غیرمطبوعہ ناول: ایک خنجر پانی میں (خالد جاوید)

نیکی بدی پر فتح پانے کے لیے اپنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ پیلے غبار کی چھت کے نیچے سوتا ہوا یہ شہر جلد ہی جاگنے والا ہے۔
مظہر حسین سید کی دو کہانیاں

مظہر حسین سید: گولی پیٹ کو چیرتے ہوئے گزر گئی تھی۔ شدید درد اور جلن کے احساس کے ساتھ معلوم نہیں وہ کتنے منٹ تک سرپٹ بھاگتا رہا اندھا دھند جھاڑیوں اور درختوں سے ٹکراتے ہوئے وہ مزید زخمی ہو چکا تھا ۔ اُس کی چیخیں پورے جنگل میں گونج رہی تھیں۔ دوڑتے دوڑتے وہ بے دم ہو کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔
محبت کی گیارہ کہانیاں (دوسری کہانی)

تصنیف حیدر: وہ شام ایک خواب کی مانند تھی، میرے دوسرے خوابوں کی طرح۔میں اپنی ذات کی الجھنوں کو اتنی آسانی سے نہیں بتا سکتی۔بدن تو خیر جو الٹ پھیر کررہا تھا وہ ایک دوسری بات ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ذہن میں بھی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔
پہلے میرا باپ (محمد عباس)

محمد عباس: اس عورت نے امام صاحب کا کہا مانا اور کسی سے کبھی اس واقعے کا ذکر نہیں کیا۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ کالے خان کو اس کے حال پر چھوڑ کر اپنے مائیکے گاؤں واپس چلی گئی جب کہ کالے خان حجرے سے بے دخل ہو کر گاؤں کی گلیوں پر آن پڑا۔
گورکھ دھندہ

اسد رضا: وقت تیزی سے گزر رہا تھا جو کچھ بھی کرنا تھا بہت جلد کرنا تھا۔ چوہوں نے کھلے عام قبروں کے اوپر اچھل کود شروع کر دی تھی۔ ہم نے قبرستان کے بیچوں بیچ ایک عظیم کائناتی گورکھ دھندے کے لئے کھدائی شروع کر دی تھی۔
نعمت خانہ – تئیسویں قسط

خالد جاوید: میں ہوش سا کھونے لگا۔ مجھے لگا کہ میں باہر سڑک پر پڑا ہوا ہوں۔ اور میرے اوپر چیل کوّے اُڑ رہے ہیں۔ مری یادداشت بخار کے بھبکوں میں پرزے پرزے ہوکر ہوا میں اُڑ رہی تھی۔
افسانچے (جنید جاذب)

جنید جاذب: مگر یہاں قربانی تو جانوروں نے دی اپنی پیاری جان کی۔۔۔۔اللہ کے بندوں نے توکچھ بھی قربان نہیں کیا۔۔۔۔مزے لے لے کے کھایا۔۔۔۔۔اب ثواب کس کو ملے گا جانوروں کو یا انسانوں کو؟
نعمت خانہ – بائیسویں قسط

خالد جاوید: وہ پاگل اور مخبوط الحواس چوہا اُسے دیکھ کر مایوس، واپس آٹے کے کنستر کے پیچھے چھپ گیا۔ اس کی یادداشت کام نہیں کر رہی تھی، وہ فیرینی کوپہچان نہ سکا۔
ذائقہ

صدف فاطمہ: بڑھاپے میں جسم کے سارے تقاضے زبان میں منتقل ہو کر ذائقے میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ رمشہ کی دادی نے بھی سارے تقاضوں کو ذائقوں میں تلاش کرنا شروع کر دیا تھا۔
نعمت خانہ – اٹھارہویں قسط

خالد جاوید: مجھے اُس وقت تک کچھ پتہ نہ تھا کہ دسمبر میری زندگی کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی ریل گاڑی بناکر رکھ دے گا جو ایک سنسان، چھوٹے اسٹیشن پر اس لیے رُکی کھڑی رہے گی کہ کہرے میں اُسے کوئی سگنل نہ نظر آتا تھا۔
نعمت خانہ – سولہویں قسط

خالد جاوید: کیا کسی نے بھی اس پر غور کیا کہ محض روح کی پاکیزگی کے ڈنکے پیٹتے رہنے سے ہی کچھ نہیں ہوتا۔ اصل مسئلہ تو جسم کا ہے، جسم کی پاکیزگی ہی اصل شئے ہے۔
نولکھی کوٹھی – تئیسویں قسط

علی اکبر ناطق: ولیم کو لاہور میں ایک سال تین ماہ گزر چکے تھے۔ اِن پندرہ مہینوں میں سوائے جم خانہ جانے کے،اِدھر اُدھر کی گھٹیا اور بے کار فائلوں پر دستخط جمانے اور کلرکوں کے بیہودہ چہروں کے دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔
نعمت خانہ – تیرہویں قسط

خالد جاوید: اچھّن دادی نے بتایا کہ رات ناگ کا گزر اِدھر سے ہوا تھا۔ وہ اتنا زہریلا ہے کہ اس کی پھنکار سے ہی مرغیاں اور کبوتر مردہ ہو جاتے ہیں۔
نعمت خانہ – بارہویں قسط

خالد جاوید: فجر کی نماز کے بعد جب چھوٹے چچا مسجد سے لوٹ رہے تھے تو اُن کی نظر بے خیالی میں بجلی کے کھمبے کی طرف اُٹھ گئی۔ انھوںنے دیکھا اوپر بجلی کے کھمبے سے ہوکر جہاں بہت سے تار جاتے ہیں، وہاں اُن بجلی کے تاروں میں وہ جھول رہی تھی، مردہ اور اکڑی ہوئی۔
ولدیت کا خانہ

ناصر عباس نیر: اس نے باپ کی شکل ذہن میں لانے کی کوشش کی،مگر اس کے ذہن میں باپ کا مراہوا چہرہ ابھرا۔