خبریں بُننے کے آلے پر ایک نئی خبر بُنی گئی کہ دُنیا سُکڑ رہی ہے۔ لوگ یہ سُن کر گھبرا گئے مگر چہروں نے کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا۔( انھیں خطرے کے پیشِ نظر فی الفور بے تاثر کر لیا گیا تھا) اس کے باوجود جاننے والوں سے رستوں چوراہوں پر سامنے سے گریز کیا جانے لگا۔ پھرآہستہ آہستہ پڑوسیوں سے چھپا کر دیواریں اونچی کی جانے لگیں۔
سرگوشیوں کو با اثر ہونے کے جرم میں سرِعام پھانسیاں دی جانے لگیں، خبریں بنُنے والے آلے نے بتایا کہ بہت سی جگہوں پر مشتعل ہجوم نے انھیں کانوں اور ہونٹوں سے کھینچ کر نکالا اور چوکوں میں نصب بھٹیوں میں زندہ جلا دیا گیا۔
“آنگن سُکڑ ضرور سکتے ہیں مگر مشترک نہیں ہو سکتے۔” وہ دل میں خدشے اور خوف پالتے اورپھر انہی خدشات اور اسی خوف کی رہبری میں دلوں کو برف کی سلوں میں لگا کر رکھا جانے لگا مگر گھر بھی محفوظ نہ تھے ۔سو موقع پرست مہربانوں نے تہہ در تہہ ، تہہ خانے اور منزل بہ منزل بڑھتی صحت مندعمارتیں اُگانا شروع کردیں۔ کسی نے نہ پوچھا کہ سکڑتی ہوئی دنیا میں ، بےکار دلوں کے لیے اتنی گنجائش کیوں رکھی جا رہی ہے؟
پسندیدہ اور غیر پسندیدہ مناظر کو محفوظ فاصلے پر رکھنے کوآنکھوں کے سامنے خاردار تارلگا دی گئی ۔ کانوں میں تہہ دار چھلنیاں نصب ہونے لگیں تاکہ قریب تر اور کرخت ترین آواز بھی ان پر اثر انداز نہ ہوسکے ۔ سرگوشیوں کو با اثر ہونے کے جرم میں سرِعام پھانسیاں دی جانے لگیں، خبریں بنُنے والے آلے نے بتایا کہ بہت سی جگہوں پر مشتعل ہجوم نے انھیں کانوں اور ہونٹوں سے کھینچ کر نکالا اور چوکوں میں نصب بھٹیوں میں زندہ جلا دیا گیا۔ (یہ بھٹیاں اسی کام کے لیے اتفاقاً لگائی گئی تھیں) آوازیں سہم کر چپ ہو گئیں۔
دانت اور زبانیں تیز کی جانے لگیں، کون جانے سکڑتی دنیا پر بڑھتی بھیڑ میں کب درندہ بننا پڑ جائے۔ دماغوں کو شک کرنے کی اعلیٰ تربیت دے کر گلیوں بازاروں میں کھلا چھوڑ دیا گیا وہ گروہوں کی صورت اپنے اپنے علاقے کی پہرہ داری کرتے اور راہ چلتے ہر اجنبی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ پیٹ نرم کپڑوں میں احتیاط سے لپیٹ اور چھپا کر رکھے جانے لگے کہ ان سے قیمتی کچھ نہ تھا۔
یہ حفاظتی تدابیر لوگوں کی نظر بچاکر کی جاتی رہیں، حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے سر سے اوپر دیکھتے ہوئے “مدد”اور “اشتراک”جیسے بے معنی الفاظ بھی بولتے مگر سب جانتے تھے کہ اب ایسا ہونا ممکن نہیں رہا۔
ایسا ہی ایک بے اعتبار دن تھا جب خبر آئی کہ دنیا بس سکڑنے ہی کوہے سو لوگ اپنی بھوک پیاس کا بٹوارا وقت پر کر لیں۔ لوگوں کو اسی جیسے کسی اشارے کا شدت سے انتظار تھا سو ان سب نے پیمانے اوردرانتیاں سنبھالیں اور اپنے وسوسوں کی فصل پورے یقین سے کاٹنے لگے۔دن کے اختتام پر غلطی سے بچ جانے والے چند لوگوں کو خون اور اس میں تیرتے اعضاءکی تہہ میں دفن اپنی زمین اوراپنی بھوک کی نشاندہی میں بہت مشکل پیش آئی۔
اگلے روز خبریں بننے والے آلٰہ نے زمین سکڑنے کی پیشین گوئی کو اندازے کی غلطی قرار دے کر لاشوں اور ان کے ٹکڑوں سے کھلے دل کے ساتھ معذرت کرلی۔بچ رہنے والوں نے اس معذرت کو آلے کا بڑا پن قرار دیا۔
پسندیدہ اور غیر پسندیدہ مناظر کو محفوظ فاصلے پر رکھنے کوآنکھوں کے سامنے خاردار تارلگا دی گئی ۔ کانوں میں تہہ دار چھلنیاں نصب ہونے لگیں تاکہ قریب تر اور کرخت ترین آواز بھی ان پر اثر انداز نہ ہوسکے ۔ سرگوشیوں کو با اثر ہونے کے جرم میں سرِعام پھانسیاں دی جانے لگیں، خبریں بنُنے والے آلے نے بتایا کہ بہت سی جگہوں پر مشتعل ہجوم نے انھیں کانوں اور ہونٹوں سے کھینچ کر نکالا اور چوکوں میں نصب بھٹیوں میں زندہ جلا دیا گیا۔ (یہ بھٹیاں اسی کام کے لیے اتفاقاً لگائی گئی تھیں) آوازیں سہم کر چپ ہو گئیں۔
دانت اور زبانیں تیز کی جانے لگیں، کون جانے سکڑتی دنیا پر بڑھتی بھیڑ میں کب درندہ بننا پڑ جائے۔ دماغوں کو شک کرنے کی اعلیٰ تربیت دے کر گلیوں بازاروں میں کھلا چھوڑ دیا گیا وہ گروہوں کی صورت اپنے اپنے علاقے کی پہرہ داری کرتے اور راہ چلتے ہر اجنبی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ پیٹ نرم کپڑوں میں احتیاط سے لپیٹ اور چھپا کر رکھے جانے لگے کہ ان سے قیمتی کچھ نہ تھا۔
یہ حفاظتی تدابیر لوگوں کی نظر بچاکر کی جاتی رہیں، حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے سر سے اوپر دیکھتے ہوئے “مدد”اور “اشتراک”جیسے بے معنی الفاظ بھی بولتے مگر سب جانتے تھے کہ اب ایسا ہونا ممکن نہیں رہا۔
ایسا ہی ایک بے اعتبار دن تھا جب خبر آئی کہ دنیا بس سکڑنے ہی کوہے سو لوگ اپنی بھوک پیاس کا بٹوارا وقت پر کر لیں۔ لوگوں کو اسی جیسے کسی اشارے کا شدت سے انتظار تھا سو ان سب نے پیمانے اوردرانتیاں سنبھالیں اور اپنے وسوسوں کی فصل پورے یقین سے کاٹنے لگے۔دن کے اختتام پر غلطی سے بچ جانے والے چند لوگوں کو خون اور اس میں تیرتے اعضاءکی تہہ میں دفن اپنی زمین اوراپنی بھوک کی نشاندہی میں بہت مشکل پیش آئی۔
اگلے روز خبریں بننے والے آلٰہ نے زمین سکڑنے کی پیشین گوئی کو اندازے کی غلطی قرار دے کر لاشوں اور ان کے ٹکڑوں سے کھلے دل کے ساتھ معذرت کرلی۔بچ رہنے والوں نے اس معذرت کو آلے کا بڑا پن قرار دیا۔