اندازوں کے مطابق آبادی میں اضافہ کی موجودہ شرح کے نتیجے میں 2050ء میں پاکستان کی آبادی 18کروڑ سے بڑھ کر 50کروڑہوجائے گی اور صدی کے اختتام تک ملک کی آبادی لگ بھگ ایک ارب ہو جائے گی ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اکیسویں صدی کے اختتام پر پاکستان کا سیاسی ،معاشی اور سماجی خاکہ بنائیں کہ اس وقت کا پاکستان ایک ارب کی آبادی کے ساتھ کیسا ہو گا؟اگر اکیسویں صدی کے اختتام پر پاکستان کی سیاسی صورت حال موجودہ پاکستان جیسی ہی ہوئی تو پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریکِ انصاف جیسی جماعتوں کولاہور سے اسلام آبادتک لانگ مارچ کے لیے 30گھنٹوں کی بجائے 120گھنٹے کاسفر کرنا پڑے گا اور پھر مسلم لیگ نواز جیسی حکومت کو لاہور سے اسلام آباد تک فلائی اوور بنانا پڑے گا جس سے سیمنٹ اور لوہے کاکا روبار خوب چمکے گا ۔
اسے ریاستی ناکامی یا بدقسمتی کہیے کہ 1947ء سے لیکراب تک کی کسی بھی حکومت نے آبادی میں اضافہ کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس مسئلے کو مذہبی جنونیوں ،روایتی سیاست دانوں اور رہنماؤں کے سپرد کر دیا جو مذہب اور ثقافت کے نام پر نہ تو آبادی میں اضافہ کو روکنے کے حق میں نہیں بلکہ اس کو مزید بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان کی آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی جو آج چھ گنا بڑھ کر اٹھارہ کروڑ سے زائدہو چکی ہے۔اس حد سے بڑھی ہوئی آبادی کا دباؤ قدرتی وسائل کی کمیابی کے ساتھ معاشی ،سماجی اور صنعتی ترقی کے امکانات کو محدود کرنے کا بھی باعث بن چکا ہے ۔کسی بھی ریاست کی ترقی کا راز اس کی آبادی اور قدرتی وسائل اور معیشت میں توازن کی بنیاد پر ہو تا ہے ،کم آبادی اور زیادہ وسائل سے ترقی تو ممکن ہے لیکن بہت زیادہ آبادی اور نسبتاً کم قدرتی وسائل سے ترقی کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں ۔
اسے ریاستی ناکامی یا بدقسمتی کہیے کہ 1947ء سے لیکراب تک کی کسی بھی حکومت نے آبادی میں اضافہ کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس مسئلے کو مذہبی جنونیوں ،روایتی سیاست دانوں اور رہنماؤں کے سپرد کر دیا جو مذہب اور ثقافت کے نام پر نہ تو آبادی میں اضافہ کو روکنے کے حق میں نہیں بلکہ اس کو مزید بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان کی آبادی تین کروڑ بیس لاکھ تھی جو آج چھ گنا بڑھ کر اٹھارہ کروڑ سے زائدہو چکی ہے۔اس حد سے بڑھی ہوئی آبادی کا دباؤ قدرتی وسائل کی کمیابی کے ساتھ معاشی ،سماجی اور صنعتی ترقی کے امکانات کو محدود کرنے کا بھی باعث بن چکا ہے ۔کسی بھی ریاست کی ترقی کا راز اس کی آبادی اور قدرتی وسائل اور معیشت میں توازن کی بنیاد پر ہو تا ہے ،کم آبادی اور زیادہ وسائل سے ترقی تو ممکن ہے لیکن بہت زیادہ آبادی اور نسبتاً کم قدرتی وسائل سے ترقی کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں ۔
آبادی میں اضافہ کا نقصان سب سے زیادہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس محدوذرائع روز گار اور شہری سہولیات ہوتی ہیں، دوسرے نمبر پر اس حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آبادی کا نقصان ماحول اور اس وابسہہ آبی اور جنگلی حیات کو ہوتا ہے ۔
آبادی میں اضافہ کا سب سے زیادہ اثر صاف پانی کی دستیابی کی صورت حال پر ہوا ہے۔پانی جس سے زمین پر موجودتمام انسانی اور غیر انسانی زندگی وابستہ ہے، جو صنعت و حرفت زراعت گھریلواستعمال میں آتا ہے آبادی میں بے تحاشا اضافہ کے باعث اس وقت پوری دنیا پانی کی کمی کا سامنا کرہی ہے۔آبادی میں اضآفہ اور صاف پانی کے ذخائر میں کمی سے نہ صر ف کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو پینے کی پانی کی قلت کا سامنا ہے بلکہ زندگی کے تمام شعبے متاثر ہو رہے ہیں ۔1950ء میں جب پاکستان کی آبادی 4کروڑ تھی اس وقت ہر پاکستانی کو 5260کیوبک میٹر پانی مہیا تھاجو آج گھٹ کر 1000کیوبک میٹر رہ گیا ہے، 2050ء میں جب آبادی بڑھ کر 50کروڑ ہوجائے گی تو پانی کی یہ مقدا رمزید گھٹ کر فی فرد 400کیوبک میٹر رہ جائے گی ۔ اسی طرح 1950ء میں ایک مربع کلومیٹر کے رقبے میں 35سے 40افراد رہتے تھے،جو آج بڑھ کر تقربیاً225سے 240افراد فی مربع کلومیٹر ہو گئے ہیں اور 2050ء میں یہ تعداد 500افراد فی مربع کلومیٹر کے لگ بھگ ہوجائیگی ۔ اس وقت بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے زیادہ دباؤ پنجاب ،کشمیر اورخبیر پختونخواہ میں ہے جہاں کئی علاقوں میں آبادی کی گنجانی بڑھ کر ہزار افراد فی مربع کلومیٹرتک پہنچ چکی ہے۔
آبادی میں اضافہ کا نقصان سب سے زیادہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس محدوذرائع روز گار اور شہری سہولیات ہوتی ہیں، دوسرے نمبر پر اس حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آبادی کا نقصان ماحول اور اس وابسہہ آبی اور جنگلی حیات کو ہوتا ہے ۔آبادی میں اضافہ شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ کا باعث بھی بنتا ہے ۔جب ریاست اپنی لوگوں کی ضروریاتِ زندگی مثلاً تعلیم ،صحت اور روز گا رفراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو شدت پسند اور دہشت گردتنظیموں کے لیے لوگوں کی غربت ،بے روز گاری ،بھوک اور جہالت سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ آبادی میں بے ہنگم اضافہ دہشت گردی ، فرقہ ورایت ،مذہبی جنونیت ، غربت ،جہالت اور نا انصافی جیسے مسائل سے کم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بیشتر مسائل کا باعث آبادی کا غیر منظم پھیلاو ہی ہے۔ آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل اور خوبصورت ماحول دینے کے لیے تمام طبقات کو سوچنا ہو گا کہ کس طرح وسائل اور آبادی میں توازن لایا جا سکتا ہے۔
آبادی میں اضافہ کا نقصان سب سے زیادہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو ہوتا ہے جن کے پاس محدوذرائع روز گار اور شہری سہولیات ہوتی ہیں، دوسرے نمبر پر اس حد سے زیادہ بڑھی ہوئی آبادی کا نقصان ماحول اور اس وابسہہ آبی اور جنگلی حیات کو ہوتا ہے ۔آبادی میں اضافہ شدت پسند گروہوں کی سرگرمیوں میں اضافہ کا باعث بھی بنتا ہے ۔جب ریاست اپنی لوگوں کی ضروریاتِ زندگی مثلاً تعلیم ،صحت اور روز گا رفراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو شدت پسند اور دہشت گردتنظیموں کے لیے لوگوں کی غربت ،بے روز گاری ،بھوک اور جہالت سے فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے مذموم عزائم کے لئے استعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ آبادی میں بے ہنگم اضافہ دہشت گردی ، فرقہ ورایت ،مذہبی جنونیت ، غربت ،جہالت اور نا انصافی جیسے مسائل سے کم مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بیشتر مسائل کا باعث آبادی کا غیر منظم پھیلاو ہی ہے۔ آنے والی نسلوں کو بہتر مستقبل اور خوبصورت ماحول دینے کے لیے تمام طبقات کو سوچنا ہو گا کہ کس طرح وسائل اور آبادی میں توازن لایا جا سکتا ہے۔
اس آرٹیکل کو پڑه کر اس آرٹیکل لکهنے والے کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کر رها هے.اس آرٹیکل کا لبِ لباب اسلام اور اسلام ماننے والوں اور بے چارے غریب لوگوں کی غربت کو گالی دینا مقصود هے اس کے علاوه اور کچه نهیں.
ایسے نامهاد قلم کار ایسے خیالات کو همارے معاشرے میں بیرونی آقاوں کے اشارے پر داخل کرکے لوگوں کو اسلام سے متنفرکرنے کی انتهائی گهٹیا کوشش کرتے هیں.جیسا که اس نامنهاد قلم کار نے آبادی میں اضافه کو غریبوں اور جانوروں کے لیے نقصانده قرار دے کر گویا جانوروں اور غریبوں کو ایک درجه میں رکه دیا هے اور یه ان کے دل کی اندر کی کفیت هے.
درحقیقت آبادی میں اضافه همارے مسائل کا سبب نهیں هے.بلکه اپنے لوگوں کو جان بوجه کر بے علم اور جاهل رکهنا اور انکے حصے کے وسائل پر ناجائض قبضه کرنا اورملکی وسائل کو لوٹ کر بیرونے ملک منتقل کرنا.جان بوجه کر ملکی وسائل کو صحیح طورپر استعمال نه کرنا اورمعاملات کا نا اهل لوگوں هاتهوں میں چلے جانا هی همارے مسائل کا سبب هے.
یه کیسے هو سکتا هے که الله تعالی یه اعلان فرمائے که جو ذی روح هے اس کا رزق بهی نازل کیا جاتا هے.یه الگ بحث هے که اس کے حصه کا رزق کوئی ظالم طاقتوراس سے چهین لے.
وه قومیں آج خوشحال هیں جن کے پاس تعلیم یافته افراد کی فراوانی هے.اور هم هیں که خود اپنی دشمنی پر تلے هوئے هیں.چاهیے تو یه که هم بے همتی چهوڑیں اپنا حق لینے کا حوصله پیدا کریں.اپنے بچوں کو اعلی تعلیم سے مزین کریں.پهر دیکهیں که یه قوم کهاں پنهچتی هے.
خدا را خدا سے ویر کو ترک کریں.راه پر پیچهے چلنے کی بجائے آگے کی طرف چلیں.تاکه اپنی منزل تک پهنچ سکیں.
پاکستان میں آبادی کنڑول نا ہونے کی بڑی وجہہ چائلڈ لیبر کے خلاف موثر قوانین کا اطلاق نا ہونا ہے۔ غریب کے لئے نیا بچہ نئی ذمے داری نہیں بلکہ کمائی کا نیا ذریعہ بنتا ہے۔ چھوٹے دکاندار اور مکینک ٹائپ لوگ تو کم پڑھے لکھے ہونے اور کاروباری چالاکی کے باعث کم اُجرت پر بچوں کو رکھتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں امیر اور پڑھی لکھی فیملیز میں بھی چھوٹی عمر کے بچوں کو نوکر رکھا جاتا ہے صد افسوس یہ کہ اس بات کا احساس ہی ناپید ہے کہ یہ ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے۔ بچے اپنا بُرا بھلا سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور انہیں چند پیسوں کے لئے مزدوری پر لگانا انسانی غلامی (سلیوری) کی ایک قسم ہے۔ جب تک حکومت چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین کا اطلاق اور سخت سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کرواتی یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ جب چائلڈ ڈیمانڈ ہوگی تو سپلائی تو وافر مقدار میں مل جائے گی۔ یہی وجہہ ہے کہ آپ کے گھر کا کُوڑا اُٹھانے والی کے بھی گیارہ بچے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ حکومت کا کام ہے کہ پیدائش کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے اور ہر بچے کی تعلیم کا مفت انتظام کیا جائے اور والدین کا پابند بنایا جائے کہ وہ بچوں کو سکولوں میں بھیجیں۔
والدین کو جب یہ پتہ چلے گا کہ ان بچوں سے کمائی نہیں کروائی جا سکتی بلکہ ان کو پڑھانا پڑے گا تو ان کے ہوش ٹھکانے آئیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے افراد کو اپنے گھروں، رشتے داروں اور حلقہ احباب میں اس کا شعور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس فعل کی حوصلہ شکنی کریں اور اس عمل کو ناپسندیدگی کا درجہ دینے کے لئے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔