نولکھی کوٹھی – چوبیسویں قسط

علی اکبر ناطق: جو مشکل سب سے اہم تھی وہ یہ کہ اب ہندوستانی بھی پہلے والے نہیں رہے تھے۔ اب یہ لوگ چالاکی اور عیاری میں گوروں کے بھی کان کاٹتے تھے اور اِس چکر میں تھے،کب انگریز یہاں سے نکلیں۔ ایسے میں انہیں آزاد نہ کرنا ایسے ہی تھا،جیسے بغیر ہتھیار کے بھیڑیے کے ساتھ رات گزاری جائے۔

نولکھی کوٹھی – اٹھارہویں قسط

علی اکبر ناطق: مولوی کرامت نے اپنا وار کار گر ہوتے دیکھا تو مزید اُس پر جملہ کسا،تو اور کیا؟ پھر سو باتیں ایسی ہوتی ہیں کسی غیر کو نہیں بتانی ہوتیں،جس سے خط پڑھواتے ہیں وہ اُنہیں بھی جان جاتا ہے اور گھر کی بات خواہ مخواہ باہر نکل جاتی ہے۔ پھر یہ ہندو اور چوہڑے تو ہمارے ویسے بھی دشمن ہیں۔ بھائی تعلیم بہت ضروری ہے۔

نولکھی کوٹھی – سترہویں قسط

علی اکبر ناطق: ایشلے جو اُس وقت بھی اُلٹی سیدھی نظمیں لکھ لکھ کر سناتا تھا اب بہت بڑا شاعر بن گیا تھا۔ یہ تمام زمین اُن کی اپنی ملکیت تھی لیکن رینالہ اور ستگھرہ اسٹیٹ کے درمیان اوکاڑہ کے پاس کلیانہ اسٹیٹ کی زمین اور آموں کے باغ میں گھری ہوئی نولکھی کوٹھی سے اُنہیں خاص اُنسیت تھی۔

نولکھی کوٹھی – چودہویں قسط

علی اکبر ناطق: ہیلے ولیم کے اس جواب سے ہلکا سا مسکرا دیا اور دوبارہ بولا،ولیم جانتے ہو؟ مجھے اُس وقت اپنی خوشامد اچھی لگتی ہے جب کوئی میرا انگریز جونیر کرتا ہے ورنہ دیسی افسر تو بنے ہی خوشامد کے لیے ہیں۔

نولکھی کوٹھی – گیارہویں قسط

علی اکبر ناطق: ولیم کا حکم پا کر بیر داس نے ایک سکھ سنتری کو اشارہ کیا۔ سنتری اشارہ پاتے ہی آگے بڑھا اور پکار کر بولا،بھائیو، صاحب سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ صاحب آپ کا کھیل دیکھنے کے لیے یہاں رُکے ہیں۔

نولکھی کوٹھی – نویں قسط

علی اکبر ناطق: غلام حیدر نے رفیق پاولی کی طرف دیکھ کر بلا کسی تمہید کے کہا،جو رات کی نسبت کافی ہشاش بشاش نظر آ رہا تھا، چاچا رفیق آپ ایسا کرو، بندوں کو لے کر آج واپس جلال آباد چلے جاؤ اور دونوں گاؤں کے معاملات پر پوری نظر رکھو۔ دشمن کسی بھی طرف سے دوبارہ شرارت کر سکتا ہے۔