سینیٹ کو مہیا کی گئی تفصیلات کے مطابق پاکستانی افواج کی ویلفیئر فاونڈیشنز کے تحت پچاس اقتصادی منصوبے چلائے جا رہے ہیں، ان معاشی منصوبوں میں ہاوسنگ سوسائٹیز، سیمنٹ اورچینی بنانے کے کارخانے اور بینک بھی شامل ہیں۔ افواج پاکستان کی جانب سے ان معاشی منصوبوں کا دفاع ہمیشہ اس بنیاد پر کیا گیا ہے کہ ان منصوبوں سے ہونے والی آمدنی کے ذریعے سابق فوجیوں، شہداء اور ان کے اہل خانہ کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ فوجی فاونڈیشن کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق یہ ادارہ نوے لاکھ سے زائد افراد کو سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
یہ معاشی منصوبے سرکاری مراعات کے حامل ہیں، انہیں سبسڈیز دی جاتی ہیں، رہائشی منصوبوں کے لیے سستے داموں زمین مہیا کی جاتی ہے اور ان سے متعلق معلومات عوامی رسائی سے دور رکھی جاتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ افواج پاکستان اپنے سپاہ کی بہبود کے لیے خطیر رقم خرچ کر رہی ہیں تاہم افواج پاکستان کے معاشی منصوبوں کا حجم، پھیلاو اور اس حوالے سے پائی جانے والی عدم شفافیت کئی سوالات اٹھانے کا باعث بن رہی ہے۔ یہ معاشی منصوبے سرکاری مراعات کے حامل ہیں، انہیں سبسڈیز دی جاتی ہیں، رہائشی منصوبوں کے لیے سستے داموں زمین مہیا کی جاتی ہے اور ان سے متعلق معلومات عوامی رسائی سے دور رکھی جاتی ہیں۔ 2004 اور 2005 کے دوران فوجی فاونڈیشن کو دس ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب میں دیے گئے تخمینے کے مطابق فوج کے ان منصوبوں کی قدروقیمت بیس ارب ڈالر کے قریب ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب ملٹری انک کے مطابق افواج پاکستان کے زیرانتظام ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ زمین ہے، بھاری صنعتوں کی کل پیداوار کا ایک تہائی عسکری انتظامیہ کے تحت چلنے والے ادارے تیار کرتے ہیں، اور یہ ادارے کل ملکی جی ڈی پی کا سات فیصد عسکری کاروباری اداروں کے زیرانتظام ہے۔ کل سرکاری زمین کا 12 فیصد افواج پاکستان کے زیراستعمال ہے اور ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ اس زمین کو بھی کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ افواج پاکستان کے زیرانتظام چلنے والے اداروں کی تعداد کے حوالے سے بھی ابہام موجود ہے اورآزاد ذرائع سے دستیاب اعدادوشمار کے مطابق فوج کے زیرانتظام 55 یا اس سے زائدکاروباری ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں سے صرف 9 ادارے اپنے کھاتوں کی تفصیلات عام کرتے ہیں۔
یہ ادارے ٹرسٹ اور ویلفیئر فاونڈیشنز کے تحت چل رہے ہیں لیکن ان کے حوالے سے شفافیت کے فقدان کے باعث ان کے منافع اور نقصان کے حوالے سے معلومات دستیاب نہیں۔ ان اداروں کے آڈٹ کی تفصیلات بھی عام نہیں کی جاتیں۔ یہ عدم شفافیت اس لیے زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ ان اداروں کو افواجِ پاکستان کے حوالے سے شناخت کیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں تعینات فوجی اہلکاروں پر مالی بدعنوانی کے الزامات نئے نہیں، نیشنل لاجسٹکس سیل میں تعینات فوجی افسروں پر بدعنوانی کے الزامات فوج کی اپنی تحقیقات میں ثابت ہو چکے ہیں مگر انہیں قرار واقعی سزا نہیں دی گئی۔
افواج ِ پاکستان کی اس بڑے پیمانے پر اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کا سب سے زیادہ نقصان خود مسلح افواج کی پیشہ ورانہ اہلیت کو ہوا ہے۔
افواج ِ پاکستان کی اس بڑے پیمانے پر اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کا سب سے زیادہ نقصان خود مسلح افواج کی پیشہ ورانہ اہلیت کو ہوا ہے۔ فوج ملکی دفاع کا ذمہ دار آئینی ادارہ ہے اور اسے ایک کاروباری سلطنت کے چلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔ عسکری امور کے ماہر افراد بارہا اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی افواج کی جانب سے اس بڑے پیمانے پر اقتصادی سرگرمیوں میں شمولیت کے باعث پاکستانی افواج کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا تاثر بھی عام ہے۔ اپنے معاشی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے عسکری اداروں کی جانب سے اپنی طاقت اور رسوخ کے بے جا استعمال کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اوکاڑہ کے مزارعین کے ساتھ عسکری اداروں کا تنازع نیا نہیں ہے۔ افواج پاکستان کے معاشی منصوبوں کے حوالے سے سب سے تشویشناک حقیقت ان اداروں کو معاشی سرگرمیوں کے لیے وضع کردہ ملکی قوانین سے ماورا رکھنا ہے۔ عسکری قیادت نے یہ یقینی بنائے رکھا ہے کہ سول ادارے ان اداروں کی معاشی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال نہ کرنے پائیں۔
سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ کیا کسی بھی طرح ایک آئینی ادارے کو اس قدر بڑی، طاقت ور اور دولت مند کاروباری سلطنت کھڑی کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ فوج جیسے اہم ادارے کو کسی بھی طور معاشی سرگرمیوں میں اس بڑے پیمانے پر شمولیت کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کی معاشری سرگرمیوں کی جانچ پڑتال اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ ان کا براہ راست اثر ملک کی سیاست اور معیشت پر پڑ رہا ہے جو ملکی استحکام اور دفاع کی صلاحیت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔