Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

کائناتی گرد میں عریاں شام

اسد فاطمی

اسد فاطمی

17 اپریل, 2024

نام کتاب: کائناتی گرد میں عریاں شام (نظمیں)
مصنف: زاہد امروز
صفحات: ۱۱۰
قیمت: ۲۰۰ روپے
ناشر: سانجھ پبلیکیشنز، ۴۶/۲ مزنگ روڈ، لاہور

اردو شاعری کے لیے یہ بات ایک نیک شگون ہے کہ شعراء کی نئی پود کافی حد تک غزل بمقابلہ نظم کے “موازنہ٫ انیس و دبیر” سے باہر آ گئی ہے اور نظم، اپنے نت نئے اسلوبیاتی تجربات کے ساتھ، غزل کی ساکھ کو متاثر کیے بغیر نئی تخلیقی آوازوں کے ہاں اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے۔ اگر آپ بھی نظم کے کشتگان میں سے ہیں اور بَل دار طرز بیان، تازہ دم موضوعات اور شاعری میں نئے مصورانہ نقوش کی ٹوہ میں رہتے ہیں، تو زاہد امروز کی نظموں کا تازہ مجموعہ آپ کے لیے لکھا گیا ہے۔ اگر پابلو نیرودا کی نظموں کے تراجم کے مجموعے “محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” کو شمار نہ کیا جائے تو زیر نظر کتاب “کائناتی گرد میں عریاں شام” طبعزاد نظموں میں “خودکشی کے موسم میں” کے بعد زاہد امروز کا دوسرا شعری پڑاو ہے۔
اس تازہ شعری مجموعے میں زاہد امروز خود سے وابستہ سبھی اسالیبی، موضوعاتی، حسیاتی اور تخلیقی وعدے نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ مجموعہ چوالیس مختلف نظموں پر مشتمل ہے۔ ان نظموں میں زاہد امروز کھڑکی میں کھڑا چائے کی چسکی میں اپنے باطن کی دقیق وارداتوں پر گفتگو کرتا ہوا نظر آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اطراف کے معمولی اور غیرمعمولی مناظر کو مصوری کے شاہکاروں کی طرح ایک ایک کر کے اپنی سطروں کے بیچ پروتا چلا جاتا ہے۔ یوں نظم اپنا دائرہ مکمل کرنے تک شاعر کے ظاہر و باطن کی ایک باتصویر کہانی کی شکل میں قاری پر ظاہر ہو جاتی ہے۔
نظم “تم مسجد کے سائے میں سوکھ جاو گے” محرابوں کی فراری عافیت سے پرے زمین اور سماج کی کڑوی سچائیوں کو چکھنے اور نئے بہاریں پھول چننے کی دعوت دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ برکت اللہ کی چکی اپنے عصری شعور اور تازگی کے ساتھ کبیرے کی گمشدہ چکی کی بازیافت ہے۔ “رات اور چاند کی سنگت میں” میں شاعر نے قاری کو ایک خاموش رات کے اداس کر دینے والے ایک تجربے میں شریک کیا ہے۔ “زمین کے ہنکارے” دنیا کے ساتھ خیرخواہانہ بیزاری کے کامیاب ابلاغ کے ساتھ ساتھ منفرد بصری تاثرات کی حامل ہے۔ “غیر متوقع بچے کی متوقع موت” اپنے ہونے کا رزمیہ بھی ہے اور مرثیہ بھی۔ اسی طرح “اچھوت خواب کی برہمن آنکھیں” اسی ہونے کی پہچان کی ٹوہ میں ہیں۔ “طالب اور طلب کا خواب” ایک ڈراونے خواب کی چونکا دینے والی واردات ہے۔ “یک سمتی سڑک سے مکالمہ” اور “قدیم دُھن بالوں میں انگلیاں پھیر رہی ہے” ایک طرح سے صورتِ حال اور یادِ ماضی کے درمیانی کواڑ میں کھڑے ہو کر کہی گئی خوبصورت نظمیں ہیں۔
“حسین عورت کی خوشحال شادی” اپنے منفرد موضوع سے قطع نظر، اپنے آہنگ میں رخصتی کے گیت جیسی حزنیت اور یاس لیے ہوئے ہے۔ “دوسرے گوتم کا گیان” ایک جوگی، جسم کے روگی کے بادلوں کے سائے میں جنم لینے سے لے کر مُکت ہونے تک کی کتھا ہے۔ “قصہ ایک مینڈک کا” اپنے بیان میں ایک انفرادیت لیے ہوئے سماج کے ایک عمومی تجربے کو بیان کرتا ہے۔ “آوازوں کا عجائب گھر” ایک طویل نظم اپنے شاعرانہ محاسن کے ساتھ ساتھ ان گنت مسحور کن صوتی اور بصری تاثرات کی حامل ہے۔ صدر ہمیں گلے کیوں نہیں لگاتے، قحط زدہ بستی کا گیت، قومی قاتلوں کے لیے سپاس نامہ، جیسی نظمیں سماجی دردمندی اور دھرتی کے دکھوں پر گاہے حزنیہ، گاہے طنزیہ انداز میں اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتی نظر آتی ہیں۔ تم محبت نہیں کرتے، اس محبت کا کیا مصرف، میں اسے خشک کپڑے پہننے سے پہلے ملوں، میں دشمن کو زخمی نہیں کر سکا، وہ مسکراہٹ میرے لیے نہیں، تم جا چکی ہو، اور “نارنجی چاند میں خزاں کا پھول” ایسی نظمیں محبت، وصل، فراق، مجاز، تنہائی اور جنسیت جیسے بسیط موضوعات پر بات کرتی ہیں لیکن زاہد کی جنسیت بیمارانہ نہیں ہے۔
زاہد امروز کی شاعری میں معنوی انحرافات نہایت سلیقے سے کیے گئے ہیں، وہ معنی کے مناسب چور دروازوں سے جگہ پا کر کئی ایک رنگ جوڑتا اور نہایت گنجلک استعارہ وضع کرتا ہے۔ اس کی نظموں میں استعاروں کی بھرمار ہے لیکن نثری نظم کا پاٹ اتنا چوڑا ہے کہ یہ سب استعارے پوری روانی کے ساتھ نظم میں بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے بصری تاثرات نظم کو ایک دیدہ زیب کولاج کا سا حسن دیتے ہیں، جسے وہ موضوع اور اپنے خارجی محل وقوع سے خوشنما رنگ چن کر وضع کرتا ہے۔
کتاب کا سرورق مناسب ہے اور کتابت و طباعت ہر اعتبار سے معیاری ہیں۔ مشمولات، طباعت کے معیار اور قیمت کے باہمی تناسب کو دیکھا جائے تو یہ مجموعہ بجا طور پر خرید کر پڑھے جانے کے لائق ہے۔