گاوں سے مغرب کی طرف باہر نکلتے ہی ایک چھوٹی سی پگڈنڈی حاجیوں کے امرود وں کے امرودوں کے باغ سے نکلتی ہوئی ملکوں کے ڈیرے سے ذرا آگے قبرستان تک جانے کا مختصر ترین راستہ ہے، ورنہ ایک ہموارپختہ سڑک بھی قبرستان تک جاتی ہے۔ گاوں کے تمام جنازے اسی بڑی سڑک سے قبرستان تک جاتے ہیں۔ دن بھر قبرستان میں میلے کا ساسماں ہوتا ہے، بچے، جوان حاجیوں کے باغ والے راستے سے آتے اور گلی ڈنڈا، کرکٹ، گھیر گھمٹ وغیرہ کھیلتے ، ملکوں کے بیر کھاتے، پیلوں چنتے اور چلے جاتے۔ کبھی کبھار گاوں کی عورتیں بھی جھاڑو چننے اور ونکے درختوں سے پھل توڑنے آتی تھیں۔
بابا بخت جمال کے مزار پر تو صبح سے شام تک خوب چہل پہل رہتی، کئی جوڑے پسند کی شادی کے لئے مزار کے ساتھ اُگے برگد کے پیڑ کے دوشاخوں کو ست رنگی دھاگوں سے باندھ کر جوڑ دیتے، بے اولاد سرہانیاں ٹانکتے اور مائیں اپنے بیٹوں کو بیویوں کے چنگل سے بچانے اور بیویاں شوہروں کو ان کی ماوں کے دامن سے علیحدہ کرنے کے لئے چاولوں سے بھری تھیلیاں ٹانگتیں۔ روزانہ مزار پر چاولوں کی دیگیں چڑھتیں اور آس پاس کے دیہاتی تبرک لینے مزار پر حاضری دیتے۔
دن بھر بابا جی کے مزار پر تانتا بندھا رہتا لیکن شام کے سائے جب درختوں کو اپنی آغوش میں لے لیتے تو ہر طرف ہو کا عالم چھا جاتااور پورے قبرستان میں بابا جی کے مزار کے مجاور سائیں فتو کے علاوہ صرف مردے ہی رہ جاتے۔ سائیں فتو جب عشاء کے بعد گاوں سے لوٹتا تو اپنی جھگی میں چمٹا بجاتا، گاوں والے کہتے تھے کہ رات بابا جی کے مزار پر بھوت پریت آتے ہیں۔دیکھا تو کسی نے نہیں تھا پر گاوں کے سبھی باسیوں نے کبھی نہ کبھی فتو سے پوچھا ضرور تھا "سائیں بابا کے مزار پر رات کو بھوت پریت آتے ہیں نا؟؟”سائیں ہر بار چمٹے کے کڑے کو دو تین بار چمٹے پے مار کر حق بابا بخت جمال کا نعرہ بلند کرتا اور کہتا،”باباجانے کون آتا ہے، کون جاتا ہے فتو مسکین تو کچھ نہ جانے۔”
جب کوئی بچہ پوچھتا کہ ،”سائیں تو نے بھوت کو دیکھا ہے؟” تو وہ ہنس کے کہتا،”میں نے تو کبھی خود کو نہیں دیکھا۔”
سائیں ایسا ہی تھا، عجیب و غریب باتیں کرتا رہتا تھا، ہمیشہ اپنی ہی دنیا میں مست ۔ اس کا ہر جواب ایک رمز تھا، گہری اور اندھی رمز۔ ایک روز مولوی امام دین نے پوچھا ،”سائیں کلمے آتے ہیں؟” تو کہنے لگا،”پانچ آتے ہیں۔” مولوی نے پوچھا چھٹا کیوں یاد نہیں کرتا،”چھٹا یاد کر لیا تو ہمیں سائیں کون کہے گا۔”مولوی امادین سمیت کوئی یہ نہیں جانتا کہ سائیں چھ کلمے یاد کرنے کے بعد سائیں کیوں نہیں رہے گا۔مائیں اپنے بچوں کو سائیں کو ستانے سے روکتیں، لیکن نہ بچے ستانے سے باز آتے اور نہ سائیں بچوں سے تنگ پڑتا۔ سائیں فتو روزانہ بچوں میں کوہقاف کی پریوں کی نیاز والی ریوڑیاں بانٹتا، انہی ں کندھوں پر پھراتا، بیر، جامن اور آم توڑ توڑ کر دیتا۔ گاوں کا ہر گھرسائیں کا تھااور ہر بچہ جیسے اس کا اپنا ہو۔یہی سائیں کی دنیا تھی اور یہی اس کا مشغلہ۔
ابھی گاوں میں سعودیہ کا پیسہ اور لمبی چھوٹی داڑھیوں کی بحث نہیں پہنچی تھی۔ ابھی ہاتھ چھوڑنے اور باندھنے پر نماز ہونے نہ ہونے کے مناظرے شروع نہیں ہوئے تھے۔خدا بھی ابھی ایک مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے سب کی نماز قبول کر رہا تھا۔ دوبرس قبل ملک مختیار کا لڑکا کالج سے لوٹا تو اس نے گاوں کے طور طریق پر اعتراض کرنا شروع کردیا۔ اسے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ اب تک گاوں میں جتنی نمازیں پڑھی گئی تھیں وہ یا تو مکروہ تھیں یا قبول ہی نہیں ہوئی تھیں۔ پہلے پہل جھگڑا دو جماعتوں، دو اذانوں تک ہی رہا اور پھر بات دوسری مسجد تک جاپہنچی۔نور محمد کے کھیتوں کا گیہوں بھی تقسیم ہو کر آدھے گاوں میں پہنچااور حاجیوں کے امرود آدھے بچوں پر حرام ہو گئےلیکن سائیں سبھی کے بچوں میں ریوڑیاں تقسیم کرتا رہا۔
لوگ نہیں جانتے تھے کہ مولوی امام دین کی مسجد کا خدا سچا ہے یا تراب شاہ کی مسجد کا؟کلمہ کون ساٹھیک ہے اور اذان کس کی صحیح ہے یہ کوئی بھی بتا نہیں سکا۔ اور پھر پچھلےبرس تراب شاہ کی محرم کی مجلس پر گولی چلی، اور ملک مختیار کو کسی نے مارڈالا۔ کوئی نہیں جانتا کس نے کس کو مارنے میں پہل کی اور کون قصوروار تھا۔ پولیس آئی اور تراب شاہ اور ملک مختیار کے بیٹے کے درمیان صلح ہوئی لیکن خاموش زیادہ عرصہ قائم نہیں رہی۔ محرم پھر آیا اور اس بار پولیس کی نفری بھی پہلے سے زیادہ تھی۔
دس محرم کی رات فتو بابا بخت جہاں کے مزار پر اپنی دنیا میں مگن تھاکہ رات کے سناٹے کا طلسم ہوش ربابندوق کی آواز سے پاش پاش ہوگیا، سائیں ایک دم سے کھڑا ہوا۔ گاوں کی جانب سے عورتوں کے چیخنے اور گولیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ سائیں نے باباکی ڈھیری کی پائینتی کو زور سے دبوچااور کہا بابا آج خیر کریں اور بابا کا جواب سنے بغیر ہی گاوں کی طرف دوڑ لگا دی۔ دسمبر کی سخت سردی میں جب فضا ٹھٹھر رہی تھی، سائیں ننگے پاوں حاجیوں کے باغ سے ہوتا ہوا گاوں کے جوہڑ میں کھڑے پانی کو چیر کر شور کی سمت بڑھنے لگا۔ گاوں میں ہر طرف جانے پہچانے چہرے سہمے سہمے پھر رہے تھے، ایک ایسی شام غریباں برپا تھی جس میں سبھی کے خیمے لُٹ رہے تھے۔
رات کے مہیب اندھیروں میں گولیاں دونوں جانب سے چل رہی تھیں، ابن زیاد اور ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکروں کی تفریق مٹ چکی تھی۔ دونوں طرف شمر تھے جوکسی نہ کسی مظلوم کے لہو سے ہاتھ رنگے ہوئے تھا، ہر لٹی ہوئی بین کرتی عورت سکینہ تھی، ہر ننگا سر زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا۔سبھی بچے علی اصغر لگ رہے تھےاور سبھی خانوادے پیاسے تھے۔لوٹنے والے تمام لشکر نیزوں پر سر اٹھائے ہوئے تھے جن پر جھولتے چہروں کی پہچان مٹ چکی تھی۔ ایک گولی سائیں فتو کا سینہ چیرتی ہوئی بھی گزری اور آخر تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ گولی شیعہ تھی یا سُنی۔

One Response

  1. humaira ashraf

    تعلیم کا بنیادی مقصد شعور کی بالیدگی ہے لیکن افسوس کہ تعلیم بھی ہمارا کچھ نا بگاڑ سکی۔ بلکہ اخلاقی تنزلی مین اضافے کا سبب بنتی رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے دست دراز گریبانوں سے لے کر گردن دبوچنے اور سانس روکنے تک آ پہنچے۔ جہاد بالسیف جو جہاد کی مخصوص صورتوں میں ہی ایک قسم تھی وہی کل جہاد کہلائی۔ ذاتی تفاخر اور شخصیت پرستی نیز عناد اور مخاصمت ہی ان تمام شورشوں کی بنیاد ٹھہرے جو دین کا نام لے کر شروع کی جاتی رہی ہیں۔ اور لوگوں سے جینے کا حق چھینتی رہی ہیں۔

    کم علمی اور کم فہمی اور دماغ سے نا سوچنے کی عادت بھی اس سب کا ایک بنیادی سبب رہی ہے۔ توتے کی طرح جو سبق کوئی رٹا دیتا ہے بے سوچے سمجھے لوگ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور وفور جوش سے اس قدر ابل پڑتے ہیں کہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ مقابل موجود ہستی بھی انسان ہے اور اس کی جان کی حرمت کعبے کی حرمت سے بھی بڑھ کر ہے۔

    نا خدا صرف کسی مخصوص فرقے جماعت یا مذہب کا ہوتا ہے نا ہی زندگی خدا صرف ایک مخصوص فرقے جماعت مسلک یا مذہب کے لوگوں ہی کو عطا کرتا ہے اور نا ہی موت ہی صرف کسی ایک فرقے جماعت مسلک یا مذہب سے مخصوص ہے۔ سب انسان ایک ہی سانچے میں ڈھلے گوشت پوست کے کم و بیش ایک سی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ تکلیف اور درد کا احساس جینے کی خواہش بھی سب میں ایک سی ہوتی ہے پھر کیوں اپنے عقیدے اور سوچ کے فرق کی وجہ سے دوسرے انسان کو ایذا دینا اور جان سے مار دینا ہی روا رکھا جاتا ہے۔

    سوچ کے کئی در وا کرتی بہت اچھی مختصر کہانی ہے۔ کاش کہ اس کے پیغام کو سب سمجھ سکیں اور آگے بڑھا سکیں۔

    جواب دیں

Leave a Reply

%d bloggers like this: