Laaltain

عشرہ کیا ہے؟

12 جولائی، 2016
عشرہ دس لائنوں پر مبنی شاعری کا نام ہے جس کے لیے کسی مخصوص صنف یا ہئیت، فارم یا رِدھم کی قید نہیں
عشرہ — دس لائنوں پر مبنی شاعری کا نام ہے جس کے لیے کسی مخصوص صنف یا ہئیت، فارم یا رِدھم کی قید نہیں. ایک عشرہ غزلیہ بھی ہو سکتا ہے نظمیہ بھی۔ قصیدہ ہو کہ ہجو، واسوخت ہو یا شہرآشوب ہو، بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اور تو اور، یہ حمد و نعت کو بهی ویسا ہی مناسب ہے جیسا یہ سلام و منقبت کے لیے موزوں ہے۔ پھر یہ اتنی ہی آسانی یا دشواری سے پابند بھی ہو سکتا ہے، آزاد بھی اور تقریباً اسی طرح بلینک ورس بھی، نثری نظم بھی۔ یا ان میں سے کچھ یا سبھی کا کوئی آمیزہ۔ عشرہ وقت ضائع کرتا ہے نہ جگہ۔ ہاں کبھی کبھی بدل دیتا ہے ایک کو دوسرے میں۔

 

عشرہ دراصل پار سال اسلام آباد میں دھرنوں کے موسم کی دین ہے۔ جب اپنے ہاں کی حقیقی سیاسی سماجی صورتحال کا مضحک- المیہ شاعر کو رلاتا ہنساتا، مبتذل موضوعات پہ ذومعنی اظہار کے لیے برتی گئی یوروپین صنف لمرک کو ایک طرح سے دوہراتا ہوا، متعدد نو-دس-گیارہ سطری تحریروں کی طرف لے گیا جنہیں قبل اس کے کہ کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپانے کی بجائے ملا جلا کر ذاتی اتفاقِ رائے سے عشرے کا نام دے دیا گیا۔ یعنی 2014 کی مون سون میں اترنے والی طویل نظم “شاہراہ-بے دستور” کے فوری بعد جو یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر تھما نہیں۔

 

عشرے کی رج کے گج وج کے مخالفت ہوئی، ایک وقت ایسا تھا جب نئی ادبی برادری دو حصوں میں تقسیم کہی جا سکتی تھی: پرو عشرہ اور اینٹی عشرہ- بلکہ شاید ابھی تک ایسا ہی ہو۔ کبھی ایسے لتاڑا گیا کہ یہ کون سے موضوعات لے کر بیٹھ گئے، کہیں ویسے پچھاڑا گیا کہ ابے یہ کون سی زبان برت ریا اے بھیا! کبھی شاعرانہ غیرت کو جھنجھوڑا گیا کہ حسن کوزہ گر اپنے گھر کی غزل کے دیوار و در کی خبر لے! القصہ، شاعر کو ڈھکے چھپے لفظوں میں صاف صاف بتا دیا گیا کہ۔۔۔آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے!

 

کسی بھی طرح دیکھیں بھالیں۔اس نئی صنفِ سخن کا رخ واضح طور پہ ماڈرن سے پوسٹ ماڈرن کی طرف ہے۔
یوں تو اس کی ایجاد/دریافت کے بعد سے اب تک کوئی نصف درجن زبانوں میں عشرہ لکھا جا چکا ہے تاہم اس صنف کی اصل کامیابی ٹی ٹونٹی-ٹوئٹر جنریشن کے بہتر، نمائندہ تخلیقی اذہان کو اپنی جانب متوجہ کر سکنا ہے۔ ملک کے کئی بڑے تعلیمی اداروں نے اپنے سالانہ ادبی میلوں، مقابلوں میں عشرے کو باقاعدہ شامل کیا۔ نئی نسل کی بڑھتی دلچسپی سے جلنے والوں یعنی ادبی گورا-صابوں کا منہ کالا ہوا، ادب کا بہر حال بول بالا ہوا۔ اس نوعیت بٹا کیفیت کے (زیادہ تر کسی نہ کسی باونڈری سے چھیڑ چھاڑ کرتے مواد اس پر مستزاد) نان-کمرشل کام پر جیتے جاگتے ذہنوں کی ایسی شرکت، کامیابی کی ایسی مہر شاید فی زمانہ۔۔۔ کم کم ملے۔

 

عالمانہ سے لے کر کالمانہ موضوعات تک غیر روایتی پہنچ اور برتاو کو لے لیں یا فکری اور لسانی تنوع کی بات کر لیں یا بے شک دانتوں میں انگلی ڈال کے چپکے پڑے رہیں، غرض کسی بھی طرح دیکھیں بھالیں۔اس نئی صنفِ سخن کا رخ واضح طور پہ ماڈرن سے پوسٹ ماڈرن کی طرف ہے۔ ایک خوش قسمت صنف (میرا لکی کبوتر!) جس کے تتبع نہیں تو تعاقب میں لگ بھگ نصف درجن اصناف پیدا ہو چکیں جو آخری اطلاعات آنے تک بقدرِحرف پھل پھول رہی ہیں. اس لحاظ سے تو عشرہ کم سے کم اردو ادب کی نئی پیڑھی، نئی صدی کی نمائندہ صنف قرار دیا جا سکتا ہے۔ اونج پائی ژان، تہاڈا کیہہ خیال اے؟

 

خالی جھولی

 

ہر گولی کام آئی
کام آئی ہر گولی
یہ کیسی شام آئی
سو گیا تھک کے سوالی
تھک کے سوالی سو گیا
پسٹل ہو گیا خالی
خون سے بھر گئی جھولی
پسٹل خالی ہو گیا
جھولی خون سے بھر گئی
اور قوالی مر گئی

 

ڈونلڈ ٹرمپ بنام صادق خان

 

جامہ تلاشی کے بعد
ہیٹ اور جوتے گیٹ سے باہر جمع کرانے ہوں گے
جامہ تلاشی سے پہلے

 

ننگے پاوں بخوبی چھپ جائیں گے
سفید براق کفن نما برقعے میں

 

سر پر فٹ آئے گی ڈھیلی ڈھالی کالی ٹوپی
آنکھوں کے عین مقابل سوراخ سے
صاف نظر آئے گا ان-ھنیرا

 

چاہے تھام کر چلے وہ تازہ بجھی ہوئی صلیب
جس پر دراصل اسے لٹکا ہوا ہونا چاہئیے تھا

 

ایدھی

 

ایک سادہ سے آدمی کے لیے
زندگی کتنی خوبصورت تھی
ایک مردہ سوسائٹی کے لیے
گورکن کی بڑی ضرورت تھی
اس کی آنکھوں سے دیکھنے والے
ایک دو تین چار۔۔۔ زیادہ ہیں
کم ہیں آپس میں بانٹنے کے لیے
غم، خوشی سے ہزار زیادہ ہیں!
زندگی، موت سے ڈرے تو نہیں
ایدھی صاحب کوئی مرے تو نہیں

 

ہمارے ہاں-نہیں-ہاں

 

رجعت پسند اپنا تعارف ترقی پسند کہہ کر کراتے ہیں
رہے ترقی پسند تو وہ لبرل کہلانے کو ترجیح دیتے ہیں
لبرلوں کو، سامنے کی بات، اپنے سیکولر کیریکٹر پر بیحد اصرار ہے
کچھ اتنی ہی آسانی سے سیکولر خود کو سوشلسٹ سمجھتے ہیں
ضروری نہیں منہ سے کہے، سوشلسٹ اپنے تئیں انارکسسٹ سے کم نہیں سمجھتا
وقت پڑے تو ایک سچے پکے انارکسی کو صوفیءِ با صفا بننے سے کون روک سکا ہے
سیدھے سادے صوفی کی ڈی لکس ایڈیشن پیر میں تبدیلی پر کوئی قدغن بھی نہیں
پیرانِ کرام تو سر تا پا ریڈی میڈ سیاستدان ہوتے ہی ہیں
ایسے سیاستداں اور بھی کم گزرتے ہیں جو قومی لیڈر نہ واقع ہوئے ہوں
بھلا وہ بھی کوئی لیڈر ہے جسے رجعت پر باقاعدہ بےقاعدہ اصرار نہ ہو

 

مزید عشرے پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

One Response

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *