نولکھی کوٹھی – اکتسویں قسط

علی اکبر ناطق: سب نے دیکھا،انہی خدمت گزاریوں کی وجہ سے وہ صرف دو سال میں ہی تحصیل دار ہو گیا۔ جبکہ ساتھ والے،جو ذرا خدمت گزاری میں کم تھے،ابھی تک اُنہی بوسیدہ میزوں پر بیٹھے مکھیاں مار رہے تھے۔

نولکھی کوٹھی – تیسویں قسط

علی کابر ناطق: زمانے کے گزرتے ماہ سال میں ولیم کو اِس پورے نقصان پر تاسف تو ہوا لیکن وہ اُس کو قبول کر چکا تھا۔ چنانچہ ایک عرصے سے اُس نے بھی اُنہیں یاد کرنا چھوڑ دیا۔

نولکھی کوٹھی – سولہویں قسط

علی اکبر ناطق: غلام حیدر کی حویلی میں بیٹھے سب لوگ اپنی اپنی قیاس آرائیوں میں لگے انگریزی سرکار اور جھنڈو والا کی خبریں نون مرچ لگا کر اورایک دوسرے کو سنا کر آنے والے وقت کے متعلق فیصلے صادر کر رہے تھے۔

نولکھی کوٹھی – بارہویں قسط

علی اکبر ناطق: غلام حیدر کو پتا تھا کہ غلام رسول سب لوگوں کو کہانی پہلے ہی بتا چکا ہے اور یہ بات کوئی راز نہیں رہ گئی پھر بھی کچھ ایسی بات ہوتی ہے جس کا سب کے سامنے وضاحت کر کے اور کھُول کر بیان کرناٹھیک نہیں ہوتا۔اس لیے یہ قصہ اِن سب کے سامنے نہ ہی دہرایا جائے تو اچھا ہے۔

نولکھی کوٹھی-پانچویں قسط

علی اکبر ناطق: جودھا پور والوں کی نظر میں اب غلام حیدر کے ساتھ سودھا سنگھ کا نام لینا بھی غلام حیدر کی توہین تھی۔اُن کی نظر میں اب سودھا سنگھ محض ایک دیسی بدمعاش اور دو ٹکے کا غنڈہ تھا۔ جبکہ غلام حیدر کے تعلقات نئی دلی سے لے کر ملکہ تک پھیلے ہوئے تھے۔

نولکھی کوٹھی – تیسری قسط

علی اکبر ناطق: غلام حیدر بگھی سے اترا توجوانوں کا پورا دستہ اس کی پشت پر کھڑا ہو گیا۔ آگے بڑھا تو ایک پر اسرار رعب اس کے ساتھ تھا۔ بوسکی کاکرتہ، اون کی چادراور کاندھے پر ولایتی رائفل،اس سے بڑھ کر ریشمی لاچا جس کے کنارے دُور تک زمین پر گھسٹتے آتے تھے۔