میں کہاں جاؤں (نصرت زہرا)

میں جو خواب میں ساڑھی پہن کر سندھی بولتی ہوں تم لوگ جو جنگ کرو گے تو میں کہاں جاؤں گی؟ میرابچہ جو آج بھی نانا کی جنم بھومی کا طعنہ سہتا ہے کیا ...

ایک عوامی نظم (زاہد امروز)

ہم خالی پیٹ سرحد پر ہاتھوں کی امن زنجیر نہیں بنا سکتے بُھوک ہماری رانیں خشک کر دیتی ہے آنسو کبھی پیاس نہیں بجھاتے رجز قومی ترانہ بن جائے تو زرخیزی ق...

لاشوں کا احتجاج

صفیہ حیات: جنم لینے سے انکار سمے بچے نے ڈائری لکھی جس میں بم دھماکوں سے بہرے اور اندھے ھونے والے بچوں کی آپ بیتیاں تھیں

وقت کا نوحہ

ثروت زہرا: میرے روئی کے بستروں کے سلگنے سے صحن میں دُھواں پھیلتا جا رہا ہے گھروں کی چلمنوں سے اُس پار باہر بیٹھی ہَوا رو رہی ہے

بارود گھر

علی محمد فرشی: بہت دیر کر دی فرشتوں نے نیچے اترتے ہوئے فاختہ اپنی منقا رمیں کیسے زیتون کی سبز پتی دبائے جہنم سے پرواز کرتی؟ فلک دور تھا اور بارود گھر شہر کے وسط میں

راوی رستہ موڑ

علی زریون: راوی رستہ موڑ کبھی اس شہر کی جانب جو جلتا ھے سن زخمی آواز جو سینے چیر رہی ہے

امن کے عالمی دن پر ہندوستانی ہمسائے کے نام خط

توصیف احمد: ہم صرف اس لیے ایک دوسرے کے بچوں اور ماوں کو قتل کرنے اور ان پر بارود برسانے کو تیار ہیں کیوں کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے نہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے سوام کوئی اختیار ہمارے ملکوں نے نہیں دیا