Laaltain

آبادی اور وسائل میں عدم توازن

10 ستمبر, 2014
Picture of رمضان قدیر

رمضان قدیر

اندازوں کے مطابق آبادی میں اضافہ کی موجودہ شرح کے نتیجے میں 2050ء میں پاکستان کی آبادی 18کروڑ سے بڑھ کر 50کروڑہوجائے گی اور صدی کے اختتام تک ملک کی آبادی لگ بھگ ایک ارب ہو جائے گی ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اکیسویں صدی کے اختتام پر پاکستان کا سیاسی ،معاشی اور سماجی خاکہ بنائیں کہ اس وقت کا پاکستان ایک ارب کی آبادی کے ساتھ کیسا ہو گا؟اگر اکیسویں صدی کے اختتام پر پاکستان کی سیاسی صورت حال موجودہ پاکستان جیسی ہی ہوئی تو پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف جیسی جماعتوں کولاہور سے اسلام آبادتک لانگ مارچ کے لیے 30گھنٹوں کی بجائے 120گھنٹے کاسفر کرنا پڑے گا اور پھر مسلم لیگ نواز جیسی حکومت کو لاہور سے اسلام آباد تک فلائی اوور بنانا پڑے گا جس سے سیمنٹ اور لوہے کاکا روبار خوب چمکے گا ۔
اسے ریاستی ناکامی یا بدقسمتی کہیے کہ 1947ء سے لیکراب تک کی کسی بھی حکومت نے آبادی میں اضافہ کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس مسئلے کو مذہبی جنونیوں ،روایتی سیاست دانوں اور رہنماؤں کے سپرد کر دیا جو مذہب اور ثقافت کے نام پر نہ تو آبادی میں اضافہ کو روکنے کے حق میں نہیں بلکہ اس کو مزید بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان کی آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی جو آج چھ گنا بڑھ کر اٹھارہ کروڑ سے زائدہو چکی ہے۔اس حد سے بڑھی ہوئی آبادی کا دباؤ قدرتی وسائل کی کمیابی کے ساتھ معاشی ،سماجی اور صنعتی ترقی کے امکانات کو محدود کرنے کا بھی باعث بن چکا ہے ۔کسی بھی ریاست کی ترقی کا راز اس کی آبادی اور قدرتی وسائل اور معیشت میں توازن کی بنیاد پر ہو تا ہے ،کم آبادی اور زیادہ وسائل سے ترقی تو ممکن ہے لیکن بہت زیادہ آبادی اور نسبتاً کم قدرتی وسائل سے ترقی کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں ۔
آبادی میں اضافہ کا نقصان سب سے زیادہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس محدوذرائع روز گار اور شہری سہولیات ہوتی ہیں، دوسرے نمبر پر اس حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آبادی کا نقصان ماحول اور اس وابسہہ آبی اور جنگلی حیات کو ہوتا ہے ۔
آبادی میں اضافہ کا سب سے زیادہ اثر صاف پانی کی دستیابی کی صورت حال پر ہوا ہے۔پانی جس سے زمین پر موجودتمام انسانی اور غیر انسانی زندگی وابستہ ہے، جو صنعت و حرفت زراعت گھریلواستعمال میں آتا ہے آبادی میں بے تحاشا اضافہ کے باعث اس وقت پوری دنیا پانی کی کمی کا سامنا کرہی ہے۔آبادی میں اضآفہ اور صاف پانی کے ذخائر میں کمی سے نہ صر ف کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو پینے کی پانی کی قلت کا سامنا ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبے متاثر ہو رہے ہیں ۔1950ء میں جب پاکستان کی آبادی 4کروڑ تھی اس وقت ہر پاکستانی کو 5260کیوبک میٹر پانی مہیا تھاجو آج گھٹ کر 1000کیوبک میٹر رہ گیا ہے، 2050ء میں جب آبادی بڑھ کر 50کروڑ ہوجائے گی تو پانی کی یہ مقدا رمزید گھٹ کر فی فرد 400کیوبک میٹر رہ جائے گی ۔ اسی طرح 1950ء میں ایک مربع کلومیٹر کے رقبے میں 35سے 40افراد رہتے تھے،جو آج بڑھ کر تقربیاً225سے 240افراد فی مربع کلومیٹر ہو گئے ہیں اور 2050ء میں یہ تعداد 500افراد فی مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ہوجائیگی ۔ اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے زیادہ دباؤ پنجاب ،کشمیر اورخبیر پختونخواہ میں ہے جہاں کئی علاقوں میں آبادی کی گنجانی بڑھ کر ہزار افراد فی مربع کلومیٹرتک پہنچ چکی ہے۔
آبادی میں اضافہ کا نقصان سب سے زیادہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس محدوذرائع روز گار اور شہری سہولیات ہوتی ہیں، دوسرے نمبر پر اس حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آبادی کا نقصان ماحول اور اس وابسہہ آبی اور جنگلی حیات کو ہوتا ہے ۔آبادی میں اضافہ شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ کا باعث بھی بنتا ہے ۔جب ریاست اپنی لوگوں کی ضروریاتِ زندگی مثلاً تعلیم ،صحت اور روز گا رفراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو شدت پسند اور دہشت گردتنظیموں کے لیے لوگوں کی غربت ،بے روز گاری ،بھوک اور جہالت سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ آبادی میں بے ہنگم اضافہ دہشت گردی ، فرقہ ورایت ،مذہبی جنونیت ، غربت ،جہالت اور نا انصافی جیسے مسائل سے کم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بیشتر مسائل کا باعث آبادی کا غیر منظم پھیلاو ہی ہے۔ آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل اور خوبصورت ماحول دینے کے لیے تمام طبقات کو سوچنا ہو گا کہ کس طرح وسائل اور آبادی میں توازن لایا جا سکتا ہے۔

ہمارے لیے لکھیں۔