منیب حسن: ہمت،لگن ،انصاف اور سماجی تربیت اگر انسانی شکل میں مجسم ہو کر سامنے آ جائیں تو نیلوونا کی ہی شبیہ بنتی نظر آتی ہے۔اس کی گرفتاری کا منظر ہو یا اس کے بیٹے کی، شفیق مسکراہٹ اور حوصلہ اس کے آس پاس رقص کرتے ہیں
ایک جانب جہاں معاشرے کی اکثریت سیاست سے بیزار، بدظن اور لاتعلق ہو چکی ہے وہیں ایک متضاد کیفیت یہ ہے کہ تقریباً ہر فرد اس بات سے متفق ہے کہ اس معاشرے کو تبدیل ہونا چاہیئے۔
یہ وہی شخص ہے جو رات شہادت پروف ائر کنڈیشنڈ کنٹینر میں گزارتا ہے،چند لمحوں کے لیے باہر آتا ہے اور مریدین کو ورغلانے کے بعد دوبارہ ٹھنڈے کنٹینر میں جا گھستا ہے۔
مظاہرین کی جانب سے اشتعال انگیزی اور ریاستی اداروں کی جانب سے طاقت کے استعمال کے درمیان حد فاصل کہاں کھینچی جائے گی اس کا دارومدار ہمیشہ کسی ریاست میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور تسلسل پر ہے۔
عمران خان یا طاہر القادری حکومت گرانے میں سنجیدہ ہوں یا نہ ہوں نواز لیگ کی حکومت کی گھر جانے سے متعلق سنجیدگی پر کسی کو چنداں شک نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ منتخب ہونے کے بعد سے اب تک نواز شریف حکومت نے کوئی ایسا موقع ہاتھ جانے ہی نہیں دیا۔
قادری صاحب کا ایک تکا دوہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے لگا اور انہوں اسے کنٹینر کے اندر تکے سے بے تکے میں بدل دیا ایک بار پھر قادری صاحب بے تکے انقلاب کے تکے لگانے کے دعوے کررہے ہیں تو موقع ہے کہ پوری قوم کو دعوت دی جائے مسلمانو ! لگاؤ تکے ۔
فیض جیسے نوابغ کے بعد کا خلا پر کرنے کے لیے صدیوں کا انتظار درکار ہے، اور فیض اپنی وفات کے ربع صدی بعد بھی بدستور ترقی پسندوں کے لیے حجت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور آج بھی ہم ترقی پسند ادب کے زمانۂ فیض سے ہی گزر رہے ہیں۔