دروازہ کھولتے ہی طوفانِ حیرت کے تھپیڑوں نے میرا استقبال کیا۔ سنا تھا ادھر طورخم بارڈر پار کیا، ادھر آپ ایک صدی قبل جا پہنچے، مگر یہاں تو یہ عالم تھا جیسے مجھ پر زمانہ قبل از مسیح کے در کھل گئے ہوں۔ تاریخِ ہیروڈوٹس میری آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی مانند فریم بائی فریم چل رہی تھی۔ ابتدائے آفرینش اور ارتقائے انسانی کا عملی نمونہ سامنے تھا۔۔ ڈارون کی تھیوری کی نفی میں زندہ جاوید دلائل مجھے اپنے ہی کمرے میں یوں اچانک مل جائیں گے، میں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ میرے عین سامنے ازمنہ قدیم، کہ جس کامفصل ذکر بھی تاریخ میں بمشکل ملتا ہے،کے نمائندہ دو متحرک اجسام پڑے تھے۔ کالے بھجنگ دو انسانی اجسام، جن کے جسم پہ لباس کی مقدار ’حسبِ ضرورت‘ تھی۔۔۔
تاریخ، ازمنہ قدیم، آفرینش اور ابتداء و ارتقاءِ بنی نوعِ انساں جیسے موضوعات ہمیشہ سے میری دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔ مگر فطرت یوں میرے سامنے ایسے اجسام سجا رکھے گی، میرے تصور سے بالاتر تھا۔کیا قدرت مجھے شہرت اور نام وری پانے کا ایک موقع فراہم کر رہی تھی یا پھر یہ ایک طالب علم کے علم کو مہمیز لگانے کا طریقہ دستِ قدرت نے ایجاد کیا تھا؟ ایک زاویہ سوچنے کا یہ بھی تھا کہ بھلا یہ دونوں آخر فدوی کے کمرے میں کر کیا رہے ہیں۔
’اف خداوند!‘ یاد آیا۔ گزشتہ شب ہی کسی سائنسی رسالے میں ڈارون کے نظریہِ ارتقا کے اثبات میں ایک جامع مضمون پڑھ کر، سیلِ نیند میں بہنے سے قبل، خود سپردگی کے آخری لمحات میں بوجھل ہوتی آنکھوں کے ساتھ میری زبان پر آخری الفاظ یہ تھے کہ اے خالقِ ازل، جانے تو سچا کہ ڈارون۔ اور میری تشکیک نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ خالقِ دو عالم نے تمام شکوک و شبہات کے ازالے واسطے، اس زمانے کے دو انسان میرے کمرے میں پہنچا ڈالے تھے جب فرشِ زمین اور لمسِ انسانی میں آشنائی کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے۔
’اف خداوند!‘ یاد آیا۔ گزشتہ شب ہی کسی سائنسی رسالے میں ڈارون کے نظریہِ ارتقا کے اثبات میں ایک جامع مضمون پڑھ کر، سیلِ نیند میں بہنے سے قبل، خود سپردگی کے آخری لمحات میں بوجھل ہوتی آنکھوں کے ساتھ میری زبان پر آخری الفاظ یہ تھے کہ اے خالقِ ازل، جانے تو سچا کہ ڈارون۔ اور میری تشکیک نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا۔ خالقِ دو عالم نے تمام شکوک و شبہات کے ازالے واسطے، اس زمانے کے دو انسان میرے کمرے میں پہنچا ڈالے تھے جب فرشِ زمین اور لمسِ انسانی میں آشنائی کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے۔
میری زبان سے با آوازِ بلند ’سبحان، تیری قدرت‘ کے الفاظ نکلنے ہی والے تھے کہ اس خیال نے زبان کی طناب کھینچ ڈالی، کہ مبادا یہ دو اشخاص اردو سے ناواقف ہوں، اور میرے یوں بولنے کو خود پر حملہ قرار دے ڈالیں۔ اگرچہ ان کے قرب و جوار میں پتھر کی بنی چھریاں نظر نہ آتی تھیں، مگر ہو سکتا تھا کہ وہ ان کے ان مختصر جاموں میں چھپی ہوں کہ کہ ان کے جسم پر اوڑھے جانے والی واحد شے تھی۔
دونوں آڑھے ترچھے ہو کر، چارپائیوں سے نیچے کارپٹ پر پڑے تھے۔ دونوں کے منہ دوسری اطراف تھے اور ’بیک ویو‘ خاصا گوشت بھرا اور فحش تھا۔یہاں پر ’مسئلہ‘ کھڑا ہو سکتا تھا۔ جو چار گرہ لباس ان کے تن پر تھا وہ غالباً مخصوص پتوں کا بنا تھا۔ اک لباس کا رنگ گہرا سبزکہ جس میں مٹیالے رنگ کی آمیزش بھی معلوم پڑتی تھی۔ اور دوجا لباس گلابی رنگ کا تھا۔گلابی رنگ کا؟۔۔اس کی تطبیق دلِ ناداں نے یوں کی کہ شاید اُس زمانہِ ڈائنو ساریہ میں اِس رنگت کے پتے بھی پائے جاتے ہوں، جو پہننے میں اتنے لطیف ہوں کہ قدیم انسانوں نے پہن پہن کر ان کی نسل ہی معدوم کر دی ہو۔ واللہ اعلم بالصواب۔ ویسے اس خیال نے ذرا سا غصہ بھی طاری کر دیا تھا۔ سوچا تھا کہ ان سے پوچھوں گا کہ بھئی ایسی بھی کیا فضول خرچی۔ اپنی آنے والی نسلوں واسطے بھی چند پتے بچا کر رکھے ہوتے!
گرمی کے اس موسم میں یہ عجیب خیالات دماغ میں ایک عجیب سی خنکی کا باعث بن رہے تھے۔ ایک خیال یہ بھی بار بار آرہا تھا کہ میرے دو روم میٹس آ گئے توخدا جانے انھیں کیا کہہ کر چپ کراؤں گا؟ بات باہر نکل گئی تو وارڈن صاحب کو کیا تو جیہہ پیش کی جائے گی۔ میڈیا والے پہنچنا شروع ہوگئے تو ان سے کس طرح مخاطب ہوں گا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ان دو نے کراماً کاتبین کے فرائض انجام دیتے ہوئے یہیں رہنا شروع کر دیا تو ان کے کپڑوں لتوں اور کھانے پینے کا انتظام کس کے سر ہوگا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وسوسہ دماغ میں نمودار ہو رہا تھا۔ اس خنکی نے بڑھتے بڑھتے ایک مختصر طوفان کا روپ دھار لیا، جس نے بصورتِ چھینک ہی میرے ناک سے نکل کر دم لیا۔
کیا ہوا حافظ؟‘ ایک جانگلی نے بغیر مڑے استفسار کیا۔ اس کا لہجہ کچھ آشنا سا لگا مجھے۔
کوئی جواب دیے بغیر بوٹ سمیت پنجوں کے بل چلتا(ٹُو خراب ہوتی ہے تو ہوا کرے) فرنٹ ویو پر آکر دیکھا تویکایک تمام وسوسے دورانِ زچگی پیچیدگی سے مارے گئے۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی؟ یہ ناہنجار تو وہی پتے تھے جو ہمیشہ برے وقت پر ہوا دینے لگتے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو علی الصبح میرے ٹوتھ برش سے اپنے دانت چمکا کر جاتے تھے۔ یہی لوگ میرا صابن روزانہ منہ دھونے کو بے دریغ استعمال کرتے تھے، حالاں کہ بخوبی جانتے تھے کہ ان سے ذرا پہلے نہاتے ہوئے میں نے یہ صابن آخری بار کس جگہ استعمال کیا ہو گا۔
یہ دونوں اپنے روم میٹس تھے!
کوئی جواب دیے بغیر بوٹ سمیت پنجوں کے بل چلتا(ٹُو خراب ہوتی ہے تو ہوا کرے) فرنٹ ویو پر آکر دیکھا تویکایک تمام وسوسے دورانِ زچگی پیچیدگی سے مارے گئے۔ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی؟ یہ ناہنجار تو وہی پتے تھے جو ہمیشہ برے وقت پر ہوا دینے لگتے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جو علی الصبح میرے ٹوتھ برش سے اپنے دانت چمکا کر جاتے تھے۔ یہی لوگ میرا صابن روزانہ منہ دھونے کو بے دریغ استعمال کرتے تھے، حالاں کہ بخوبی جانتے تھے کہ ان سے ذرا پہلے نہاتے ہوئے میں نے یہ صابن آخری بار کس جگہ استعمال کیا ہو گا۔
یہ دونوں اپنے روم میٹس تھے!
‘ارے تمہیں کیا ہوا؟’
‘کیا ہوا؟’ احسان صاحب نے فرطِ طرب سے الٹے لیٹے اپنی دونوں ٹانگیں عقب میں اٹھا ئے ہوا میں ہولے ہولے ہلاتے پوچھا۔
‘کیا ہوا؟’ احسان صاحب نے فرطِ طرب سے الٹے لیٹے اپنی دونوں ٹانگیں عقب میں اٹھا ئے ہوا میں ہولے ہولے ہلاتے پوچھا۔
‘کک۔ کچھ نہیں۔۔۔ م۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لگا۔۔ مجھے لگا۔۔’
‘لگتا ہے حافظ کی منجی ٹھُک گئی ہے!’ احسان صاحب کی جگت پر مجیب بھائی نے بھی اپنی لاتیں بلند کرکے ان سے ٹکرائیں اور ایک بلند قہقہہ رسید کیا جس سے نکلنے والی آواز ایسی تھی جیسے کوئی شخص صبح منہ اندھیرے، جب کہ مینڈک بھی ساری رات ٹرا ٹرا کر چپ کر گئے ہوتے ہیں، خاموشی سی خاموشی میں بڑے خشوع و خضوع سے حلق کے بل پر غرارے کر رہا ہو۔
‘لگتا ہے حافظ کی منجی ٹھُک گئی ہے!’ احسان صاحب کی جگت پر مجیب بھائی نے بھی اپنی لاتیں بلند کرکے ان سے ٹکرائیں اور ایک بلند قہقہہ رسید کیا جس سے نکلنے والی آواز ایسی تھی جیسے کوئی شخص صبح منہ اندھیرے، جب کہ مینڈک بھی ساری رات ٹرا ٹرا کر چپ کر گئے ہوتے ہیں، خاموشی سی خاموشی میں بڑے خشوع و خضوع سے حلق کے بل پر غرارے کر رہا ہو۔
اس کی جگت کے خلاف مزاح سے کام لینا چاہیے!
‘مجھے لگا۔۔ جیسے میں کسی بیچ(BEACH) پرپہنچ گیا ہوں۔۔۔ جہاں نوعمر چھوکریاں بکنی پہنے الٹ ہو کر لیٹی ہوئی ہوں۔۔ اور دھوپ کی تمازت انگ انگ میں بسانے کو انہوں نے اوپری حصہ بھی کھول رکھا ہو۔۔۔ مگر۔۔’دیکھ مجیب یار۔ حافظ کے کام!’ اور دوبارہ مجیب کا ’غراروی‘ قہقہہ گونجنے لگا۔
‘مگر۔۔‘ میں نے ان کی سیاہ رنگت کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا۔’مگر وہ بیچ کسی افریقی ملک غالباً تنزانیہ کی تھی!’
‘مجھے لگا۔۔ جیسے میں کسی بیچ(BEACH) پرپہنچ گیا ہوں۔۔۔ جہاں نوعمر چھوکریاں بکنی پہنے الٹ ہو کر لیٹی ہوئی ہوں۔۔ اور دھوپ کی تمازت انگ انگ میں بسانے کو انہوں نے اوپری حصہ بھی کھول رکھا ہو۔۔۔ مگر۔۔’دیکھ مجیب یار۔ حافظ کے کام!’ اور دوبارہ مجیب کا ’غراروی‘ قہقہہ گونجنے لگا۔
‘مگر۔۔‘ میں نے ان کی سیاہ رنگت کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے کہا۔’مگر وہ بیچ کسی افریقی ملک غالباً تنزانیہ کی تھی!’
مجیب اور احسان دونوں کے چہرے سوالیہ نشان کی مانند ہو گئے۔۔۔ چند سیکنڈ یوں خاموش رہے جیسے نو گیارہ کی یاد میں چند خاموش پل گزار رہے ہوں پھر یک دم ہنسنے لگے۔ میں ان کے چہرے کے تاثرات بغور دیکھ رہا تھا۔ہنستے ہنستے بولے
‘اس کا مطلب کیا تھا؟’ احسان بولا
‘جب تو جگت مارا کرے تو بتا دیا کر ہنسنا کہاں ہے۔۔۔۔ احسان یار۔ ذرا گدگدی تو کر، مجھے ہنسی نہیں آرہی!’ اور ان دونوں نے دوبارہ ہنسنا شروع کر دیا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔جب کبھی میں ان پر ادبی طرز کا طنز کرتا، یہی معاملہ پیش آتا۔ انہیں سمجھ ہی خاک لگتی تھی اور میں دل کو کہتا:
‘چپ شہزادے۔ ان بے ادب لوگوں کو کیا علم، علم کا! تیری یہ جگتیں اعلیٰ لوگوں کے واسطے ہیں۔’
سو اب بھی میں نے دل کو یہی کہہ کر چپ کروایا اور اس عظیم طنز کو کھول کھول کر ان بے علم، عقل کے کورے، جاہل المطلق لوگوں کو سمجھانے لگا کہ دروازے سے داخل ہو کر تم لوگوں کو یوں تین چوتھائی سے زیادہ برہنہ دیکھ کر میں نے خود کو کسی بِیچ (BEACH) پر پایا! اور یہ کہہ کر کہ وہ بیچ تنزانیہ کی تھی میں تمہارے اس ’بگے بگے دھوں‘ رنگ پر چوٹ کرنا چاہ رہا تھا۔
اس جگت کا کیا مزا جسے سمجھانا پڑھے۔ چَس کھو دیتا ہے جگت کا تفصیل سے سنانا!
اور میں نے ساتھ ہی خدا کا شکر ادا کیا کہ میں نے انہیں اپنے اصلی ڈارون اور تشکیک والے خیالات سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ وگرنہ ان کی تشریح کام تھا قریباً نصف گھنٹے کا۔
‘یارو! خوفِ خدا کرو۔ قیامت کی نشانیاں اک اک کرکے پوری ہوتی جارہی ہیں اور تم لوگ برہنگی کی طرف مائل ہوئے جا رہے ہو’
‘او بھائی میرے، باہر گرمی دیکھی ہے! ہم سے نہیں برداشت ہوتے کپڑے۔’ احسان بولا۔
‘اور یہ کچھا بھی ہم نے تیری وجہ سے پہنا ہے کہ بھئی تو حافظِ قراٰن ہے، تیرا ایمان نہ خراب ہو۔۔‘ اور مجیب کی اس بات پر دونوں نے دوبارہ لاتیں ٹکرائیں!
‘او بھائی میرے، باہر گرمی دیکھی ہے! ہم سے نہیں برداشت ہوتے کپڑے۔’ احسان بولا۔
‘اور یہ کچھا بھی ہم نے تیری وجہ سے پہنا ہے کہ بھئی تو حافظِ قراٰن ہے، تیرا ایمان نہ خراب ہو۔۔‘ اور مجیب کی اس بات پر دونوں نے دوبارہ لاتیں ٹکرائیں!
اس دن کے بعد تو یہ ان دونوں کا معمول ہی بن گیا تھا۔ غضِ بصر مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا، کہ ان کی عادت نہ صرف یہ برہنگی تھی بلکہ اس طرز پر الٹا لیٹنا بھی تھا کہ ایک نگاہِ غلط ا نداز بھی سارے ’سپیئر پارٹس‘ تاڑ لے! میں نہایت سنجیدگی سے سوچ رہا تھا کہ چمڑے کے وہ ٹکڑے اپنی آنکھوں کے گرد لگواؤں جیسے کوچوان حضرات گھوڑے کو لگواتے ہیں اور جس کی بہ دولت وہ ہمیشہ صراطِ مستقیم کی طرف دیکھتا ہے اور ارد گرد کے لبھاتے لہو لعب کی جانب اس کی نگاہ ہی نہیں جاتی!
ایک دن دروازہ پر دستک ہوئی!
‘کون؟ اندر آجاؤ!’ سہگل کی آواز میں چلتے ’دنیا میں پیار جب برسے۔۔ نہ جانے دل یہ کیوں ترسے‘ سنتے سنتے میں نے آواز لگائی۔
‘کون؟ اندر آجاؤ!’ سہگل کی آواز میں چلتے ’دنیا میں پیار جب برسے۔۔ نہ جانے دل یہ کیوں ترسے‘ سنتے سنتے میں نے آواز لگائی۔
اندر ایک متشرع حضرت جو کہ اسی ہاسٹل کے مقیم تھے، اور ایک مذ ہبی اصلاحی جماعت سے منسلک تھے،داخل ہوتے دکھائی دیے۔ بدحواسی میں جو بٹن دبا کر گانا بند کرنے کی کوشش کی تو اگلا گانا ’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے، ہوا بھی ہے مستانی سی‘ مہدی حسن صاحب گانا شروع ہو گئے۔۔ اور میں نے یکایک لیپ ٹاپ کو بریف کیس کی مانند کھٹکے سے بند کیاتب ہی مہدی صاحب کا ہندوانہ گلا(جس گلے میں بھگوان بولے وہ ہندوانہ ہی ہوا ناں!)بند ہوا۔
‘آئیے، آئیے‘ میں نے انہیں کہا۔’تشریف رکھیے۔’ اور وہ بیٹھ گئے۔
‘آئیے، آئیے‘ میں نے انہیں کہا۔’تشریف رکھیے۔’ اور وہ بیٹھ گئے۔
‘بھائی میں مسجد کی نسبت سے آیا ہوں۔۔ آپ نصیحت پذیری کی نیت سے چند باتیں سن لیں۔’
اتنے میں اٹیچڈ باتھ روم سے احسان اور مجیب کے’ڈوئٹ‘ نہاتے ہوئے سیٹیاں بجانے کی آوازیں آنا شروع ہوئی۔سونے پر سہاگہ یہ کہ میری طرح وہ کلاسیکل نہیں، پاپ میوزک کے دلدادہ تھے۔ اور سیٹی کی د ھن ا س مشہور گانے پر تھی جس کی ہیروئن کے بقول وہ سوئمنگ پول میں نہا کر مزید نمکین ہو جاتی ہے!
‘ہم سب مسلمان ہیں۔ اور ایک مسلمان ہونے کے ناتے۔۔۔’
خیر مولانا کو کیا پتا ہوگا۔ یہ تو یہی سمجھ رے ہوں گے کہ ہمسائے کمرے کی آوازیں ہیں۔
‘ہمارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’
خیر مولانا کو کیا پتا ہوگا۔ یہ تو یہی سمجھ رے ہوں گے کہ ہمسائے کمرے کی آوازیں ہیں۔
‘ہمارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’
کنڈی کھلنے کی آواز آئی اور احسان صاحب نہانے کے بعد مجیب بھائی کو داغِ مفارقت دیتے ہوئے صرف ایک چڈی میں ملبوس سیٹی بجاتے ہوئے باہر نکلے۔
‘کہ ہم سب مسلمان اپنے اپنے حلقے میں۔۔۔’
مولانا کی داڑھیی کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے بواسیر زدہ ہونٹوں سے برآمد ہونے والی سیٹی تو’میوٹ‘پر چلی گئی مگر ایسا لباسِ فطرت بھلا کوئی قابلِ اعتراض شے تھا؟ سو تولیے کو کھونٹی پر ڈال سامنے چارپائی پر ’تشریف‘ رکھ کر بیٹھ گئے۔اور خود کو تبلیغ سے بہرہ ور فرمانے لگے۔
‘ان لوگوں پر جن سے ہمارا۔۔ ملناااااااا۔۔۔ جلناااااا۔۔۔’
مولانا نے احسان صاحب کو دیکھا تھا اور ان کا ’ملنا جلنا‘ خلافِ معمول لمبا ہوگیا۔
میں نے ان کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا۔
‘احسان بھائی کچھ پہن لیجیے۔’ وہ اپنی مونچچھوں کو مروڑنے میں مصروف تھے۔۔۔
‘پہنا ہوا تو ہے۔۔’ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا!
‘یار کوئی پینٹ شینٹ ڈال لو!’
‘وہ۔۔۔ پینٹ اندر ہے اور اندر مجیب نہا رہا ہے!’
میں نے ان کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا۔
‘احسان بھائی کچھ پہن لیجیے۔’ وہ اپنی مونچچھوں کو مروڑنے میں مصروف تھے۔۔۔
‘پہنا ہوا تو ہے۔۔’ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا!
‘یار کوئی پینٹ شینٹ ڈال لو!’
‘وہ۔۔۔ پینٹ اندر ہے اور اندر مجیب نہا رہا ہے!’
مولانا کا سر نیچے تھا اور ان کی زبان برابر ہل رہی تھی۔اغلباً لاحول ولا کی تسبیح جاری تھی۔
میں جانتا تھا کہ مجیب اندر ہے کیوں کہ ’بھیگے ہونٹ تیرے۔۔‘ پر برابر سیٹی بجی جارہی تھی۔اب میں مولانا کے روبرو اسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ تم بھی تو اکٹھے ہی نہا رہے تھے۔اب کیسا پردہ۔ جاؤ پینٹ پہن لو!
اس سے قبل کو صورت حال کو سنبھالنے کی کوئی اور کوشش کرتا مولانا ایک جھٹکے سے اٹھے اور ایک جست میں کارپٹ پار کرتے کمرے سے باہر تشریف لے گئے۔
میں جانتا تھا کہ مجیب اندر ہے کیوں کہ ’بھیگے ہونٹ تیرے۔۔‘ پر برابر سیٹی بجی جارہی تھی۔اب میں مولانا کے روبرو اسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ تم بھی تو اکٹھے ہی نہا رہے تھے۔اب کیسا پردہ۔ جاؤ پینٹ پہن لو!
اس سے قبل کو صورت حال کو سنبھالنے کی کوئی اور کوشش کرتا مولانا ایک جھٹکے سے اٹھے اور ایک جست میں کارپٹ پار کرتے کمرے سے باہر تشریف لے گئے۔
‘دروازہ بند کرتے جائیے!’ احسان پکارا مگر مولانا وہاں سے جا چکے تھے۔
احسان دروازہ بند کرکے پلٹا تو پیچھے میں کھڑا تھا۔وہ گھبرا گیا۔
‘حافظ! نیت تو ٹھیک ہے؟ میں ایسا ویسا بندہ نہیں ہوں۔’
’یار کچھ شرم ہوتی ہے۔ وہ کیا سوچے گا۔۔‘
‘کیا سوچے گا؟ ہمارے بزرگوں نے جا جا کر کیسے کیسے لوگوں کو تبلیغ نہیں کی؟ اس دن تُو خود بتا رہا تھا کہ کسی مغربی ملک میں نائٹ بار میں برہنہ ڈانس کرنے والی کو بھی تمہارے مولانا صاحب وغیرہ تبلیغ کرنے گئے تھے۔۔ میں نے تو پھر بھی ’بہت کچھ‘ پہن رکھا تھا!’
اس دلیل کے بعد میں جواب لیس تھا۔اندر سے سیٹی کی آواز بدستور آرہی تھی اگرچہ گانا تبدیل ہو کے ‘چھوا چھوا۔۔۔ چھوا چھوا چھوا۔۔۔’ ہو گیا تھا۔
احسان دروازہ بند کرکے پلٹا تو پیچھے میں کھڑا تھا۔وہ گھبرا گیا۔
‘حافظ! نیت تو ٹھیک ہے؟ میں ایسا ویسا بندہ نہیں ہوں۔’
’یار کچھ شرم ہوتی ہے۔ وہ کیا سوچے گا۔۔‘
‘کیا سوچے گا؟ ہمارے بزرگوں نے جا جا کر کیسے کیسے لوگوں کو تبلیغ نہیں کی؟ اس دن تُو خود بتا رہا تھا کہ کسی مغربی ملک میں نائٹ بار میں برہنہ ڈانس کرنے والی کو بھی تمہارے مولانا صاحب وغیرہ تبلیغ کرنے گئے تھے۔۔ میں نے تو پھر بھی ’بہت کچھ‘ پہن رکھا تھا!’
اس دلیل کے بعد میں جواب لیس تھا۔اندر سے سیٹی کی آواز بدستور آرہی تھی اگرچہ گانا تبدیل ہو کے ‘چھوا چھوا۔۔۔ چھوا چھوا چھوا۔۔۔’ ہو گیا تھا۔
یہ حالات یوں ہی چل رہے تھے۔ ایک دفعہ مجھے گھر جا نا پڑا۔ تین دن کے بعد واپس آیا تو ہاسٹل کے گیٹ پر مجھے ہاتھ میں ریکٹ لے جاتے علی نے کہا
‘اوئے، تیرے روم میٹس پکڑے گئے ہیں۔’
اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا وہ اپنی دھن میں چلتا بنا۔
میں نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ دو لڑکے اتر رہے تھے ان میں سے ایک دوسرے کو سرگوشی میں کہنے لگا یہ ’ان‘ کا تیسرا روم میٹ ہے۔ اس نے تو سرگوشی کی تھی مگر میں نے سن لیا۔
‘غضب خدا کا۔ انہوں نے ایساکیا کر ڈالا کہ ہاسٹل بھر میں مشہور ہو گئے؟’ مجھے تعجب ہوا۔
میں نے کمرہ نمبر 214 کے دروازے پر دستک دی۔
‘احسان! دروازہ کھولو۔ میں ہوں فواد۔’ میں نے کہا۔
دروازہ کھلا ہے۔ اندر سے آواز آئی۔
میں نے دھکا دیا دروازہ کھل گیا۔
‘اوئے، تیرے روم میٹس پکڑے گئے ہیں۔’
اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا وہ اپنی دھن میں چلتا بنا۔
میں نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ دو لڑکے اتر رہے تھے ان میں سے ایک دوسرے کو سرگوشی میں کہنے لگا یہ ’ان‘ کا تیسرا روم میٹ ہے۔ اس نے تو سرگوشی کی تھی مگر میں نے سن لیا۔
‘غضب خدا کا۔ انہوں نے ایساکیا کر ڈالا کہ ہاسٹل بھر میں مشہور ہو گئے؟’ مجھے تعجب ہوا۔
میں نے کمرہ نمبر 214 کے دروازے پر دستک دی۔
‘احسان! دروازہ کھولو۔ میں ہوں فواد۔’ میں نے کہا۔
دروازہ کھلا ہے۔ اندر سے آواز آئی۔
میں نے دھکا دیا دروازہ کھل گیا۔
اندر دونوں صاحبان اس گرمی کی دوپہر میں سٹریچڈ جینز اور اس کے اوپر ڈریس شرٹ پہنے ہاتھ سے ہمت فین جھل رہے تھے۔ دونو ں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔
واپسی پر پوچھتا ہوں۔ ہاتھ میں کپڑے لیے باتھ روم میں گھستے میں نے سوچا۔
پسینے سے بھرپور کپڑے اتار، شاور لے شارٹس پہن، ٹی شرٹ میں گھس کر میں باہر نکلا تو وہ اسی حالت میں پڑے تھے، بس ہمت فین دوسرے ہاتھ میں آ گیا تھا۔
‘تمہارے ساتھ بالجبر ہو گیا ہے کیا؟۔۔۔ کسی نے زیادتی کی ہے تم لوگوں کے ساتھ؟’
واپسی پر پوچھتا ہوں۔ ہاتھ میں کپڑے لیے باتھ روم میں گھستے میں نے سوچا۔
پسینے سے بھرپور کپڑے اتار، شاور لے شارٹس پہن، ٹی شرٹ میں گھس کر میں باہر نکلا تو وہ اسی حالت میں پڑے تھے، بس ہمت فین دوسرے ہاتھ میں آ گیا تھا۔
‘تمہارے ساتھ بالجبر ہو گیا ہے کیا؟۔۔۔ کسی نے زیادتی کی ہے تم لوگوں کے ساتھ؟’
جواب میں مجیب کے چہرے پر اک غصے کی کیفیت دیکھنے کو ملی اور احسان نے ایک آہ بھری، ٹھنڈی آہ۔
‘میں آگیا ہوں۔ اس خوشی میں دکھی ہو؟’ میں نے چھیڑا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
‘ہوا کیا ہے؟‘ میں نے احسان کی چارپائی پر بیٹھ کر بے تکلفی سے اس کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔ مگر وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
‘میں آگیا ہوں۔ اس خوشی میں دکھی ہو؟’ میں نے چھیڑا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
‘ہوا کیا ہے؟‘ میں نے احسان کی چارپائی پر بیٹھ کر بے تکلفی سے اس کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے پوچھا۔ مگر وہ تڑپ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
‘اٹھ کر اپنی چارپائی پر بیٹھ حافظ۔ پہلے ہم یہاں بدنام ہوئے پڑے ہیں۔’ احسان نے کہا۔
میں اٹھ کر اپنی چارپائی پر آگیا۔
میں اٹھ کر اپنی چارپائی پر آگیا۔
احسان اپنا کتھارسس کرنے لگا۔اس کا کتھارسس کا طریقہ ِواردات یہ تھا کہ پہلے وہ اپنے مرکزی شکار کو گالی دیتا، پھر گالی کا دائرہ وسیع کرتے کرتے وزیرِ اعلیٰ، پھر وزیرِ اعظم اور پھرساری کائنات تک وسیع کر تا جاتا۔
اس نے اول اول ہاسٹل وارڈن کو گالی بکی، پھر وائس چانسلر کو پھر تمام یونی ورسٹیوں کو، پھر اس ملک کو کہ جہاں ایسی یونی ورسٹیاں ہیں، پھر ایشیاء کو اور پھر پوری دنیا کو۔۔ اس سے پہلے کہ اس کی گالیاں زمان و مکان پر محیط ہونے لگتیں، میں نے پوچھ ڈالا کہ ہوا کیا ہے؟
اس نے اول اول ہاسٹل وارڈن کو گالی بکی، پھر وائس چانسلر کو پھر تمام یونی ورسٹیوں کو، پھر اس ملک کو کہ جہاں ایسی یونی ورسٹیاں ہیں، پھر ایشیاء کو اور پھر پوری دنیا کو۔۔ اس سے پہلے کہ اس کی گالیاں زمان و مکان پر محیط ہونے لگتیں، میں نے پوچھ ڈالا کہ ہوا کیا ہے؟
‘ہوا کیا ہے۔۔۔ اس (موٹی گالی) نے رات کو دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔’
‘کس نے۔۔’
‘وارڈن نے۔۔ جیسے کبھی کبھی وہ چیک کرتا ہے۔ میں نے گانے چلائے ہوئے تھے۔ میں نے دروازہ کھولا۔ وہ اندر آیا۔ اندر ہم دونوں نے چڈیاں پہنی ہوئی تھیں۔ اس نے تو ہمیں پکڑ لیا۔ الٹی الٹی باتیں کرنے لگا۔ غلط الزام لگانے لگ گیا۔۔۔ کہتا تھا تم غلط لوگ ہو۔ گانے چلا کر غلط کام کرتے رہتے ہو۔ پھر ساتھ میں ایل اینڈ ایم سگریٹ کی ڈبی نظر آگئی اسے۔ بس ’چھِتا‘نہیں ہو گیا وہ۔ اب کل سینئر وارڈن آفس پیشی ہے ہماری۔’
‘کس نے۔۔’
‘وارڈن نے۔۔ جیسے کبھی کبھی وہ چیک کرتا ہے۔ میں نے گانے چلائے ہوئے تھے۔ میں نے دروازہ کھولا۔ وہ اندر آیا۔ اندر ہم دونوں نے چڈیاں پہنی ہوئی تھیں۔ اس نے تو ہمیں پکڑ لیا۔ الٹی الٹی باتیں کرنے لگا۔ غلط الزام لگانے لگ گیا۔۔۔ کہتا تھا تم غلط لوگ ہو۔ گانے چلا کر غلط کام کرتے رہتے ہو۔ پھر ساتھ میں ایل اینڈ ایم سگریٹ کی ڈبی نظر آگئی اسے۔ بس ’چھِتا‘نہیں ہو گیا وہ۔ اب کل سینئر وارڈن آفس پیشی ہے ہماری۔’
اس نے داستانِ رنج، ظلم و الم سناتے ہوئے کہا۔ مجیب چپ تھا مگر اس کے چہرے پر وہ نقوش طاری تھے جیسے ملتانیوں کے چہرے پر جب انہوں نے سکندر مقدونی کو ایسا تیر مارا تھا جس کے باعث اسے موت نصیب ہوئی!
‘میں کچھ کرتا ہوں۔’۔ میں نے کہا۔’تم فکر نہ کرو۔’
اگلے دن بڑی مشکلات سے پانچ ہزار جرمانے پر وہ لوگ ٹھنڈے ہوئے وگرنہ سپیشل فورس میں شامل احسان کے والد صاحب کو ہمارے سامنے ہی سینئر وارڈن صاحب فون کرنے لگے تھے۔
اس دن شام کو میں نے انہیں رانی بازار سے دو شارٹس خرید کر دیئے! اب ہم تینوں شارٹس پہن کر کمرے میں رہتے ہیں اور احسان نے روم کے دروازے پر خوش خط لکھ دیا ہے:
دینی جماعتیں۔، خوش آمدید!
‘میں کچھ کرتا ہوں۔’۔ میں نے کہا۔’تم فکر نہ کرو۔’
اگلے دن بڑی مشکلات سے پانچ ہزار جرمانے پر وہ لوگ ٹھنڈے ہوئے وگرنہ سپیشل فورس میں شامل احسان کے والد صاحب کو ہمارے سامنے ہی سینئر وارڈن صاحب فون کرنے لگے تھے۔
اس دن شام کو میں نے انہیں رانی بازار سے دو شارٹس خرید کر دیئے! اب ہم تینوں شارٹس پہن کر کمرے میں رہتے ہیں اور احسان نے روم کے دروازے پر خوش خط لکھ دیا ہے:
دینی جماعتیں۔، خوش آمدید!