پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبے کے نجی اور سرکاری سکولوں کے تحفظ کے لیے سکیورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کا عمل گزشتہ تین ہفتوں سے شروع کر رکھا ہے، اس دوران تعطیلات سرما میں دو مرتبہ اضافہ بھی کیا جا چکا ہے۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے تمام سکولوں کو سکول عملہ کا مکمل ریکارد مرتب کرنے، تربیت یافتہ سکیورٹی گارڈز کی تعیناتی، سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور آٹھ فٹ بلند چاردیواری کی تعمیر کی ہدایا ت کی گئی ہیں۔
سکیورٹی صورت حال پر ایک نظر
پنجاب کے وزیر تعلیم شجاع خانزادہ کے مطابق تعلیمی اداروں کی سکیورٹی تین مراحل میں بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی، پہلے مرحلے میں 9 جنوری تک حفاظتی اقدامات مکمل کرنے والے تعلیمی اداروں کو 12 جنوری کو تدریس کا آغاز کرنے کی اجازت دی جاچکی ہے۔ دوسرے مرحلے میں ڈھائی ماہ کے بعد جانچ پڑتال کے ذریعہ سکولوں کی سکیورٹی کا جائزہ لای جائے گا۔ محکمہ تعلیم کے مطابق تیسرے مرحلے میں چھ ماہ کے اندر سکیورٹی اقدامات نہ کرنے والے تعلیمی اداروں کو بند کردیا جائے گا۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے سکولوں کوسکیورٹی خدشات کی بنیاد پر تین زمروں میں درجہ بند کیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پنجاب بھر میں 322 سکولوں کو حساس قرار دیا ہے جن میں سے 23 انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق لاہور کے سولہ کالجز کی عمارات اور ہاسٹلز میں سکیورتی انتظامات ناقص قرار دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بھی تین سو سے زائد تعلیمی اداروں کو حساس قرار دی اہے جن میں سے سولہ پاک فوج کے زیر انتظام چلنے والے ادارے ہیں۔ پاکستان کے تمام تعلیمی ادارے اپنی تدریسی سرگرمیوں کا آغاز کر چکے ہیں تاہم مشنری سکولوں کی ایک بڑی تعداد ابھی تک سکیورٹی خدشات کے باعث نہیں کھولی جا سکی۔
خیبرپختونخواہ حکومت نے بھی تعلیمی اداروں کے لیے 12 جنوری سے قبل این او سی کے حصول کی شرط عائد کی تھی ۔ ایس ایس پی پولیس میاں محمد سعید کے مطابق پولیس نے 1140 سکولوں کی جانچ کی جن میں سے 118 کو این او سی سرٹیفیکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اجازت کے بغیر کھلنے والے سکولوں کو نوٹس بھی دیے ہیں تاہم تاحال تمام سرکاری اور غیر سرکاری سکول ابھی تک سکیورٹی اقدامات مکمل نہیں کر سکے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ پرویز خٹک کے مطابق وسائل اور محکمہ پولیس میں عملہ کی کمی کے باعث حکومت کے لیے تما م سکولوں کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ نے سکولوں کے تحفظ کے لیے میکینزم کی جلد تیاری کی یقین دہانی بھی کرائی۔سندھ کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں تاہم کراچی میں بعض تعلیمی اداروں کو سکیورٹی خدشات کے باعث تاحال نہیں کھولا جا سکا۔ بلوچستان میں سرما تعطیلات مارچ تک جاری رہیں گی۔فاٹا میں بھی تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں تاہم باڑہ میں سکیورٹی صورت حال بہتر ہونے تک سکول بند رہیں گے۔
“جہاں حملہ ہو وہاں پولیس بٹھا دو”
صوبائی حکومتوں کی جانب سے سکولوں کی سکیورٹی بڑھانے کے لیے موبائل ایپس، پولیس اہلکاروں کی تعیناتی اور سریع الحرکت فورس کی تعیناتی سمیت متعدد اقدامات کیے جانے کے باوجود سکیورٹی صورت حال مخدوش ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے تدریسی اوقات کے دوران پولیس اہلکاروں کی تعیناتی اور سریع الحرکت فورس کو تیار حالت میں رکھنے کے علاوہ سرکاری سکولوں میں تربیت یافتہ محافظوں کی تعیناتی جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے سرکاری کالجز میں رضاکار طلبہ کو نیشنل کیڈٹ کور (NCC) کی تربیت فراہم کرنے کابھی فیصلہ کیاہے جس میں شرکت کرنے والے طلبہ کو اضافی نمبربھی دیے جائیں گے۔
صوبائی حکومتوں کی جانب سے کیے جانے والے سکیورٹی اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے لاہور کے ایک معروف کالج کے سکیورٹی آفیسر نے کہا ہے ،”حکومت ہر جگہ گارڈز کھڑے نہیں کر سکتی، خطرات کا تدارک تبھی ہو سکتا ہے جب شدت پسندی کے خلاف قومی سطح پر جنگ لڑی جائے۔” جرمیات کی تدریس سے وابستہ ڈاکٹر ارسلان احمد کا کہنا تھا کہ سکیورٹی خدشات کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار اہلیت سرکاری اداروں میں نہیں ہے،”دہشت گردی کے خلاف حکومت کا انداز دفاعی ہے، جہاں حملہ ہوتا ہے وہاں پولیس بٹھا دی جاتی ہے، آج تعلیمی اداروں پر حملہ ہوا ہے تو کل کو ہسپتالوں پر بھی ہو سکتا ہے، ا س لیے صرف دفاع ہی نہیں حملے سے پہلے حملے وک روکنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔” ڈاکٹر ارسلان کا کہنا تھا کہ یہ خفیہ اداروں کی ناکامی ہے اور اسے بہتر کرنے میں عشرے لگیں گے،”جب تک سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومتیں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کریں گے تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور اس کے لیے ایک طویل المدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔”
شدت پسندوں کے نام ایک واضح پیغام
“شدید خطرات کے باوجود تعلیمی اداروں کا کھلنا اور طلبہ کاحاضر ہونا شدت پسندوں کے نام ایک واضح پیغام ہے کہ وہ ہمیں ہار ماننے پر مجبور نہیں کر سکتے، ہم اپنے بچوں اور قوم کے مستقبل کے تحفظ کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔”لاہور کالج فارویمن سے وابستہ خولہ شہزاد نے لالٹین سے بات کرتے ہوئے آج کے دن کو ایک اہم دن قرار دیا۔ لالٹین سے بات کرتے ہوئے بعض طلبہ نے آرمی پبلک سکول پشاور کی تقریب میں آرمی چیف کے علاوہ سیاسی قیادت کی عدم شرکت پر مایوسی کا اظہار بھی کیا۔ طلبہ اور اساتذہ کے مطابق سکیورٹی کے حوالے سے اقدامات میں مزید بہتری کی ضرورت پر زور دیا اور شدت پسندوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ پاکستان میں تعلیمی ادارے گزشتہ کئی برس سے دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ سولہ دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان بھر کے تعلیمی ا داروں میں تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
Authors: Tauseef Ahmad & Aiman Saleem