Laaltain

ریگ مال سلسلے کی بقیہ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔

وہ کنویں کے کنارے پر جھکا کافی دیر سے لمبے سانس لے رہا تھا۔ پیاس اور خستگی نے رسی کو اس کے ہاتھوں پر کچھ اور بھاری کردیا تھا۔

“شاید مشکیزہ بھر گیا ہے”، اس نے رسی کو کھینچنا شروع کیا۔ مشکیزہ اوپر لوٹتے ہوئے اپنے اصل وزن سے کچھ زیادہ بھاری تھا۔ وہ مشکیزے کو نکال کر اپنے چہرے کے آگے معلّق رکھتے ہوئے اسے گھورنے لگا۔ پیچھے راہ میں پڑنے والےسبھی کنوؤں کی طرح یہ کنواں بھی کب کا خشک ہو چکا تھا، مشکیزے پر نمی کا شائبہ نہیں تھا۔

“پھر یہ اس قدر بھاری کیوں لگا؟” اس نے مشکیزے کو ہاتھ سے پلٹا تو اس پر سے ایک بڑا سیاہ عقرب لوٹتا ہوا اس کے ہاتھ پر چڑھ آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے ہاتھ جھٹکتا، عقرب کا دوپھلا نیش اس کی ہتھیلی کی پشت پر پیوست ہو چکا تھا۔ درد کی شدت سے اس کے منہ سے ایک چیخ نکل کر ٹیلوں میں گم ہو گئی۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے اپنا بید تھاما اور چار قدم بھاگنے کے بعد منہ کے بل گر پڑا۔ وہ ریت پر پڑا تڑپنے اور بل کھانے لگا۔ جلتی ریت اس کا منہ بھر رہی تھی۔

“ہائے کیا مصائب کی کوئی کسوٹی یہ تقابل کر پائے گی کہ بنو عامر کے سبزہ پرور افلاج مجھ پر زیادہ نا مہربان رہے یا کہ نجد کا یہ بے گیاہ و آب ریگزار۔۔!!”

وہ رک رک کر کراہنے کے انداز میں خود کلامی کرنے لگا اور پھر خفقان کی ایک لہر کے ساتھ اس کے ہاتھ اور پیر خود بخود کھنچنے اور مڑنے لگے۔ اس کے پنجوں کے ناخن اس کی نیم عریاں چھاتی پر خون آلود سرخ لکیریں کھینچتے گئے۔ اس کی خرخراتی ہوئی آواز خاموش ہو گئی، جسم ساکت ہو گیا اور جنوب کی ہوا اس کے بدن کو ریت کی شفیق چادرسے ڈھکنے لگی۔

ــــــــــــــــــــــ

یکبارگی دشت میں ایک اور کربناک چیخ سنی گئی اور بادِ جنوب کے تھپیڑوں نے سکوت اختیار کیا۔ ابرِ سفید کو خبر دی گئی کہ قیسِ مجنوں نے صحرا میں بے ہوشی سے آنکھ کھول دی ہے، اور چلچلاتی دھوپ کو اس کی پیشانی سے ٹکرانے کا راستہ دے دیا گیا۔

اس نے آنکھیں ملیں اور چندھی ہوئی نظروں کے ساتھ سورج سے آنکھیں ملانے کی کوشش کی ، لیکن اس کی تابانی نے اسے آنکھیں موند لینے کا حکم دے دیا ۔ وہ دھوپ کی جانب پشت کرکے نحیف لیکن لمبے ڈگ بھرنے لگا۔

“بتا تو کون ہے، جس نے مجھےیوں بے دست و پاکر کے مکان و زمان کی ابدی منجدھار کے عین وسط میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اگر تو بدارادہ غنیم ہے تو میرے سامنے کیوں نہیں آتا، اور اگر تو آفات کے پروردہ دارالامارہ کا فرستادہ ہےتو میری فردِ جرم مجھے صاف پڑھ کر کیوں نہیں سناتا؟؟ تیرا ڈنگ باپوں سے بیٹوں کو جدا کر دینے والی طاعونی وباسے بڑھ کر زہریلا ہے اور تیرا فریب نخلستان کے جھوٹے سراب سے بڑھ کر مرگ آور ہے۔ کیا تو بدشگون غولِ بیابان ہے جو اس بسیط تنہائی میں میرے گرد اوہام کی فصیلیں چُنتا جاتا ہے؟ یا تو رقیب روسیاہ گلابِ ثقفی ہے جو لیلیٰ کے فردوس شمائل پہلو کی قربت کو مجھ سے چھین کر بھی قانع نہیں ہوتا؟ کیاتو میرے ان پریشان شعروں کی بازگشت ہے جو میں ریت پر لکھ کر اس خیال سے آگے چلتا گیا کہ تیز جھکڑ انہیں مٹا دیں گے، لیکن ہواوں نے خیانت کی اور دشت کے ہر گرگ وغزال کو میرے رازوں سے واقف کر دیا۔۔۔”

وہ کچھ اور تیز چلنے لگا اور قریب ٹیلے کے دامن میں بیٹھا ایک سوسمار دوڑ کر اپنے بل میں گھس گیا۔ وہ بدستور دوڑتے ہوئے اپنے گریبان کے چیتھڑوں کو نوچنے لگا۔

“مجھے بتا تو کون ہے جو رات ہوتے ہی کرب اور تنہائی کی دردناک ٹیسیں میرے سروچشم پر صادر کرنے لگتا ہے۔ جب کبھی پائے آوارگی مجھے شمال کی جانب چلنے پر مائل کرتا ہے تو تُوفلک پر جہازی ستارے کو جنوب کی طرف پھیر دیتا ہے۔ اور جب میں رُخِ لیلےٰ کی تازگی کو یاد کر کے اپنے عصا سے ریت پر کوئی قوس کھینچتا ہوں تو توُ دشت کی جھاڑیوں سے سبزگی کا شائبہ تک اڑا لیتا ہے۔ اگر توُ یہاں میرے سامنے آئےتو تجھے اس عصا کی نوک پر اپنے آگے چلاوں، تُو تشنگی اور یاس کے اس دوزخ میں اپنا آخری دن گزارے، تیرے جلتے ہوئے سانسوں سے خود تجھے ایسی بو آئے ، جیسے ذخیرہ کرنے کے لیے اُبالے جا رہے نمک لگے گوشت سے بھاپ اُٹھتی ہے۔ تیری آنکھوں سے چمک اُٹھا لی جائے اور تو اس تپتے صحرا میں خود اپنے کلیجے کا گوشت بھون کر کھائے۔ صحرا کی کالی آندھیاں تیرا پتہ پوچھتی پھریں اور وہ کنڈیاری جھاڑیوں کا ایک سیلِ بلاخیز تجھ پر چڑھا دیں، جن کے کانٹوں کی مسموم نوکیں تیری پُھولی ہوئی نسوں کا نشانہ لے کر طوفان کو تیری رگ رگ میں اُتار دیں۔ تو اپنے گزرے ہوئے اچھے دنوں کا ماتم کرتا ہوا یوں مرے کہ تیرے قبیلے کی مائیں قیامت تک اپنے بیٹوں کو اکیلے ویرانے میں جانے سے منع کردیں۔۔۔”

وہ چلتے چلتے رک گیا اور خاموش ہو کر اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ پورا ریگزار خاموش تھا۔ ہوا تھمی ہوئی تھی، لیکن کسی ممکن اور موہوم سے جھونکے کی سمت جاننے کو اس نے مٹھی بھر ریت اٹھائی اور ہاتھ بلند کر کے زمین پر گرانے لگا۔ ریت کسی عمود پیماکے دھاگے کی طرح سیدھے اپنے ثقلی محور پر پڑتی رہی۔ ہوا واقعی تھمی ہوئی تھی۔ وہ زمین اور آسمان کی طرف باری باری دیکھ کر کئی دقیقے تک ساکت کھڑا رہا اور پھر زمین بیٹھ گیا۔

“لیلےٰ! اگر تو اپنے حضری خیمے میں بیٹھی ناونوش میں مشغول ہے تو میری تشنہ سانسیں تیرے پیالے میں پڑی نبیذ کو جالیں گی اور اسے زہر بنا دیں گی، اور اگر تیرا محمل اِسی بادیہ میں کہیں تیرتا ہے تو میں تجھے ڈھونڈ نکالوں گا اور تجھے تیری عماری سے اتار لوں گا۔ دیکھ ، اس ریگزار نے مجھے اپنے بید کے عصا سے بڑھ کر خشک اور منحنی بنا دیا ہے، میں اب تیرے چشم و رخسار سے بڑھ کر تیرے سینہ و گردن پر پڑے پسینے کے ان قطروں کا مشتاق ہوں، کہ ان پر اپنی زبان رکھتے ہی میں “س” کی سی آواز سنوں گا، جیسے جلتی ہوئی لکڑی پر پانی کا قطرہ پڑنے سے آواز آتی ہے۔ اس قدر صاف اور واضح ، جیسے زبان اپنے جوفی مخرج سے ‘سین’ کا صوتیہ ادا کرتی ہے۔ آل ِ ہوازن میں میری دیوانگی اور میرے سر کا سودا تیرے عشق سے عبارت کیا جاتا ہے، اور کیو ں نہ ہو، اب میرے ہاں تیرا جمال ہی کسی نخلستانی نم کا سراغ پانے کا حتمی استعارہ ہے۔ میں نے اس بیابان کو اس کی قشری تہہ تک کھود ڈالا ہے کہ کہیں کسی نم کا کوئی سراغ ڈھونڈ پاؤں۔۔۔ لیکن میرے حصے میں صحرا کی شرمسار خاموشی کے سوا کچھ نہیں آتا۔۔۔”
وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہو گیا اور اپنے عصاکو ہاتھوں میں لے کر سامنے کی ریت پر گھونپ دیا ۔ پھر اسے باہر نکال اس کے سرے کو چکھنے اور سونگھنے لگا۔ وہ کچھ سوچنے کے بعد اپنی جگہ سے اٹھا اور سامنے ٹیلے کی ٹوپی پر جا کے کھڑا ہو گیا۔ اس نے خطبہ دینے کے انداز میں لاٹھی کو ریت پر ٹکا دیا اور اس پر دونوں ہاتھوں کا بوجھ ڈال کر اپنے جوانب سے مخاطب ہوا۔

“اس دشت کے چرند پرند اور سنگ و نبات میرے نام سے واقف ہیں۔ میں قیس بن الملوّح بن مزاحم العامری الہوازنی ہوں۔ اس جگہ کے شتروشغال میرے نقوش پا سے آشنا ہیں۔ میں اس مقام پر ایک نیا کنواں کھودنا چاہتا ہوں، اگر میرے یمین اور میرے یسار کو، یا دیروز اور فردا میں یہاں سے گزر رہے کسی قافلے کو اس مقام پر کوئی دعویٰ ہے تو میری صدا کا جواب دے اور مجھ سے ہمکلام ہو، تاوقتیکہ میں اپنے معمار ہاتھوں اور اپنی پریشانئ طبع کے سنگ و خشت کو معرضِ استعمال میں لاؤں۔۔۔”

کئی دقیقوں پر محیط توقف کے دوران تل ودمن پر سکوت چھایا رہا، افق پر کوئی ابر نمودار ہوا نہ کسی پرندِ نامہ بر کا نشان دیکھا گیا۔ اس مہین سے انتظار کے بعد اس نے اپنی عبایہ کو سنبھالا، آستین تہہ کیےاور پٹکا اپنی کمرسے باندھ کر دونوں ہاتھوں سے ریت کو سمیٹنا شروع کیا۔ وہ “فعلن فعلن فعلاتن” کی تال میں سمجھ میں نہ آنے والی کوئی بات بڑبڑا اور گنگنا رہا تھا، اور اسی آہنگ میں ریت کھود رہا تھا۔ شاید کہیں کسی جگہ وہ لیلےٰ کا نام دوہراتا، کبھی بگاڑتا تھا، اس دھن میں وہ کئی بالشت گہرا گڑھا کھود چکا تھا۔ اس گہرائی تک ریت میں کوئی نم محسوس نہیں ہوا، لیکن اسے اپنی انگلیوں پر کوئی سخت شے اٹکتی محسوس ہوئی۔ اس نے جھٹ سے اس جگہ کے اطراف سے ریت ہٹانا شروع کی۔ یہ ایک انسانی ڈھانچہ تھا۔ اس نے ہاتھوں سے اس استخوانچے کو جانچنا چاہا اور ساتھ ہی اسے اس میں حرکت ہوتی محسوس ہوئی، اس کے سفید پنجے نے قیس کی قبا کا دامن پکڑ لیا۔ اس نے جھٹ سے اٹھ کر اپنا دامن چھڑانا چاہا اور چلّانا شروع کر دیا؛

“بتا تو کون ہے؟؟ کون ہے تو؟؟”

“میں اس صحرا کے زمانہ گیر سکوت اور تنہائی کا پروردگار، قیس ہوں۔” اس ڈھانچے نے کلام شروع کیا۔

“تو محض ایک ناشدنی مُردار ہے، جسے میں نے ابھی ابھی ریگِ عدم سے باہر نکالا ہے۔ میرے عامری خدوخال اور میرے چہرے کی شکنوں کو غور سے دیکھ، قیسِ عامری، دنیا جسے مجنوں کے لقب سے جانتی ہے، وہ میں ہوں!!” قیس نے غصبناک ہو کر کہا۔

“تو کہاں کا مجنوں ہے! تیرے چہرے پر گوشت پوست ابھی باقی ہے، خرد کے پانچوں دروازے، تیرے حواس ابھی تک تجھ پر کھلے ہیں، حیات کے سبھی لذائذ کا ہر امکان ابھی بھی تیری راہ میں ہے، تو کہاں کا مجنوں ہے؟!” ڈھانچے نے چرچراتے ہوئے جبڑوں کو ہلاتے ہوئے کہا۔

“تف ہے تجھ پر کہ تُو نے اس کالبدِ خاکی کو تیاگنے کا نام ہی جنون سمجھ لیا ۔ میرے حواس اور میرا جسم بوسہ محبوب اور محافل ناونوش سے اتنا مانوس نہیں، جتنا کہ یہ مارومگس کے ڈنگ اور سنگ و خار کی چبھن کا خوگر ہے۔ میں نے اپنے تلووں کے آبلوں کی اپنی لاڈلی اولاد کی طرح پرورش کی ہے۔ جس دن میرا باپ میری دیوانگی کا علاج ڈھونڈنے مجھے کعبہ میں لے گیا تھا، اس نے مجھے وصلِ لیلےٰکی خواہش ترک کرنے اور بنو عامر کے جری سپوت لبید بن ربیعہ سی باوقار زندگی گزارنے کی نصیحت کی تھی۔ اس نے انگلی کے اشارے سے دیوارِ کعبہ پر آویزاں لبید کے معلّقے کے شعر میرے آگے پڑھنا شروع کیے؛

فَاق٘طَع٘ لُبَانَۃَ مَن٘ تَعَرَّضَ وَص٘لُہٗ
وَ لَخَیرَ وَاصِلِ خُلَّۃٍ صَرَّامُھَا

لیکن میں نے اپنی جواں سال رسوائی کے آگے لبیدِ عامری کے صد و بیست سالہ با منزلت زندگی نامے کو ہیچ جانا اور ربّ کعبہ سے اپنے سینے کے زخموں کی خیر مانگی۔ کیا تو بادیہ کے تیوروں میں ابرباراں کے چھینٹوں ، طوفانِ گردباد کے بگولوں اور سلگتے تابستانی ہیزم میں، ریت کے بدلتے ہوئے رنگوں کو نہیں دیکھتا؟ لبید نے ایک خواب آور آہستگی میں پلے ہوئے ، ایک صاف گو ریگستان میں آنکھ کھولی، اور دشت کے تربہ و ریحان سے اپنے مضامین کا کسب کیا۔ جبکہ خوف و عناد اور موت کا پروردہ ایک پر نزاع ریگزار میرے حصے میں آیا۔ میرے قبیلے نے خوف اور نزاع سے نشان منزل کا اکتساب کر کے خزانے کا ایک جھوٹا نقشہ بنایا اور اپنے اونٹوں کے گلے میں لٹکا لیا، جبکہ میں نے لیلےٰسے مفارقت کو ، شکستِ ذات کے اس ابدی حوالے کو اپنے سفر کا تعویذ بنا کر اپنے پیروں سے باندھا۔ میرے قبیلے میں جس طرح لبید یکتا تھا، اسی طرح میں بھی اپنے قبیلے میں فرد ہوں۔ تو کون ہوتا ہے میری خلوت میں دخل دینے والا!!”۔ قیس اس لہجے میں بول رہا تھا کہ اس کے جسم کا پانی اگر سوکھ نہ چکا ہوتا تو بات کرتے ہوئے اس کا منہ کف سے بھر گیا ہوتا۔

“مہدی بن سعد عامری کی لڑکی محض ایک نام تھی، لیلےٰ، قیس عامری کے ابہام زدہ عرفانِ آدمیت اور اس کی حیوانی جبلتوں کے بیچ ایک حل نہ ہونے والے نزاع کا نام ہے، لیلےٰکا وجود محض قیس کے آغاز و انجام کے بیچ پھنسی ہوئی نجات اور باریابی کی ناآسودہ خواہشوں کا آسیب ہے۔ اور تیری یہ خلوت بھی ایک فریب ہی ہے، تیرا قبیلہ بھی تیرے ساتھ سفر میں ہے، اور تیری منزل ان سے الگ نہیں ہے۔ تاہم کوئی بھی وہ موت نہیں مرتا جو اس نے خود اپنے لیے نہ چُنی ہو۔ ‘ہونا’ تیرا جرم ہے اور’ہونی’ تیری سزا۔۔ اور یہ تُو ہےجو یوں آ کرمیری خلوت میں مخل ہوا ہے۔ میں قیس ہوں! قیس بن الملّوح بن مزاحم بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصہ بن معاویہ بن بکر۔۔۔” ڈھانچہ کچر پچر بولے جا رہا تھا۔

“میرے پیروں کے آبلوں کی توہین کر کے میرے ہی نام و نسب پر دعویٰ رکھتا ہے مُردار !!” قیس طیش میں آ کر اپنے عصاسے اس ڈھانچے کی کھوپڑی پر پل پڑا۔ لیکن اس کے جبڑے بدستور حرکت کرتے رہے؛

“بن ہوازن بن منصور بن عکرمہ بن خفصہ بن قیس بن عیلان۔۔۔” اس کے پُرزے ریت پر بکھر رہے تھے لیکن قیس اس پر لاٹھی برسائے جا رہا تھا۔

ڈھانچے کی آواز رفتہ رفتہ تھمتی گئی اور ساتھ ہی صحرا میں چاروں طرف سے کسی بے چہرہ انبوہ کا شور بلند ہونے لگا؛ ” مجنون ۔۔۔! مجنون۔۔۔۔! مجنون۔۔۔!”