قوم کا تھا۔
پچھلے دو دنوں سے عورتیں، بچے اور قادری کے مرید سردی سے ٹھٹھر رہے تھے جبکہ قادری صاحب ایک گرم اور آرام دہ شہادت پروف کنٹینر میں براجمان تھے اور ان کے انقلابی اعلانات اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ حکومت کے اندر قادری سے نمٹنے پر بحث و تمحیص بھی جاری تھی۔ نوکر شاہی یا تو الٹی سیدھی تجاویز دے رہی تھی یا خاموشی سے پارلیمانی نظام کے لپیٹے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔
ہم نے طے کیا کہ بہتر یہ ہوگا کہ اس کی غیرسنجیدہ باتوں کو مذاق میں اُڑایا جائے نہ کہ مکھی کے لیے توپ کا گولا استعمال کیا جائے۔ کیونکہ قادری پارلیمان کونشانہ بنا رہے تھے اس لیے ہم نے طے کیا کہ کائرہ صاحب پارلیمان کے سامنے، اپنے اسمبلی کے ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر قادری کا جواب دیں گے۔ لیکن یہ جواب، دھمکی کا جواب دھمکی کے ساتھ کم اور ان کی غیر سنجیدگی کی قلعی کھولنے کے لیے زیادہ ہوگا۔
اسی دن سہ پہر کو کائرہ صاحب نے ہنستے ہوئے قادری کے متعدد فرمانوں کا کامیابی سے مذاق اُڑایا اور اس کے غبارے میں سوئیاں چبھوئیں۔ کائرہ نے بہت شاندار طریقے سے حکومت کے اعتماد کو مضبوط کیا جسے میڈیا اور عوام نے بہت پسند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس پریس کانفرنس کی وڈیو دیکھنے والوں کی انٹرنیٹ پر تعداد ہزاروں میں ہے۔ لیکن شام کو رحمان ملک نے وزارتِ داخلہ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہم قادری کے خلاف ایک محدود پیمانے کاآپریشن کرنے جارہے ہیں۔ اس خبر نے حکومت کو ایک اور بھونچال کا شکار کردیا۔
ہم نے طے کیا کہ بہتر یہ ہوگا کہ اس کی غیرسنجیدہ باتوں کو مذاق میں اُڑایا جائے نہ کہ مکھی کے لیے توپ کا گولا استعمال کیا جائے۔
آخرکار بہت ساری فون کالز اور سرگرمیوں کے بعد خود صدر آصف زرداری نے نجم سیٹھی کو کال کرکے یقین دہانی کرائی، اور قادری کے خلاف کسی قسم کا آپریشن نہ کرنے کا یقین دلایا۔ یہی وجہ ہے کہ قادری مجبور ہوئے کہ بات چیت کر کے پسپائی اختیار کریں اور دُم دبا کر کینیڈا رفو چکر ہوگئے۔ وہ نہ اپنی سیاست بچا سکے اور نہ ریاست کو کوئی نقصان پہنچا سکے۔
آج جب قادری صاحب ایک بار پھر ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں، امید ہے کہ ن لیگ حکومت ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے حربے آزمانے کی بجائے ہوش سے کام لے گی۔
آج جب قادری صاحب ایک بار پھر ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے اسلام آباد کی طرف مارچ کا ارادہ رکھتے ہیں، امید ہے کہ ن لیگ حکومت ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے حربے آزمانے کی بجائے ہوش سے کام لے گی۔
Hope PMLn will get some lesson from the previous government to handle such anti-state elements. Long live Pakistan, long live democracy!!
I think the Govt. has implemented similar tactic, they shocked the #TuQ and #IK enough that they have made illegal and inhumane comments.
And after recording those comments the Govt. agreed with their demands!
Thus nullifying the need of Marches and creating a problematic situation for both of them!