پاکستان جو اس وقت دہشتگردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ آگ ہمارے ناعاقب اندیشن حکمرانوں کی سابقہ کئی دہائیوں پر محیط اپنی غلط داخلی اور خارجی پالسیواں کا شاخسانہ ہے جو انہوں نے بیرونی آقاوں کے حکم پر نافذ کیں اور پیارے ملک میں اس شجر خبیثہ کی آبیاری کی اور آج وطنِ عزیز آگ و خون میں تر نظر آ رہا ہے ۔
پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ان غیر جمہوری فیصلوں سے ہوا ہے جو آج تک قومی سلامتی کے نام پر کئے گئے ہیں۔ چاہے وہ 48 ء میں قبائلی لشکر بھیجنے کا فیصلہ ہو یا آپریشن جبرالٹر کا، چاہے یہ اقدام بنگالیوں کے استحصال اور ان کے خلاف فوج کے استعمال کا ہو یا بلوچوں کی پاکستان میں زبردستی شمولیت اور ان کے خلاف فوج کشی کا ہو۔پاکستانی حکومت کی طرف سے سرحد پار دراندازیوں کی حوصلہ افزائی بھی ہماری موجودہ مشکلات کا باعث ہے۔ ضیاء دور میں ہم نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے، جہاد برآمد کرنے اوراسلام دشمن روسی نظام کیمونزم کو نابود کرنے کے لئے جہادی تنظیموں کی جو پنیری بوئی تھی وہی زہریلی فصل اب پک کر تیار ہوچکی ہے ۔ ہمارے اپنے مجاہد ایک عالمگیر خلافت کے قیام کے لئے ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے بدن پر ہمارے اپنے ہی ہتھیاروں کے لگائے زخم ہیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمران پھر بھی نہیں سیکھ پائے اور ابھی تک اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ یہ ہمارے دوست ہیں یا دشمن جو کہ اب تک ہزاروں بے گناہ معصوم پاکستانیوں کا قتل عام کر چکے ہیں۔ جنرل ضیاء کے دورِ حکومت اور پھر اس کے بعد آنے والی حکومتوں نے جس طرح طالبانی فکر کی آبیاری اورجہادی تنظیموں کی مددسے افغانستان اور کشمیر کو فتح کرنے کی سر توڑ کوششیں کی وہ سب تاریخ کے اوراق پر عیاں ہیں ۔ مشرف دور میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنائی گئی دورُخی پالیسی نے بھی ہمیں مسلح جہادی تنظیموں کے سامنے کم زور کیا ہے جن کے باعث ایک طرف توہم عالمی سطح پر تنہا ہو چکے ہیں دوسری طرف افغانستان میں امن کا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔ہم نے ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوچا کہ جو آگ و خون کا بازار ہم نے افغان بھائیوں کیلئے گرم کر رکھا ہے وہ کسی وقت بھی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
پاکستان میں موجود القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں کی اس جنگ میں شمولیت سے شامی باغیوں کا موقف نہ صرف متنازعہ ہو گیاہے بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گرد گروہوں سے عالمی امن کو مزید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
اندرونی خطرات کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستانی ریاست یو ں لگتا ہے کہ پھر عرب ایران تنازعے میں فریق بن جائے گی۔ سعودی حکومت مبینہ طور پر شامی حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں کیلئے طیارہ شکن میزائل اور ٹینک شکن آلات خریدنا چاہتی ہے تاکہ شام میں سر گرم دہشتگردوں کی قوت میں اضافہ کیا جا سکے۔ سعودی اورپاکستانی حکام کی جانب سے شام میں ایک عبوری حکومت کی تشکیل اور بشاراسد کی معزولی کا مطالبہ پاکستان کو مزید عالمی تنہائی کا شکار کر سکتا ہے- یوں لگتا ہے سعودی عرب پاکستان کو شام کی جنگ میں عملی طور پر دھکیلنا چاہتا ہے ۔ بی بی سی اردو سروس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بر سر پیکار جہادیوں کے گروہ بھی شامی حکومت کے خلاف بر سرپیکار ہیں ۔پاکستان میں موجود القاعدہ اور طالبان دہشت گردوں کی اس جنگ میں شمولیت سے شامی باغیوں کا موقف نہ صرف متنازعہ ہو گیاہے بلکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گرد گروہوں سے عالمی امن کو مزید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ یہ صورت حال کھل کر سلامتی کونسل میں شام کی حکومت کی حمایت کرنے والے ممالک جیسے لبنان، عراق ، ایران ، روس ، اور چین کے لئے پاکستان کی حیثیت مزید متنازعہ کر سکتی ہے ۔ لگتا یہی ہے کہ پاکستانی حکومت سعودی بادشاہوں سے اپنی دیرینہ قربت اور احسان مندی کی وجہ سے عرب دباو کا مقابلہ نہیں کر پارہے جس کی تازہ مثال پاک ایران گیس پائپ لائن جیسے عظیم الشان منصوبے کو امریکہ اور خاص کر سعودی عرب کی مداخلت کی وجہ سے پس پشت ڈال دینا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب پاکستان سے15 ہزار فوجی اپنی شاہی سکیورٹی کیلئے کرائے پے طلب کرنا چاہتا ہے جو کہ یقینًاسعودی شاہی خاندان کے غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدامات کےلئے استعمال ہو سکتے ہیں ۔ ان اقدامات میں سعودی عرب کے اندر اٹھنے والی شہری آوازوں کو دبانے یا پھر احتمال یہ ہے کہ یہ فورس بحرین میں شہری انقلاب کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ افغانستان ، شام اور کشمیر میں امن کے خواہاں حکمرانوں سے پاکستانی عوام یہ سوال پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ کیا حکومتِ وقت نے ان کی جان و مال کی حفاطت کی بھاری ذمہ داری ادا کر دی ہے ، کیا ملک کی سکیورٹی کو در پیش چیلنجز کو پورا کر دیا گیا ہے؟ لہذا موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی فرد کی شخصی خوشنودی کیلئے ملک کے مستقبل کو داوو پر لگانے سے اجتناب کرے اور اس قسم کی خطر ناک اور سنگین حماقت کا ارتکاب کرنے سےباز آ جائے کیونکہ وطن عزیز اب اس قسم کی احمقانہ اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہماری موجودہ صورت حال کے ذمہ دار غیرملکی ہاتھ یا سازشی عناصر نہیں بلکہ ہمارے گزشتہ دہائیوں میں کئے گئے غیر جمہوری اور عالمی امن کے منافی فیصلے ہیں جو آج ہماری ریاست کے وجود کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔

Leave a Reply