غلامی کے عالمی اشاریے (Global slavery Index)کے جاری کردہ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان غلامی کی جدوید صورتوں کے اعتبار سے 167ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت بیس لاکھ سے زائد مرد، عورتیں اور بچے جبری مشقت اور غلامی کی مختلف صورتوں کا شکار ہیں جن کی اکثریت پنجاب اور سندھ میں مقیم بے زمین ہاریوں اوربھٹہ مزدوروں پر مشتمل ہے۔ پاکستان نہ صرف اندرون ملک جبری مشقت کے مسئلے کا شکار ہے بلکہ جسم فروشی اور گھریلو کام کاج کے لیے مشرق وسطی اور دیگر ممالک تک انسانی سمگلنگ کے کاروبار کی گزرگاہ بھی ہے۔ اگرچہ پاکستان جبری مشقت اور اس کی تمام صورتوں کے خلاف عالمی معاہدوں، قوانین اور مجالس کا رکن ہے اور آئین پاکستان غلامی اور اس کی تمام صورتوں کے خلاف آئینی تحفظ فراہم کرتا ہے تاہم اس کے باوجود ریاستی اور معاشرتی سطح پر غلامی اور اس کی مختلف صورتوں کے خاتمے کے لیے سیاسی عزم کی کمی تشویش ناک حد تک غیر انسانی رویوں کی مظہرہے۔ دستور پاکستان کی شق نمبر 11، قانون برائے انسداد جبری مشقت1992 اور اس قانون میں کی جانے والی 2002 اور 2010 کی ترامیم اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے غلامی اور جبری مشقت کی تمام صورتوں کوممنوع قرار دیتےہیں تاہم ان قوانین کے اطلاق کے لیے تاحال خاطر خواہ عملی اقدامات نہیں کیے جاسکے۔
پاکستان نہ صرف اندرون ملک جبری مشقت کے مسئلے کا شکار ہے بلکہ جسم فروشی اور گھریلو کام کاج کے لیے مشرق وسطی اور دیگر ممالک تک انسانی سمگلنگ کے کاروبار کی گزرگاہ بھی ہے۔
پاکستان میں جبری مشقت کی موجودگی انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال اور اس سے متعلق ریاستی اور معاشرتی رویے سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات کو ہمیشہ قرض اور امداد دینے والے ممالک کی شرائط اور بیرونی ایجندے کے طورپر دیکھا گیا ہے جس کے باعث انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس کی بہت سی صورتوں کو معمول سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں سے جبری مشقت، جبری جنس کاری، جبری مشقت اور غلامی کی بہت سی صورتوں کو غلط تسلیم کرنے کے باوجودان کے تدارک کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے جاسکے ہیں۔ غلامی کے عالمی اشاریے نے جبری مشقت کے تدارک کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے اقدامات کو ناکافی، سست اور سیاسی ارادے سے عاری قرار دیا ہے۔عالمی اشاریے کے مطابق جبری مشقت اور غلامی کی جدید صورتوں کےمتاثرین کی بحالی، قانونی امداد اور عالمی اداروں سے معاونت کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا ردعمل ناکافی ہے جس کے باعث پاکستان غلامی کی بدترین صورتوں کا شکار ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات کو ہمیشہ قرض اور امداد دینے والے ممالک کی شرائط اور بیرونی ایجنڈے کے طورپر دیکھا گیا ہے جس کے باعث انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس کی بہت سی صورتوں کو معمول سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔
جبری مشقت اور غلامی جیسے حساس معاملے پرپاکستانی حکومت اور معاشرے کا ردعمل مایوس کن، شرمناک اور تکلیف دہ ہے اور یہ پہلی مرتبہ نہیں جب پاکستان میں انسانی حقوق کے معاملات پر ایسی سرد مہری کا اظہار کیا گیا ہو۔ماضی میں بائیں بازو کی تحریکوں کو کچلنے اور کم زور کرنے کے لیے بھی مزدوروں اور کارکنوں کے حقوق کے لیے قانون سازی اور اقدامات سے دانستہ اغماض برتا گیا ہے جس کی واضح مثال ماضی میں سندھ کے بے زمین کاشت کاروں اور پنجاب کے جبری مشقت کا شکاربھٹہ مزدوروں کے احتجاج کی روک تھام کے لیے ریاستی اداروں کی جانب سے طاقت کا استعمال ہے۔ جبری مشقت لینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست عملاً قانون کے نفاذ اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔
جبری مشقت اور غلامی کی مختلف صورتوں کو حاصل سرپرستی کی نوعیت سیاسی ہے تاہم اس کی وجوہ معاشرتی ہیں۔ معاشرے کے ایک بڑا طبقے کاترقی کے دھارے سے باہر رہنے، غربت، شرح خواندگی کی کمی اور انسانی حقوق سے متعلق مجرمانہ غفلت کے رویے کی وجہ سے جبری مشقت میں خاطر خواہ کمی نہیں لائی جاسکی بلکہ بعض صورتوں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا غیر درج شدہ حصہ جس میں اینٹوں کے بھٹے کی صنعت، گھریلو ملازمت، زراعت، قالین بافی اور محلے کی سطح پر قائم کاروبار شامل ہیں جبری مشقت کے بڑے گڑھ ہیں۔ جبری مشقت کے شکار زیادہ تر پاکستانی افرادقرض چکانے کے لیے جبری مشقت پر مجبور ہیں جہاں انہیں بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرتے ہوئے غیر صحت مند ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے۔ قرض کی ادائیگی کا یہ سلسلہ ایسی کڑی شرائط کے تحت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے جن کے تحت قرض کی رقم کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہتی ہے۔
غلامی کا مسئلہ محض انسانی حقوق کا ایک معاملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے اور ریاستی ڈھانچے میں انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر پائے جانے والی تکلیف دہ بے حسی اور خاموشی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ جبری مشقت اور اس کی مختلف صورتوں کا خاتمہ محض انسانی حقوق کی چند تنظیموں کی ذمہ داری نہیں اورنہ ہی یہ ترقی یافتہ ممالک سے امداد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے بلکہ یہ ریاست کا بنیادی فریضہ ہے اور اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ریاست اور معاشرے کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
جبری مشقت اور غلامی کی مختلف صورتوں کو حاصل سرپرستی کی نوعیت سیاسی ہے تاہم اس کی وجوہ معاشرتی ہیں۔ معاشرے کے ایک بڑا طبقے کاترقی کے دھارے سے باہر رہنے، غربت، شرح خواندگی کی کمی اور انسانی حقوق سے متعلق مجرمانہ غفلت کے رویے کی وجہ سے جبری مشقت میں خاطر خواہ کمی نہیں لائی جاسکی بلکہ بعض صورتوں میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا غیر درج شدہ حصہ جس میں اینٹوں کے بھٹے کی صنعت، گھریلو ملازمت، زراعت، قالین بافی اور محلے کی سطح پر قائم کاروبار شامل ہیں جبری مشقت کے بڑے گڑھ ہیں۔ جبری مشقت کے شکار زیادہ تر پاکستانی افرادقرض چکانے کے لیے جبری مشقت پر مجبور ہیں جہاں انہیں بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرتے ہوئے غیر صحت مند ماحول میں کام کرنا ہوتا ہے۔ قرض کی ادائیگی کا یہ سلسلہ ایسی کڑی شرائط کے تحت ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے جن کے تحت قرض کی رقم کم ہونے کی بجائے بڑھتی رہتی ہے۔
غلامی کا مسئلہ محض انسانی حقوق کا ایک معاملہ نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے اور ریاستی ڈھانچے میں انسانی حقوق سے متعلق معاملات پر پائے جانے والی تکلیف دہ بے حسی اور خاموشی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ جبری مشقت اور اس کی مختلف صورتوں کا خاتمہ محض انسانی حقوق کی چند تنظیموں کی ذمہ داری نہیں اورنہ ہی یہ ترقی یافتہ ممالک سے امداد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے بلکہ یہ ریاست کا بنیادی فریضہ ہے اور اس فریضے کی ادائیگی کے لیے ریاست اور معاشرے کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔
Leave a Reply