خدا معبدوں کی راہداریوں میں گم ہو گیا ہے
دلوں سے تو وہ پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا
خود کش حملوں کے خوف سے
اب اس نے مسجدوں کی سیڑھیوں پر بیٹھنا بھی چھوڑ ...
خادم حسین: سوال کا کیڑا عقیدت کی عمارت چاٹ جاتا ہے۔ سوال اٹھے تو پہلے ماخذات کا رخ کیا، بخاری شریف پڑھنی شروع کی، نام نہاد علماٴ سے سوالات کئے، اسرار احمد کے راستے غامدی تک آئے اور پھر مذہب اور سیاست کی ملاوٹ اور اس کے موذی اثرات کے باعث مذہبی عقائد کو خیر باد کہا۔
شعیب محمد: ہمارے علماء کرام انتہائی مہارت سے قرآن و حدیث کی انہی آیات و روایات سے انہی چیزوں کی حلت نکال لیتے ہیں جو اس سے پہلے عین حرام قرار پاتی تھیں۔
علامہ نیاز فتح پوری: مذہب کی بنیاد اس خیال پر قائم ہے کہ عالم فطرت کا کوئی ایک مالک ہے، خود دعاؤں کو سنتا ہے، اپنی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور جزا و سزا دیتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ واقعات کی دنیا میں ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی جس سے ہمیں ان اعتقادات کی تصدیق ہوسکے۔
صدف فاطمہ: تصوف ابن آدم کی سرشت کا گراں مایہ راز سر بستہ ہے جس کا حصول مادیت اور ظاہری چکا چوند کو شکست دینے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ یہ کوئی سائنس و فلسفہ نہیں ہے جس کی تعبیریں اور مفہوم زمانے نشیب و فراز کے ساتھ بدلتے رہیں۔
ڈاکٹر عرفان شہزاد: اپنے مسلک کے دائرے میں محدود رہنا، اپنے زیرِ قبضہ اداروں کو اپنے مسلک اور جماعت کے نظرے کے حصار میں رکھنا دراصل ایک بے اعتماد اور خوف زدہ نفسیات کی علامت ہے۔
قرآن میں حکمت یعنی دانش پر انتہائی زور ہے اس لیے انسانوں کو اپنے رویے میں حکمت سے کام لیتے ہوئے اپنی بقا کے لیے ایک موزوں لائحۂ عمل وضع کرنا چاہیے نہ کہ یہ کہ وہ تشدد کی منجدھار میں چھلانگ لگاکر اپنے لیے خطرات مول لے لیں۔
گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں تین احمدیوں کے قتل کے بعد اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کا ہر دوسرا شہری مذہب کا ٹھیکیدار اور مقدس شخصیات کے تقدس کا محافظ ہے۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم اور ان مظلوموں کے حق میں کیے جانے والے احتجاج کو مذہبی رنگ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب سیاسی مقاصد کے لیے کس قدر آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نوروز فارسی زبان کے دو الفاظ نیا اور روز یعنی دن کا مرکب ہےاگرچہ تاریخی حوالوں میں نو روز کی ابتدا سے متعلق کوئی متفق علیہ نقطہ نظر موجود نہیں البتہ کئی ایک روایات دستیاب ہیں۔
وہ تمام افراد اور جماعتیں جو گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی اور مذہب کے درمیان تعلق سے انکار کرتے رہے ہیں،شکار پورمیں اہل تشیع پر ہونے والا حملہ اور 61 لاشیں انہیں یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ دہشت گردی کا تعلق نہ صرف مذہب بلکہ مسلک اور فرقہ سے بھی ہے۔
وہ ہمیں گھر کرائے پر نہیں دیتے، بعض اوقات تو مجھے کچھ بیچنے سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ وہ مجھے اپنی آبادیوں سے دھکیل دینا چاہتے ہیں کیوں کہ میرے عقیدے اور میری کتابوں میں "ملاوٹ "کر دی گئی ہے۔