وہ آج کل تہہ خانے میں رہتا ہے اور میں دھرتی کی سطح ہمورا کرتے ہوئے بستیاں بساتا ہوں۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ خود تہہ خانے میں رہتا ہے یا کسی نے اسے وہاں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ کون ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں، وہ میرا دوست ہے۔ میرے جنم کے ساتھ ہی اس کا بھی جنم ہوا اس حساب سے وہ میرا ہم عمر ہے۔ ہم نے ایک لمبا عرصہ ساتھ گزارا ہے ۔ تاریخ کا طویل سفر ہم نے ایک ساتھ دیکھا ہے، جنگیں دیکھیں، خون کی ہولی دیکھی، بھائی کو بھائی کے ہاتھوں مرتے دیکھا، باپ کے سامنے بیٹی کی عزت کو تار تار ہوتے دیکھا۔ ہم نےاجالوں کا سپنا دیکھا ، سچ کا ساتھ دینے کا سپنا دیکھا ، بھوک و افلاس کو ختم کرنے کا سپنا دیکھا اوردنیا کو جنت بنانے کا بھی لیکن ہمارا کوئی سپنا حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔ کیوں کہ وہ تہہ خانے میں چلا گیا اور میں دھرتی کی سطح ہموار کرنے، بستیاں بسانے اور اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے میں جت گیا۔
بھگوان کو آج میں نے برسوں بعد دیکھا تھا اورمیں اسے پہلی نظر میں پہچان گیا کہ یہ تووہی ہے جس کا جنم میرے ساتھ ہواتھا، لیکن آج مجھے وہ ضعیف لگ رہا تھا۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ کیا وہ واقعی بوڑھا ہو گیا ہے یا تہہ خانے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ مجھے ایسا دکھا ئی دے رہا ہے۔آج اچانک اسےسامنے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ،” تم کہاں رہے؟ کہاں گم ہو گئے تھے؟ اور تم یہاں تہہ خانے میں کیا کر رہے ہو ؟ لیکن اس نے میرے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا۔ میں نے اس سے پھر پوچھا ‘کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں تمہارا دوست اور ساتھی منو(آدمی) ہوں۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر پوچھا،” تم یہاں کیسے آگئے؟” میں نے اسے بتایا کہ باہر اچانک آجانے والی آندھی نے مجھے اس تہہ خانے میں اترنے پر مجبور کر دیا۔میں نے اسے بتایا کہ اس کی بنائی ہوئی دنیا تباہ ہو رہی ہے ۔میں پناہ گاہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھاتو مجھے یہ تہہ خانہ نظر آیا۔(جس کا دروازہ بھی آندھیاں اکھاڑ کر پھینک چکی ہیں) اور میں اندر چلا آیا۔ اس نے میری بات ان سنی کرتے ہوئے پھر مجھ سے پوچھا ’ آندھی میں تمہیں کوئی اور پناہ گاہ نہیں ملی جو یہاں آ گئے؟ میں نے اسے جواب دیا،” میرے پاس اس پناہ گاہ کے سوا اور کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں تھی۔”
اس نے مجھ سے کہا،” تم ہمیشہ میرے پاس ایسی ہی حالت میں آتے ہو۔ پہلے بھی تم سیلاب اور زلزلوں سے خوفزدہ ہو کر چلے آتے تھےاور اب بھی ؟”میں اس کے حافظے پر حیران بھی تھا اور شرمندہ بھی۔ میں نےاپنی شرمندگی کو چھپانے کے لیے خوشامد کا سہارا لیا ،” ہاں ہاں تو کیا ہوا، دوست ہی دوست کے پاس جاتا ہے۔” اس نے کہا،”جب آندھی تھم جائے گی اور تم اپنے گھر لوٹ جاؤگے توتب تم مجھے کہاں یاد رکھو گے، تم یقیناً میری طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھو گے۔”
مجھے اس کی بات سن کر شرمندگی بھی ہوئی اور جھنجھلاہٹ بھی محسوس ہوئی لیکن میں نے اپنے جذبات کو چھپالیا اور اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ذرا توقف کے بعد میں کہنے لگا،” نہیں اب ایسا نہیں ہوگا۔”
وہ اب بھی میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا ،میری بات سن کر وہ ہنس دیا اور کہنے لگا، "اچھاتو اس بار کیا ہوگا؟” میں نے فوراً کہا ،” میں تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا،تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔”
وہ بولا،” یہ بات تم نے پچھلی بار بھی کہی تھی۔ ” ایسا کہتے ہوئے اس نے اپنے لہجے کا طنز چھپانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ میں اس کی یہ بات سن کر آگ بگولا ہو گیا اور کہنے لگا ،” تم ہمیشہ ملنے پر پرانی باتیں کیوں یاد دلاتے ہو؟میں کہہ رہا ہوں نا کہ اب تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا۔ "وہ میری بات سن کر چپ ہو گیا۔ اور میں جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میں جتنا وقت تہہ خانے میں رہا، بھگوان نے میری طرف نہیں دیکھا ۔ میں کافی دیر وہاں بیٹھا رہا . آندھی تمھی تومیں چپ چاپ دبے پاؤں تہہ خانے سے دور چلا آیا، ہموار زمین کی بستیوں کی جانب۔

Leave a Reply