اسد رضا:
گھر پہنچنے تک میں انہیں خیالوں میں گم تھا۔ میں بھاگ کر اپنے کمرے میں پہنچا، میز پر تھوڑی سی راکھ پڑی ہوئی تھی اوپر پنکھا پوری رفتار سے چل رہا تھا۔ میں نے سب درازوں کو دیکھ لیا۔ باسکٹ بھی انڈیل کر دیکھ لی لیکن کچھ بھی نہیں ملا۔
حسنین جمال: سوگ کے مہینے میں وہ اپنے معمول کے مطابق نکل پڑے، مجلس، جلوس، تعزیئے، سبیلیں، بندے علی نے پورے جی جان سے ساری عزاداری کی، دسویں کو رات جب گھر آئے تو طبیعت بہت خراب تھی، ماتم سے خون کی کمی اور کمزوری کافی تھی۔
سب خیال اڑتے، بھاگتے، چلتے، رینگتے، گھسٹتے، اٹھتے، گرتے اور تیرتے ہوئے تمام تر ممکنہ تیزی سے اس کے دما غ میں گھس گئے۔ کھلا در اندر سے بند کر لیا گیااور پھر دماغ کی بندر بانٹ بڑی بے دریغی سے کی گئی۔