ارون آرتھر
۹ مارچ ۲۰۱۳ء کو لاہور میں واقع مسیحی برادری کی بستی جوزف کالونی، بادامی باغ کو توہینِ رسالت کے ایک مبینہ ملزم کی بستی ہونے کی پاداش میں مذہبی شدت پسند ہجوم نے آگ لگا کر راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ علاقہ کے مکینوں کے گھر، مقدسات، اور گھریلو املاک سمیت بھاری قیمت کے سامان کے مکمل طور پر خاکستر ہونے کے بعد آگ بجھانے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے۔مبینہ ملزم کو حراست میں لے لیا گیا اورحکومت اور خیراتی اداروں کی مدد سے بحالی اور تعمیر نو کے وعدے کیے گئے۔ تعمیرات کا کام ایک حد تک مکمل ہو چکا ہے تاہم مقامی بااثر افراد کی طرف سے انتخابات کے بعد ایسی کارروائیوں کے دوہرائے جانے کی دھمکیاں اب بھی جوزف کالونی کے مکینوں کو دی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں قریبی آبادیوں کے بااثر لوگوں کی طرف سے یہاں کے باسیوں پر تشدد اور دھمکیوں کے واقعات نے علاقہ میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور یہاں کی مسیحی برادری کے عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔
اہلِ علاقہ کے مطابق صوبائی حکمران جماعت کا حمایت یافتہ ایک بااثر شخص غزالی بٹ جو کہ جوزف کالونی کی جگہ پر ایک فیکٹری بنانے کا ارادہ رکھتا تھا، گزشتہ دو ماہ سے اہلِ علاقہ کو بستی خالی کر دینے کے لیے دھمکا رہا تھا۔ سانحے سے دو دن قبل غزالی بٹ نامی اس بااثر شخصیت کے دفتر میں تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی اور علاقہ کے مولویوں کو بلوا کر ان سے مشاورت کی گئی۔ منصوبہ کے مطابق نمازِ جمعہ کے خطبہ میں عوام کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر نماز کے فوراً بعد مشتعل ہجوم کی ہمراہی میں بستی کو نذرِ آتش کیا جانا تھا۔ جمعے ہی کے دن جوزف کالونی کے باسیوں کو پولیس کے کچھ اہلکاروں نے مطلع کیا کہ بستی پر حملہ ہونے والا ہے، لہٰذا اپنی جانیں بچانے کے لیے جلد از جلد بستی کو خالی کر دیں۔اسی وقت یہاں کے باسیوں نے بستی سے نکلنا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر میں علاقہ خالی کر دیا گیا۔ یہ علاقہ جمعہ کی دوپہر سے لے کر ہفتے کے روز تک خالی پڑا رہا۔ہفتے کو لگ بھگ تین ہزار لوگوں پر مشتمل ہجوم بستی پر حملہ آور ہوا اور پہلے مرحلے میں گھروں سے زیورات، اور چھوٹی قیمتی اشیاء لوٹی گئیں، بعد ازاں بھاری بھرکم اشیاء پر کیمیکل چھڑک کر آگ لگا دی گئی۔ کیمیکل جلنے کی حرارت سے گھروں کے دھاتی سامان اور چھتوں کے شہتیر تک پگھل گئے۔ پولیس، جسے ممکنہ حملے کا پہلے سے علم تھا، کے سیکڑوں اہلکار موقع پر موجود تھے۔ پولیس اہلکار وقوعہ پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ واقعہ میں ایک سو اٹھہتر گھر اور دو چرچ نذرِ آتش ہوئے اور ایک خاتون سمیت دو افراد جل کر ہلاک ہوئے۔
اتوار کے روز وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف متاثرہ بستی کا دورہ کرنے آئے لیکن میڈیا پر بیان دینے کے بعد بستی میں داخل ہو کر متاثرین کی حالتِ زار دیکھے بغیر ہی چلے گئے، جس کی وجہ سے پنجاب حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی شروع ہو گئی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے پوری بستی کے متاثرین کے لیے دو شامیانے لگائے جن کے نیچے زیادہ سے زیادہ پچاس کے قریب لوگ کھڑے ہو سکتے تھے۔ حکومت کی طرف سے متاثرین کی طرف سے ایک وقت کا کھانا بھی بھیجا گیا جسے متاثرین نے لینے سے انکار کر دیا۔متاثرین کی اکثریت کے دیر تک بھوکے رہنے کے بعد اتوار کے دن تک مشنری تنظیموں اور دیگر فلاحی اداروں کی طرف سے کھانے کی شکل میں امداد پہنچنا شروع ہو گئی۔ دو ہفتے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے متاثرین میں پانچ پانچ لاکھ کے چیک تقسیم کیے گئے، جن میں سے بیشتر چیک باؤنس ہو گئے۔بعدازاں میڈیا پر تنقید کا نشانہ بننے کے بعد ان میں سے چند چیکس کے ریکارڈ کی درستی کی گئی۔
توہین کے مبینہ ملزم کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن جوزف فرانسس کی کوششوں سے گرفتار کر لیا گیا۔ جوزف فرانسس کے مطابق اس نے ساون مسیح کی گرفتاری میں مدد اس لیے کی کہ یہ جوزف کالونی کی باقی ماندہ آبادی کی سلامتی کے لیے مفید اور مصلت پسندانہ عمل تھا، جبکہ مسیحی آبادی میں ساون مسیح کی گرفتاری میں جوزف فرانسس کی معاونت کو ایک ناپسندیدہ قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ساون مسیح کی بہن بشریٰ کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی کسی قسم کی گستاخی کا مرتکب نہیں ہوا بلکہ اسے ایک ذاتی چپقلش میں انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ساون مسیح کا والد جو کہ وقوعہ کے دن دل کا دورہ پڑنے کے کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا، دل کے دورے کے بعد فالج میں مبتلا ہو گیا تھا، دوہری مصیبت میں گرفتار ہے کہ اپنے علاج کے قابل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے بیٹے کی خیریت کا کوئی علم نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس سے اس کی کوئی ملاقات ممکن ہو پائی ہے۔ساون مسیح کی بہن کے بقول اس کی ماں کی حالت قدرے بہتر ہے جبکہ اس کا باپ ابھی تک موت و حیات کی کشمکش میں ہے، دوسری طرف ان کو آئے روز ملنے والی دھمکیوں کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ پولیس سمیت دیگر سیاسی اداروں کا رویہ بھی نہایت امتیازی ہے۔
جوزف کالونی میں تعمیر نو کا بیشتر کام مکمل ہو چکا ہے۔ علاقہ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے تعمیر نو کے وعدوں کے بعد صرف ان افراد کے گھر سرکاری خرچ پر تعمیر ہوئے ہیں جو اپنے رسوخ کے ذریعے اداروں سے امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے تھے۔ زیادہ تر افراد نے اپنے ذاتی اخراجات سے اپنے گھر تعمیر کیے ہیں۔ سرکاری طور پر کیے گئے تعمیر نو کے کاموں میں صرف گھر کے باہری حصوں کی معمولی مرمت کی گئی جبکہ اندرونی حصے پر محض سفیدی کر کے جلنے کے آثار چھپائے گئے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تعمیر نو کا ٹھیکہ لینے والے ٹھیکیدار کا رویہ مقامی باسیوں کے ساتھ نہایت شرمناک اور ہتک آمیز رہا۔ دیگر اداروں کی طرف سے روزمرہ تعاون میں کمی ہوئی ہے۔۴ مئی کے دن یہاں آنے والی پولیو ٹیم نے یہاں کے باسیوں اور بچوں کے ساتھ امتیازی رویے کا مظاہرہ کیا، جس پر مقامی خواتین اور پولیو ٹیموں میں جھگڑا ہو گیا، یہاں تک کہ پولیس کو بلوا کر معاملہ رفع کروایا گیا۔ سیوریج اور پانی کی فراہمی اب تک بحال نہیں ہو پائی ہے اور پینے کے پانی کے حوالے سے جوزف کالونی ایک قحط زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہی ہے یہاں تک کہ مقامی باسیوں کو اکثر مقامات پر سیوریج کا گندا پانی پیتے دیکھا گیا ہے۔
بحالی کے کاموں میں سرکاری طور پر اس قدر غفلت اور معاشرتی طور پر امتیازی سلوک کا شکار جوزف کالونی کی آبادی کے سر سے خوف اور عدم تحفظ کے بادل ابھی تک ٹلے نہیں ہیں۔ اس کی تازہ مثال ۳۰ اپریل کو موٹرسائیکل مکینک کا کام کرنے والے کم سن بَنی مسیح پر اغواء اور تشدد کا حالیہ واقعہ ہے۔ جسے کام پر جاتے ہوئے قریبی علاقہ شیخ آباد کے چند افراد نے اغواء کر کے اس پر تشدد کیا اور بعد ازاں اس کے گلے میں رسی ڈال کر اسے گھسیٹ کرجان سے مارنے کے لیے لے جانے لگے۔ تشدد کی وجہ سے بنی مسیح کا بازو ٹوٹ گیا اور اس کی ٹانگوں اور باقی جسم پر شدید چوٹیں آئیں۔ بنی مسیح کے ذریعے علاقہ کے باسیوں تک اس دھمکی آمیز پیغام کا اعادہ کیا گیا کہ جوزف کالونی پر دوبارہ حملہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جوزف کالونی کا رہائشی بابر مسیح کچھ دن قبل اپنی بہن کی شادی کی تیاری کے سلسلے میں شیخ آباد گیا، وہاں چند لڑکے بلوا کر اس پر ڈنڈوں سے شدید تشدد کیا گیا جس سے اس کی ایک ٹانگ اور ایک بازو ٹوٹ گئے۔ جوزف کالونی ہی کے ایک اور کمسن بچے کو اغواء کرنے کے بعد دو دن تک اس پر بلیڈوں کے گھاؤ اور دوسرے طریقوں سے تشدد کیا جاتا رہا۔ دو دن بعد نہایت تشویشناک حالت میں اسے رہا کیا گیا۔تشدد کے ان سب واقعات میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ ان سب کو یہ پیغام دیا جاتا رہا کہ وہ اپنی بستی میں جا کر یہ بتا دیں کہ انتخابات تک وہ سیاسی مجبوریوں کی بنا پر کارروائی نہیں کر پا رہے ہیں، انتخابات کے بعد جوزف کالونی کے باسیوں پر پہلے سے زیادہ عبرتناک سلوک کیا جائے گا۔
ان دھمکی آمیز پیغامات کی وجہ سے علاقہ میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ علاقہ کے باسیوں کے مطابق راتوں کو کسی معمولی سے کھٹکے پر بھی مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگا لیتی ہیں اور لوگ کسی انہونی آفت کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیں۔ جوزف کالونی کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تعمیر نو کے وعدوں کی بجائے انہیں جانی تحفظ فراہم کیا جائے۔ جوزف کالونی پر اس قدر شرمناک سانحہ گزرنے کے بعد بھی سرکاری اداروں کے عدم تعاون کے ساتھ ساتھ عام ہم وطنوں کی طرف سے بھی اس قدر امتیازی رویہ بجا طور پر مذہبی ہم آہنگی کی ختم ہوتی قدروں کے حوالے سے ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔
[nggallery id=9]
(Published in The Laaltain – May 2013)