گلگت بلتستان کا پاکستان میں متنازعہ انضمام ہو یا اس "الحاق” کے بعد سے یہاں کے عوام سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ہو، ہر گزرتے دن کے ساتھ گلگت بلتستان کے عوام خصوصاًجوجوانوں میں بیداری کی لہر بڑھتی جا رہی ہے۔ گلگلت بلتستان کے نوجوان ماضی میں بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح سے شہری سہولیات کے حصول اور صوبے کا درجہ پانے کی جدوجہد میں مصروف رہے ہیں اور گو کہ گزشتہ پیپلز پارٹی حکومت نے اس علاقے کو اندرونی خودمختاری دی گئی ہے لیکن عملی طور پر تمام معاملات مرکزی حکومت یا خیبر پختونخواہ حکومت کے زیر اثر ہیں۔
گلگت بلتستان کے عوام نے 1992 میں نوازخان ناجی کی قیادت میں بلاورستان نیشنل فرنٹ کے نام سے ایک قوم پرست تحریک کی بنیاد ڈالی تھی اور یہاں کے مقامی لوگوں کے حقوق کے لئے اپنی جدوجہد کا آغا کیا تھا۔ یہ جدوجہد گو کہ ذرائع ابلاغ سرکاری میں ریاستی جبر کے پاس جگہ نہیں پا سکی مگر ریاست کی جانب سے گلگت بلتستان کے عوام کے سیاسی مطالبات کو تسلیم نہ کئے جانے کے باعث اب یہ تحریک شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ گو کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اس تحریک کی خاطر خواہ نمائندگی موجود نہیں مگر بے روزگاری اور سیاسی شناخت نہ ملنے کے باعث بلاورستان کے نوجوان اب بیدار ہو چکے ہیں اور اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ سیاسی شناخت اورمکمل صوبائی خودمختاری کے حصول کا مطالبہ اب نوجوانوں کی آواز بن چکا ہے۔
اپریل 2014کے وسط میں گلگت بلتستان کے عوام نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے جنہیں روکنے کے لئے حکومت کی طرف سے دفعہ 144 بھی نافذ کی گئی تاہم نوجوانوں سمیت تمام عمر کے مردوخواتین نے ان مظاہروں میں شرکت کی اور مکمل شٹر ڈاون رہا۔ تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی دیگر قوم پرست اقلیتوں کی طرح گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل اور پرامن سیاسی تحریک کو کوئی کوریج نہیں دی گئی۔احتجاجی مظاہروں کے دوران مختلف جماعتوں کے نوجوان کارکنوں نے اپنا دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا جس میں گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم حکومت کی جانب سے اب تک ان مطالبات کی خاطرخواہ پذیرائی نہیں کی گئی۔

Pic-2-gilgit banner

گلگلت بلتستان کے نوجوانوں کی سیاسی بیداری ایک عوامی تحریک بن چکی ہے اور اب بلاورستان کے نوجوان اپنی سیاسی شناخت اور حقوق کے لئے ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار ہیں۔ آپ کے جریدے کی وساطت سے میں پاکستان کے دیگر خطوں میں بسنے والے شہریوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس پرامن سیاسی تحریک کی حمایت کریں اور پاکستان میں بسنے والی تمام سیاسی اقلیتوں کی سیاسی شناخت اور حقوق کی فراہمی کے لئے اپنے طور پر آواز اٹھائیں۔لالٹین کے توسط سے میں یہ پیغام بھی تمام قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ بلاورستان کے نوجوانوں کی یہ پُرامن تحریک صرف اپنے حقوق اور سیاسی شناخت کی فراہمی کے لئے ہے جس کی اجازت پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے۔

آفاق احمد بلاور
سماجی کارکن گلگت بلتستان

2 Responses

  1. Ejaz

    ۔گلگت بلتستان کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جیسے جمہوری حقوق کے نام پر فریب دیا گیا اسی طرح اگر اس خطے کو ایک سرمایہ دارانہ پاکستان کا صوبہ بنا بھی دیا جائے تو ان کی محرومیوں اور مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا چونکہ اگر ایک سرمایہ دارانہ پاکستان بلوچستان، سندھ، پشتونخواہ اور پنجاب کے عوام اور نوجوانوں کے مسائل 67 برسوں میں حل نہیں کر سکا تو گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ گلگت بلتستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو بھی طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوتے ہوئے تمام کمیشن ایجنٹ حکمرانوں، ان کے سامراجی آقاؤں اور اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا اور حقیقی حل ایک سوشلسٹ انقلاب ہی سے ممکن ہے …

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: