Laaltain

ہمارے لیے لکھیں۔

badaltay-shehar

قصور (بدلتے شہر)۔

اسد فاطمی

اسد فاطمی

17 اپریل, 2024

badaltay-shehar
شہر قصور کا ذکر بھی جی سے سننے والوں کے لیے ایسا سب رنگ اور دلآویز ہے کہ موضوع بدلنے کے لیے کسی بہت بڑے تمدنی نام کو بیچ میں لانے سے بات بدلتی ہے۔ ایک بھرپور تاریخ کے حامل اس شہر کی شناخت بننے والے مشاہیر کی فہرست کسی بھی دوسرے عظیم شہر سے کم نہیں ہے۔ بلھے شاہ کی مستانہ کافیوں نے اسے آتش فشانی دہانوں کا شہر بنایا ہے، عہدِ اکبری میں تان سین کی جاگیر رہنے والا، استاد بڑے غلام علی خاں اور میڈم نور جہاں کا یہ شہر پانچ دریاؤں کے بیچ تانپورے کے منجھلے تار کی طرح ہے۔ سیاست و حکمرانی میں سیاسی فطانت سے لے کر محلاتی سازشوں تک، قصور کی تاریخ ایک نصابی حوالے کی مانند ہے۔
ریڈیو پر کھیم کرن فتح ہونے کی خبر نشر ہوئی تو تقسیم کے وقت کھیم کرن سے ہجرت کر کے قصور آباد ہونے والے خاندان پیدل، سائیکلوں اور گھوڑوں پر بیٹھے جوق در جوق اس قصبے میں واقع اپنے پرانے گھروں کو پہنچ گئے۔
شہر کے معرض وجود میں آنے کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا بہت قبل از وقت ہو گا، تاہم رامائن میں ہے کہ شری رامچندر جی نے اپنے بیٹے کشو کو نوازنے کے لیے ایک تیر پھینکا جو اس جگہ آن گرا اور رام نے یہ جگہ کشو کو جاگیر کے طور پر عطا کی، اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسی نسبت سے اس کا نام کسور پڑا۔فیروز پور روڈ پر واقع ٹبہ کمال چشتی کا اونچا خرابہ، ایک پرانے شہر روہےوال کا پتہ دیتا ہے، عہدِ اکبری میں قصور روہیوال کا ایک قصبہ تھا جو اکبر نے تان سین کو عطا کیا تھا۔ ایک محلاتی بدگمانی کو رفع کرنے کی غرض سے بعد میں یہ علاقہ مغل فوج کے ایک علی زئی افغان جرنیل کو بخشا گیا۔ افغان فوجی افسروں کے یہاں آباد ہونے سے شہر کی معلوم تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ پٹھانوں نے اس جگہ قصر نما ۱۲ قلعے (باراں کوٹ) تعمیر کیے۔ اس کے بعد یہ شہر ہندوی لفظ کسور سے، عربی کا ‘قصور’ کہلانے لگا۔اس عہد میں رند قبیلے کے ایک بلوچ سورما پِیرا بلوچ کی پٹھانوں کے ساتھ چشمک علاقے کی لوک داستانوں کا اہم موضوع ہے۔ پِیرا بلوچ رات کے اندھیرے میں پٹھان امراء کے محلات میں شب خون مارتا، اور ساتھ میں اپنی غریب پروری کی وجہ سے عام لوگوں میں مقبول بھی رہا۔ پٹھانوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں پیرا مارا گیا اور قصور کے بارہ قلعوں کی پرتعیش زندگی میں امن و سکون کے ایک اور عہد کا آغاز ہوا۔ تاہم لوک رزمیوں (واراں) میں آج بھی پِیرا کو ایک ہیرو کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔سکھ قبیلے بھنگی کی تاراج کے عہد کو ‘مِسل دور’ کہتے ہیں۔ مسل دور بھی یہاں کے پٹھان امراء کے لیے بے سکونی کا ایک باب ہے۔ یہ عہد قصورکی تاریخ میں بھاری سیاسی اور ثقافتی بحران کا زمانہ ہے۔ قصور میں سنگھا شاہی رسوخ ملتان کے نواب مظفر خاں سدوزئی کے ساتھ رنجیت سنگھ کی جنگوں کے پس منظر سے شروع ہوتا ہے جب یہاں کے ایک جرنیل قطب الدین خاں کو رنجیت سنگھ نے ملتان کے سدوزئیوں کے خلاف اس کا ساتھ دینے کا کہا اور قطب الدین نے انکار کیا۔اس بات پر رنجیت سنگھ قصور کے رؤسا پر چڑھ دوڑا اور قطب خان کو شکست کھا کر رنجیت کا کہا ماننا پڑا۔ قطب خاں کی نصرت میں رنجیت سنگھ نے ملتان کا قلعہ فتح کیا اور اس کی مغل جاگیریں بحال کر دیں۔قصور میوزیم میں تاریخ کے مختلف ادوار اور ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
qasoor
قصور میوزیم میں تاریخ کے مختلف ادوار اور ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔

انیسویں صدی کے وسط میں قصور کا قلمرو انگریزوں نے سکھوں سے چھین لیا۔ برٹش دور میں یہاں کہ پٹھان رؤسا کے حکومت کے ساتھ نہایت دوستانہ روابط رہے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران رؤسائے قصور نے جنگ کے لیے خطیر چندے اکٹھے کیے اور سرکاری طور پر انہیں بھاری مراعات اور عہدوں سے نوازا گیا۔ جلیانوالہ باغ کے واقعےپر قصور میں نہایت پرجوش عوامی ردعمل سامنے آیا۔ ان مظاہروں کو قصور جلوس ایجی ٹیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مقامی امراء نےاسکولوں سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ کر پنجروں میں قید کر دیا اور ان پر کوڑے برسائے۔ برطانوی عہد میں قصور کے گرد ریل کی پٹڑی کا جال بچھایا گیا، جو اسے امرتسر، فیروزپور، لودھراں اور رائیونڈ سے ملاتی تھی۔ اس عہد میں قصور کو ضلع لاہور کی ذیل میں تحصیل کا درجہ ملا اور نئی طرز کے بنیادی انتظامی ادارے،کچہریاں اور یونین کونسل قائم ہوئے۔تقسیمِ ہند کے بعد یہاں کی تقریباً چوتھائی بھر غیرمسلم آبادی نے شہر چھوڑ دیا، جبکہ ہندوستان سے فیروزپور، امرتسر اور میوات وغیرہ سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد یہاں مہاجر بستیوں میں آباد ہوئی۔ تقسیم کے وقت کا یہ المناک باب بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب پاکستانی پنجاب کے مختلف شہروں سے ہجرت کر کے بھارت جانے والے تارکین قصور بارڈر کے راستے ملک چھوڑ رہے تھے، قصور شہر کے ریلوے اسٹیشن پر تارکین سے کھچاکھچ بھری تین ٹرینوں کو روک کرمسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں فتح ہونے والا
بھارتی قصبہ کھیم کرن تقسیم ہند سے قبل قصور کے مضافاتی قصبات میں شمار ہوتا تھا۔ ریڈیو پر کھیم کرن فتح ہونے کی خبر نشر ہوئی تو تقسیم کے وقت کھیم کرن سے ہجرت کر کے قصور آباد ہونے والے خاندان پیدل، سائیکلوں اور گھوڑوں پر بیٹھے جوق در جوق اس قصبے میں واقع اپنے پرانے گھروں کو پہنچ گئے۔ مفتوحہ شہر کھیم کرن کے مکان خالی پڑے تھے، لوگوں نے اپنے سابقہ گھروں سے بچ رہے سامان، کواڑ، شہتیر، یہاں تک کہ اینٹیں، اپنے آبائی گھروں کی یادگار کے طور پر ساتھ لیں اور قصور میں واقع اپنے نئے گھروں میں سجا دیں۔ کھیم کرن سے قصور آئے ان گھرانوں کے لیے جنگِ ستمبر ۱۹۶۵ء میں ہاتھ آنے والا سب سے قیمتی سرمایہ یہی ہے جو آج بھی ان کے گھروں میں محفوظ ہے۔ ۱۹۶۷ء میں قصور کو ضلع کا درجہ دیا گیااور شہرِ قصور اس کا انتظامی مرکز قرار پایا۔ ضلعی مرکز بننے کے بعد شہر میں ضلعی حکومتی دفاتر کے قیام اور نئی تعمیرات کے بننے سے شہر کی ظاہری صورت میں صفائی آنے کی ایک امید قائم ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی افسروں کی گنی چنی گزرگاہوں کے علاوہ شہر کی شاہراہیں اور گلیاں دھول اور کیچڑ ہوا میں اچھالتی رہیں۔نصف دہائی قبل قصور میں تعمیراتی ترقی کی ایک جھلک واضح دیکھنے میں آئی ہے۔ تین سال قبل قصور کو لاہور سے ملانے والی جرنیلی سڑک، فیروزپور روڈ کے حالیہ کشادہ تر اور دو رویہ سڑک میں تبدیل ہونے سے قصور کا صوبائی و صنعتی دارالحکومت لاہور سے فاصلہ نہایت سکڑ گیا ہے۔ ساتھ ہی شہر کی بیشتر نقل و حرکت اور تجارتی اہمیت کی حامل شاہراہوں کی حالت میں بھی بہتری آنے سے یہاں کی صنعت اور روزمرہ سرگرمیاں بہتر معیشت کی جانب راہی ہوتی نظر آتی ہیں۔
قصور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مغرب میں واقع علاقہ کوٹ مراد خان رقص وموسیقی کے حوالے سے قصور کی شناخت رہا ہے۔ افغان عہد میں کلاسیکی گائیکوں کا ایک قبیلہ، جس کا سردار مراد خان تھا، اس جگہ آباد ہوا تھا۔ اس علاقے نے برصغیر پاک و ہند کی موسیقی میں استاد غلام حیدر خاں، استاد بڑے غلام علی خاں، استاد چھوٹے غلام علی خاں، ظہور بخش قصوری، ملکۂ ترنم نور جہاں، ظلِ ہما، عذرا جہاں اور ایسے لاتعداد ناموں کا اضافہ کیا۔
قصور کی روایتی صنعتوں میں چمڑے کے جوتے شہر کی خاص پہچان ہیں، لوک ادب و موسیقی میں بھی “جتی قصوری” کا حوالہ نفاست اور وقار کی علامت کے طور پر آتا رہا ہے۔ پارچہ بافی میں یہاں کے جولاہے (انصاری) ایک صدیوں پرانی روایت کے وارث ہیں۔ اس صنعت میں کپڑے کی قسم ‘بافتہ’ کو خاص امتیاز حاصل ہے جس میں ایک ریشم کے تار کے ساتھ سوت کے ایک تار کو بُنا جاتا ہے۔ گرم اوڑھنیوں میں یہاں کے جولاہے کھیس (مجنوں) بنانے میں خاص کمال رکھتے ہیں۔ جانوروں کی کھال سے چمڑا تیار کرنے کی قدیم صنعت بھی قصور کی خاص شناخت ہے۔چمڑے کی صنعت کی وسعت اور قدامت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدیوں سے تازہ گیلی کھال سے ماس اور خون کی باس نکالنے، بالوں کی صفائی وغیرہ سے لے کر قابلِ استعمال سوکھے چمڑے کی تیاری تک کے مراحل میں جو خاص کیمیاوی مواد برتا جاتا ہے، اس تمام فاضل مواد کی غیر دانشمندانہ نکاسی کی وجہ سے قصور کی زمین کے نیچے موجود پانی نہایت آلودہ ہو چکا ہے۔اس پانی کو پینے اور دیگر ضروریات میں استعمال کرنے کی وجہ سے قصور میں کینسر کے مریضوں کی شرح ملک بھر میں سب سے ذیادہ ہے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران یہاں پانی کا ایک بڑا ٹریٹمنٹ پلانٹ قائم کیا گیا تھا جو شہر بھر کو پینے کا صاف پانی مہیا کرتا ہے۔ اس اقدام کی وجہ سے صورتِ حال کی سنگینی میں بہت کمی واقع ہوئی۔ لکڑی کی مصنوعات کی قدیم صنعت یہاں خاتمے کے دہانے کو پہنچ چکی ہے۔ رنگلے پایوں والی کھاٹ، مدھانیاں، رنگلے پیڑھے اور شوخ رنگوں والے لٹو ایک مدت تک قصور کی خاص شناخت رہے ہیں۔ مغل عہد کے ایک سِکھ مہتمم کی نسل یہاں ‘مہتم’ برادری کے نام سے جانی جاتی ہے جن کا موروثی پیشہ چھج بانی (سرکنڈے سے بننے والی مصنوعات) تھا۔ چِک سازی، مصلے اور ایسی دیگر اشیاء بنانے کا ہنر اس خاندان سے یادگار ہے۔جھی ور قبیلہ خوشنما رنگوں اور نسلوں کے پرندوں کا شکار اور فروخت کا کام کرتا ہے۔ کمانگر ذات کے لوگ پرانے وقتوں میں تیر، کمانیں اور ترکش بنانے کے پیشے سے وابستہ تھے۔ ان سب پرانی صنعتوں میں سے جو صنعتیں جدید انڈسٹری کے ساتھ مطابقت پیدا کر پائیں، باقی رہیں۔ باقی تمام صنعتیں آہستہ آہستہ معدوم ہو چکی ہیں، یا معدومی کے دہانے پر ہیں۔قصور کا تاریخی ریلوے سٹیشن جہاں تقسیم کے وقت سرحد پار کرتے ہوئے سکھ اور ہندوتارکین کی تین ٹرینیں روک کر مسافروں کا قتلِ عام کیا گیا
railway-station

قصور کا تاریخی ریلوے سٹیشن جہاں تقسیم کے وقت سرحد پار کرتے ہوئے

سکھ اور ہندوتارکین کی تین ٹرینیں روک کر مسافروں کا قتلِ عام کیا گیا

کھانے پینے کے حوالے سے قصوریوں کی حسِ ذائقہ نہایت قابلِ رشک ہے۔ ملک بھر میں قصوری فالودہ کی ایک جداگانہ شناخت ہونے کے ساتھ ساتھ قصوری اندرسا، بھلے پکوڑیاں، اوجڑی اور ناشتے میں دہی قلچہ نہایت مرغوب سمجھے جاتے ہیں۔ قصور کے روایتی گھرانوں میں شام کا
کھانا گھر پر پکانے کا رواج بہت کم ہے۔کپاس اور مرچ کی کاشت یہاں نواحات کی روایتی فصلیں ہیں لیکن گزشتہ تین سے چار دہائیوں میں آلو، اروی، میتھی، ہلدی اور مکئی کی کاشت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ملنساری، زندہ دلی اور محنت یہاں کے لوگوں کے امتیازی اوصاف ہیں، دوسری طرف قصور چونکہ صدیوں سے مختلف طاقتوں کی کشمکش اور حویلیوں، قلعوں میں محلاتی سازشوں کا گڑھ رہا ہے، اسی وجہ سےروایتی اذہان کے زبانی حوالوں میں مکر، سیاست اور دورویہ روش کے منفی خواص بھی متوازی طور پر قصور کے لوگوں سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ ثقافتی طور پر اگرچہ قصور لاہور سے بہت مشابہت رکھتا ہے، تاہم قصور کی بسنت ایک مدت تک لاہور میں منائے جانے والے بسنت کے تہوار کے برابر، اور بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ والہانہ طور پر منائی جاتی رہی ہے۔ قصور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مغرب میں واقع علاقہ کوٹ مراد خان رقص وموسیقی کے حوالے سے قصور کی شناخت رہا ہے۔ افغان عہد میں کلاسیکی گائیکوں کا ایک قبیلہ، جس کا سردار مراد خان تھا، اس جگہ آباد ہوا تھا۔ اس علاقے نے برصغیر پاک و ہند کی موسیقی میں استاد غلام حیدر خاں، استاد بڑے غلام علی خاں، استاد چھوٹے غلام علی خاں، ظہور بخش قصوری، ملکۂ ترنم نور جہاں، ظلِ ہما، عذرا جہاں اور ایسے لاتعداد ناموں کا اضافہ کیا، جبکہ کلاسیکی رقص میں استاد فلوسے خاں جیسے لوگ یہاں پیدا ہوئے۔سخن پروری کے حوالوں میں یہ بابا بلھے شاہ کا شہر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وارث شاہ نے بھی اپنی ابتدائی فنی زندگی اسی شہر میں گزاری تھی۔ وارث شاہ کے استاد و مرشد مخدوم قصور سے تعلق رکھتے تھے۔ اندرون شہر کے موری دروازے کی جامع مسجد میں دو حجرے موجود ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک حجرے میں بابا بلھے شاہ مقیم رہے، جبکہ دوسرا ایک عرصہ تک وارث شاہ کی قیام گاہ رہا۔ ادب کی ان عظیم روایتوں کے تسلسل میں پنجابی زبان کی معاصر شاعری میں بھی قصور نے لاتعداد عظیم نام پیدا کیے ہیں۔ پنجاب کی فلم انڈسٹری لالی وڈ کے قیام کے وقت سے ہی قصور کے فنکاروں کا اس میں ایک گرانقدر حصہ رہا ہے۔ایوب خان کے عہدِ صدارت میں معروف فلم ‘جال’ کی پاکستان میں نمائش پر جو تنازعہ کھڑا ہوا، اس کے روح رواں قصور کے معروف فلمساز یوسف خان تھے۔ ان مظاہروں کو ‘جال ایجی ٹیشن’ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس ایجی ٹیشن کا مقصد پاکستانی فلمی صنعت کی بقاء اور خودانحصاری کے لیے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ اس تنازعے میں فلمی صنعت مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ اور بڑی تعداد میں فنکاروں اور فلم بینوں کو زدوکوب کیا گیا۔مزار بابا شاہ جمال کے قریبی چوک کا ایک منظر
مزار بابا شاہ جمال کے قریبی چوک کا ایک منظر
اس شہر نے ترقی، تمدن اور تہذیب کے مراحل کی کم و بیش سبھی ناہمواریوں کو تجربہ کیا ہے۔اس لیے قصور اپنے آغوش میں ایک بڑے شہر کی سی رنگا رنگی اور چھوٹے شہروں والی سادگی اور روایتی پسندی، ہر دو ذائقے نہایت حسین توازن کے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی، معاشی اور ثقافتی تاریخ کے حوالوں یا عصری احوال میں سے قصور کو منہا کر کے ایک مکمل رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔Shah-jamal

مزار بابا شاہ جمال کے قریبی چوک کا ایک منظر