نولکھی کوٹھی – چھٹی قسط

علی اکبر ناطق: سردارسودھا سنگھ گفتگو کے اس اُلٹ پھیر کے انداز سے بالکل واقف نہ تھا اور نہ ہی اسے یہ پتا چل رہا تھا کہ ولیم اِس طرح باتیں کیوں کر رہا ہے۔کس لیے سیدھی سیدھی واردات اس پر نہیں ڈال دیتا جبکہ ولیم سودھا سنگھ کو ذہنی طو رپر اذیت پہنچانا چاہتا تھا۔

نولکھی کوٹھی-پانچویں قسط

علی اکبر ناطق: جودھا پور والوں کی نظر میں اب غلام حیدر کے ساتھ سودھا سنگھ کا نام لینا بھی غلام حیدر کی توہین تھی۔اُن کی نظر میں اب سودھا سنگھ محض ایک دیسی بدمعاش اور دو ٹکے کا غنڈہ تھا۔ جبکہ غلام حیدر کے تعلقات نئی دلی سے لے کر ملکہ تک پھیلے ہوئے تھے۔

تمغہ

علی اکبر ناطق: میرے کان پولیس کے ترانوں سے گونجتے رہے اور میں آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتاہوا اسٹیج کی طرف بڑھتا گیا۔ حتیٰ کہ دو تین قدم چلنے کے بعد میری حالت میں اعتدال آگیا۔ بالآخر مَیں نے بھی اپنا میڈل ترانوں اور نعروں کے شور میں وصول کر لیا۔

میرواہ کی راتیں- دوسری قسط

رفاقت حیات: پلیٹ فارم پر ٹرین کے رکتے ہی لوگوں نے اس پر سوار ہونے کے لیے کوششیں شروع کر دیں کیونکہ ٹرین مسافروں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ ہر بوگی کے دروازے پر لوگ آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھے تھے۔

کتھا کالے رنگ کی

ایک دوسرا انکشاف جو اُس پر ہوا ہو یہ تھا کہ لڑائی کے دوران ہی مخلف گروپوں کے تما شائیوں کے ایک گروہ سے ایک لڑکا اور دوسرے گروہ سے ایک لڑکی اس جنگلے سے اوپر اُٹھ کر ایک دوسرے کا بوسہ لیتے اور پھر واپس نیچے جُھک کر نعرے لگانے لگتے

پستان – تیسری قسط

زمین صرف ایک عورت ہے، ایک عیار، تجربہ کار اور گھاگ عورت، جو بے انتہا حسین ہے اور اسے اپنے حسن کی قیمت کا اندازہ بہت اچھی طرح ہے۔

پرندے کے پیر پر

اندیشہ لیکن آنکھوں میں گھس کر دہرائے جاتا ہے "منظر بدلا تو کیا ہو گا خواب ہوا تو ٹوٹ کے اور بھی کرچیں آنکھوں میں بھر دے گا خواب نہیں تو دھو لینے پر شاید سوزش بڑھ جائے گی