روئے زمین پر حضرتِ انسان کے عزم اور حوصلے کے آہنی ہاتھ سے بیابان، کوہسار اور جنگلوں کے خیابان، گلزار اور باغ بننے کی تاریخ ایک طویل داستان ہے۔ یہ تاریخ مختلف خِطوں اور قوموں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہندوستان کے خطے کی تاریخ میں جہاں معدودے چند بادشاہوں، انگریز حکمرانوں اور مقامی راجاوں اور نوابوں کے اس سرزمین کو متمدن بنانے کی کاوشوں کا ذکر اس تاریخ کے صفحات پر ملتا ہے وہاں ایک شخصیت ایسی ہیں جو ایک فرد کے طور پر ایک انجمن اور ایک ادارے کی طرح درخشاں ہیں۔
رائے بہادر سر گنگا رام کو اس بستی کے باسی بھی فقط ایک سرکاری انجنئیر کے طور پر جانتے ہیں جسے بسانے میں گنگا رام کی محنت اور دولت ہی نہیں بلکہ اُن کے خلوص اور محبت نے اہم کردار ادا کیا۔ زرعی، تعمیراتی اور فلاحی حوالے سے سر گنگا رام کی خدمات میں سے ہم عموماً ‘سر گنگا رام ہسپتال’ سے ہی واقف ہیں لیکن یہ فہرست طویل اور دلچسپ بھی ہے جبکہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ سر گنگا رام کی خدمات اور ان محنتوں کے پیچھے کیا محرک تھا۔
رائے بہادر سر گنگا رام کو اس بستی کے باسی بھی فقط ایک سرکاری انجنئیر کے طور پر جانتے ہیں جسے بسانے میں گنگا رام کی محنت اور دولت ہی نہیں بلکہ اُن کے خلوص اور محبت نے اہم کردار ادا کیا۔ زرعی، تعمیراتی اور فلاحی حوالے سے سر گنگا رام کی خدمات میں سے ہم عموماً ‘سر گنگا رام ہسپتال’ سے ہی واقف ہیں لیکن یہ فہرست طویل اور دلچسپ بھی ہے جبکہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ سر گنگا رام کی خدمات اور ان محنتوں کے پیچھے کیا محرک تھا۔
اُنہوں نے لاہور شہر کے تعمیری اور تمدنی ورثے میں جن عمارات کا اضافہ کیا وہ آج بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر ہیں اور اب بھی دیکھنے والی آنکھ اس کے حُسنِ تعمیر کی قائل ہے۔
گنگا رام1851ء میں مانگٹانوالہ میں پیدا ہوئے جو کہ لاہور سے چالیس میل ننکانہ صاحب کی جانب ایک چھوٹا سا تھانہ تھا اور گنگا رام کے والد، سب انسپکٹر دولت رام وہاں نوکر تھے۔ دولت رام نے بعد ازاں پولیس کے محکمے کو خیرباد کہا اور امرتسر میں عدالت کے منشی مقرر ہو گئے۔ یہاں گنگا رام کی تعلیمی زندگی کا آغاز ہوا۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے گنگا رام نے ہائر سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل کی اور پھر 1871ء میں تھامسن انجنیئرنگ کالج رُڑکی میں انجنیئرنگ کی تعلیم کیلئے داخلہ لیا۔ 1873ء میں گنگا رام نے یہاں سے گولڈمیڈل حاصل کیا اور اسسٹنٹ انجنیئر کے طور پر پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (PWD) میں تعینات ہوئے۔ دہلی میں شاہی دربار کے کام میں ان کی کارکردگی کے پیش نظر وائسرائے لارڈ رپن نے اُن کو آب پاشی اور نکاسی آب کی اعلیٰ تربیت اور تخصیص کیلئے برطانیہ بھجوادیا۔
زراعت میں سر گنگا رام کا پہلا یادگارکارنامہ ضلع منٹگمری کی 50 ہزار ایکڑ غیر آباد زمینوں کی ہمواری اور اس میں پہلی بار جدید ترین طریق ہائے کار کے ذریعے آب پاشی ، کاشت اور فصلوں کی دیکھ بھال کا اہتمام کیا گیا جس سے ان وسیع و عریض بے آب و گیا ہ علاقوں میں ناصرف صحتمند زراعت شروع ہوئی بلکہ گنگا رام نے پنجابی دہقان کوجدید سائنسی طریقوں کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے پر بھی آمادہ کیا جو کہ اس سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ جدید آلات کاشت اور جنس میں سے برکت ختم کردیتے ہیں۔
لائل پور (فیصل آباد) میں جڑانوالہ کے نواحی علاقے میں گنگاپور ایگریکلچرل پراجیکٹ کے نام سے سر گنگا رام نے ناصرف سیکڑوں ایکڑ پر پھیلےایک وسیع و عریض لیکن بنجر خطہ زمین کو ہموار کرکے قابل کاشت بنایا بلکہ یہاں بجلی اور بھاپ کی قوت سے چلنے والے جدید میکانی نظام بھی آب پاشی اور کٹائی کے لیے استعمال کیے۔ اس پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی اجناس کی ترسیل کے لیے جڑانوالہ ایک نواحی ریلوے سٹیشن تک اُنہوں نے ‘گھوڑا ریل’ بھی چلائی۔ یہ کم چوڑائی کے ایکسل والا ایک بڑا ٹھیلا تھا جسے گھوڑوں کے زریعے کھینچا جاتا تھا۔ یہ کارنامہ اُس دور کے تناظر میں ایک عظیم خدمت ہے جب پنجاب بیشتر بنجر زمین تھا، بیماریوں اور وباوں کی وجہ سے اوسط عمر کم تھی اور فصلوں میں پُرانے اور فرسودہ طریق ہائے کار اور بیماریوں کی روک تھام نہ ہو سکنے کے پیش نظر فی ایکڑ پیداوار بہت کم تھی اور اس وجہ سے غریب کسان بُھوک کے ہاتھوں نڈھال تھا۔
لاہور میں بطور اسسٹنٹ انجنیئر اُنہوں نے رائے بہادر کنیہا لال ایگزیکٹو انجنئیر کے ماتحت کام کیا۔ اُنہوں نے یہاں رہتے ہوئے لاہور شہر کے تعمیری اور تمدنی ورثے میں جن عمارات کا اضافہ کیا وہ آج بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر ہیں اور اب بھی دیکھنے والی آنکھ اس کے حُسنِ تعمیر کی قائل ہے۔ ان میں ایچیسن کالج ، میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس)، لیڈی میکلیگن گرلز ہائی اسکول (ان لاہور کالج فار ویمن) اور لیڈی مینارڈ انڈسٹریل اسکول جیسے تعلیمی ادارے شامل ہیں جبکہ ہیلی کالج آف کامرس کی نا صرف تعمیر ہی سر گنگا رام کا کارِنمایاں ہے بلکہ وہ اس کے بانیوں میں سے بھی ہیں۔ ایک کامرس کالج کی ضرورت کے تحت اُنہوں نے اس کے قیام کی سفارش کی تھی اور اس کی تعمیر میں دامے درمے مدد بھی کی۔ دیگر سرکاری عمارات میں لاہور میوزیم، جنرل پوسٹ آفس ، لاہور ہائیکورٹ، البرٹ وکٹر ونگ (میو ہسپتال) اور رینالہ خورد کے پاور اسٹیشن کی تعمیر میں جو جابجا یورپی طرزِ تعمیر کی خوبیوں اور ہندوستانی موسم اور آب و ہوا کے ساتھ مطابقت کے کمالات نظر آتے ہیں، یہ سر گنگا رام کے ہُنر اور محنت کا ثمرہ ہیں جن کی وجہ سے وہ ناصرف ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے بلکہ اُنہیں سرکار نے بھی کمال فراخدلی سے نوازا۔ مال روڈ، اور ماڈل ٹاون کی ‘ٹاون پلاننگ’ بھی سر گنگا رام نے بطور میونسپل کمشنر کی۔ سر گنگا رام اپنے کیرئیر کے قبل از وقت اختتام تک ایک دولتمند شخصیت تھے لیکن اُنہوں نے فلاح و بہبود کے کاموں میں اپنی دولت بے دریغ خرچ کی۔
زراعت میں سر گنگا رام کا پہلا یادگارکارنامہ ضلع منٹگمری کی 50 ہزار ایکڑ غیر آباد زمینوں کی ہمواری اور اس میں پہلی بار جدید ترین طریق ہائے کار کے ذریعے آب پاشی ، کاشت اور فصلوں کی دیکھ بھال کا اہتمام کیا گیا جس سے ان وسیع و عریض بے آب و گیا ہ علاقوں میں ناصرف صحتمند زراعت شروع ہوئی بلکہ گنگا رام نے پنجابی دہقان کوجدید سائنسی طریقوں کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے پر بھی آمادہ کیا جو کہ اس سے قبل یہ سمجھتا تھا کہ جدید آلات کاشت اور جنس میں سے برکت ختم کردیتے ہیں۔
لائل پور (فیصل آباد) میں جڑانوالہ کے نواحی علاقے میں گنگاپور ایگریکلچرل پراجیکٹ کے نام سے سر گنگا رام نے ناصرف سیکڑوں ایکڑ پر پھیلےایک وسیع و عریض لیکن بنجر خطہ زمین کو ہموار کرکے قابل کاشت بنایا بلکہ یہاں بجلی اور بھاپ کی قوت سے چلنے والے جدید میکانی نظام بھی آب پاشی اور کٹائی کے لیے استعمال کیے۔ اس پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی اجناس کی ترسیل کے لیے جڑانوالہ ایک نواحی ریلوے سٹیشن تک اُنہوں نے ‘گھوڑا ریل’ بھی چلائی۔ یہ کم چوڑائی کے ایکسل والا ایک بڑا ٹھیلا تھا جسے گھوڑوں کے زریعے کھینچا جاتا تھا۔ یہ کارنامہ اُس دور کے تناظر میں ایک عظیم خدمت ہے جب پنجاب بیشتر بنجر زمین تھا، بیماریوں اور وباوں کی وجہ سے اوسط عمر کم تھی اور فصلوں میں پُرانے اور فرسودہ طریق ہائے کار اور بیماریوں کی روک تھام نہ ہو سکنے کے پیش نظر فی ایکڑ پیداوار بہت کم تھی اور اس وجہ سے غریب کسان بُھوک کے ہاتھوں نڈھال تھا۔
لاہور میں بطور اسسٹنٹ انجنیئر اُنہوں نے رائے بہادر کنیہا لال ایگزیکٹو انجنئیر کے ماتحت کام کیا۔ اُنہوں نے یہاں رہتے ہوئے لاہور شہر کے تعمیری اور تمدنی ورثے میں جن عمارات کا اضافہ کیا وہ آج بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر ہیں اور اب بھی دیکھنے والی آنکھ اس کے حُسنِ تعمیر کی قائل ہے۔ ان میں ایچیسن کالج ، میو سکول آف آرٹس (موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس)، لیڈی میکلیگن گرلز ہائی اسکول (ان لاہور کالج فار ویمن) اور لیڈی مینارڈ انڈسٹریل اسکول جیسے تعلیمی ادارے شامل ہیں جبکہ ہیلی کالج آف کامرس کی نا صرف تعمیر ہی سر گنگا رام کا کارِنمایاں ہے بلکہ وہ اس کے بانیوں میں سے بھی ہیں۔ ایک کامرس کالج کی ضرورت کے تحت اُنہوں نے اس کے قیام کی سفارش کی تھی اور اس کی تعمیر میں دامے درمے مدد بھی کی۔ دیگر سرکاری عمارات میں لاہور میوزیم، جنرل پوسٹ آفس ، لاہور ہائیکورٹ، البرٹ وکٹر ونگ (میو ہسپتال) اور رینالہ خورد کے پاور اسٹیشن کی تعمیر میں جو جابجا یورپی طرزِ تعمیر کی خوبیوں اور ہندوستانی موسم اور آب و ہوا کے ساتھ مطابقت کے کمالات نظر آتے ہیں، یہ سر گنگا رام کے ہُنر اور محنت کا ثمرہ ہیں جن کی وجہ سے وہ ناصرف ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے بلکہ اُنہیں سرکار نے بھی کمال فراخدلی سے نوازا۔ مال روڈ، اور ماڈل ٹاون کی ‘ٹاون پلاننگ’ بھی سر گنگا رام نے بطور میونسپل کمشنر کی۔ سر گنگا رام اپنے کیرئیر کے قبل از وقت اختتام تک ایک دولتمند شخصیت تھے لیکن اُنہوں نے فلاح و بہبود کے کاموں میں اپنی دولت بے دریغ خرچ کی۔
[layerslider id=”3″]
1900ء کے دہلی دربار کے انعقاد کے موقع پر وائسرائے لارڈ کرزن نے اُنہیں سپرنٹنڈنٹ آف ورکس تعینات کیا۔ دربار کے انعقاد کےتکنیکی معاملات کو اُنہوں نے بخوبی نبھایا لیکن جب اس کے اعزازات کی فہرست ”نیو یارک آنر لسٹ ” شائع ہوئی تو پیشہ ورانہ حسد کی وجہ سے ان کا نام فہرست میں شامل نہ ہونے دیا گیا۔ اس کے بعد سر گنگا رام نے بہت کم عرصہ سرکاری ملازمت میں گزارا اور 1903ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔
وہ ایک ہندوستانی مرد، عورت اور بچے کی یومیہ خوراک کا تخمینہ کرکے اُسے ہندوستان کی کل آبادی سے ضرب کرکے اور اسے دستیاب زرعی پیداوار سے تقسیم کر کے حاصل شدہ اعداد و شمار کی روشنی میں سوچا کرتے تھے اور ایک عام ہندوستانی کی بھوک کی فکر میں گھلتے رہتے تھے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے ریاست پٹیالہ کی ملازمت میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے کافی خدمات سرانجام دیں۔
فلاحی کاموں میں جو کارہائے نمایاں سر گنگا رام کی شہرت کا باعث بنے ان میں سر گنگا رام ہسپتال اور سر گنگا رام ٹرسٹ شامل ہیں۔ سر گنگا رام ہسپتال 1921ء میں قائم ہوا جس کے پہلو میں ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو اب فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے۔ اس کے ہمراہ ڈسپنسری اور ہاسٹل بھی بنائے گئے۔
سر گنگا رام کی زندگی کے دو پیغامات بڑے واضح تھے۔ وہ اس معاشرے میں ہندو، مسلم، سکھ یا پارسی کی شناخت کے بغیر، صرف انسانی حیثیت میں فلاح اور بھلائی کے قائل تھے۔ دوسرے، اُنہوں نے جدید سائینسی طریقوں کے ذریعے پیداوار کے بڑھانے کو اہل ہند کیلئے ازحد ضروری قرار دیا۔ وہ قدامت پسند کانگریسیوں کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت پر تنقید کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ گاندھی کا چرخہ صرف چولھے میں آگ جلانے کے کام آ سکتا ہے۔ رائے بہادر کنہیا لال نے سر گنگا رام کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ایک ہندوستانی مرد، عورت اور بچے کی یومیہ خوراک کا تخمینہ کرکے اُسے ہندوستان کی کل آبادی سے ضرب کرکے اور اسے دستیاب زرعی پیداوار سے تقسیم کر کے حاصل شدہ اعداد و شمار کی روشنی میں سوچا کرتے تھے اور ایک عام ہندوستانی کی بھوک کی فکر میں گھلتے رہتے تھے۔ گنگا پور کا عظیم الشان زرعی منصوبہ دراصل اسی فکر کی پیداوار تھی۔ اپنی دھرتی کے ایک غریب باسی کے لئے محبت کا یہ جذبہ ہمیشہ ان کیلئےایک متحرک رہا۔سر گنگارام جہاں ایک ہندوستانی دہقان کے دست و بازو کی قوت بڑھانے کے خواہاں تھے وہاں ایک شہری کے میعار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اُنہوں نے بہتر تمدنی ماحول کو یقینی بنانے کی کاوشیں کیں۔
1925ء میں انہیں امپیریل بینک آف انڈیا کا صدر بنایا گیا ۔ اسی دوران اُنہوں نے گنگارام ٹرسٹ کا آغاز کیا۔ 10 جولائی 1927ء کو وہ اپنی لندن کی رہائش گاہ میں وفات پا گئے۔ ان کا جسم ہندو رسوم کے مطابق راکھ کر دیا گیا جس میں سے نصف راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی جبکہ باقی ماندہ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے انکی سمادھی مین دفن ہے۔
سر گنگا رام ہسپتال دہلی، گنگا بھون (انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی رُڑکی) اور سر گنگا رام ہیریٹیج فاونڈیشن لاہور اُن کے تعمیری اور خدماتی ورثے کی دیگر یادگاریں ہیں۔ ان کے اعزازات میں رائے بہادر اور سر کے خطاب کے علاوہ ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر (MV0) اور کوم پینیئن آف دی انڈین ایمپائر (CIE) کے اعزازات شامل ہیں۔
فلاحی کاموں میں جو کارہائے نمایاں سر گنگا رام کی شہرت کا باعث بنے ان میں سر گنگا رام ہسپتال اور سر گنگا رام ٹرسٹ شامل ہیں۔ سر گنگا رام ہسپتال 1921ء میں قائم ہوا جس کے پہلو میں ایک میڈیکل کالج بھی قائم کیا گیا جو اب فاطمہ جناح میڈیکل کالج ہے۔ اس کے ہمراہ ڈسپنسری اور ہاسٹل بھی بنائے گئے۔
سر گنگا رام کی زندگی کے دو پیغامات بڑے واضح تھے۔ وہ اس معاشرے میں ہندو، مسلم، سکھ یا پارسی کی شناخت کے بغیر، صرف انسانی حیثیت میں فلاح اور بھلائی کے قائل تھے۔ دوسرے، اُنہوں نے جدید سائینسی طریقوں کے ذریعے پیداوار کے بڑھانے کو اہل ہند کیلئے ازحد ضروری قرار دیا۔ وہ قدامت پسند کانگریسیوں کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کی مخالفت پر تنقید کرتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ گاندھی کا چرخہ صرف چولھے میں آگ جلانے کے کام آ سکتا ہے۔ رائے بہادر کنہیا لال نے سر گنگا رام کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ایک ہندوستانی مرد، عورت اور بچے کی یومیہ خوراک کا تخمینہ کرکے اُسے ہندوستان کی کل آبادی سے ضرب کرکے اور اسے دستیاب زرعی پیداوار سے تقسیم کر کے حاصل شدہ اعداد و شمار کی روشنی میں سوچا کرتے تھے اور ایک عام ہندوستانی کی بھوک کی فکر میں گھلتے رہتے تھے۔ گنگا پور کا عظیم الشان زرعی منصوبہ دراصل اسی فکر کی پیداوار تھی۔ اپنی دھرتی کے ایک غریب باسی کے لئے محبت کا یہ جذبہ ہمیشہ ان کیلئےایک متحرک رہا۔سر گنگارام جہاں ایک ہندوستانی دہقان کے دست و بازو کی قوت بڑھانے کے خواہاں تھے وہاں ایک شہری کے میعار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے اُنہوں نے بہتر تمدنی ماحول کو یقینی بنانے کی کاوشیں کیں۔
1925ء میں انہیں امپیریل بینک آف انڈیا کا صدر بنایا گیا ۔ اسی دوران اُنہوں نے گنگارام ٹرسٹ کا آغاز کیا۔ 10 جولائی 1927ء کو وہ اپنی لندن کی رہائش گاہ میں وفات پا گئے۔ ان کا جسم ہندو رسوم کے مطابق راکھ کر دیا گیا جس میں سے نصف راکھ دریائے گنگا میں بہا دی گئی جبکہ باقی ماندہ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے انکی سمادھی مین دفن ہے۔
سر گنگا رام ہسپتال دہلی، گنگا بھون (انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی رُڑکی) اور سر گنگا رام ہیریٹیج فاونڈیشن لاہور اُن کے تعمیری اور خدماتی ورثے کی دیگر یادگاریں ہیں۔ ان کے اعزازات میں رائے بہادر اور سر کے خطاب کے علاوہ ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر (MV0) اور کوم پینیئن آف دی انڈین ایمپائر (CIE) کے اعزازات شامل ہیں۔
excellent article, need more like this on face book and other social media.