دس برسوں کی دلی۔ قسط نمبر 10

تصنیف حیدر: جن ماں باپوں کی اولادیں زیادہ ہوں، وہ ویسے بھی بچوں کو بس بڑا کرنے ، ان کی شادیاں کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں۔انہیں طلعت جیسے بچوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے، جو زندگی کو کسی ریستوراں میں بیٹھے ہوئے کسٹمر کی طرح گزارنا چاہتے ہوں

دس برسوں کی دلی – قسط نمبر 9

تصنیف حیدر: سڑک پر ہر آدمی صر ف آدمی ہونا چاہیے، اس کا عہدہ، اس کا کردار، اس کی ذہانت، اس کی خوبصورتی یا بدصورتی سب کچھ ایک سیال میں ڈوبے ہوئے برادے کی طرح گھل مل جانا چاہیے لیکن ایسا یہاں نہیں چل سکتا تھا۔

دس برسوں کی دلی- قسط نمبر 8

تصنیف حیدر: میں مانتا ہوں کہ دنیا میں ایسے مجبور لوگ بھی ہیں کہ جنہیں کھانے میں نمک کم یا زیادہ محسوس ہونے پر بھی کسی طرح لقمے توڑنے پڑتے ہیں مگر اس زہر مار کو خود پر حاوی ہونے دینے کا مطلب ہے کہ آپ ایک روز اصل کھانے کا مزہ بھول جائیں گے۔

دس برسوں کی دلی- قسط نمبر 7

مجھے دانش بھائی نے ہی بتایا تھا کہ ہمارے دلی آنے سے پہلے یہاں سی این جی گیس کا استعمال اتنا عام نہیں تھا اور گاڑیاں ڈیزل ، پٹرول پر زیادہ چلا کرتی تھیں، جس کا انجام یہ ہوتا تھا کہ لوگ ٹریفک میں پھنس کر کئی دفعہ گرمیوں میں بے ہوش ہوجایا کرتے تھے

دس برسوں کی دلی- قسط نمبر 3

دنیا کی شاید سب سے گہری جدائی میاں بیوی کے درمیان واقع ہونے والا فاصلہ ہی ہوسکتی ہے، دو کھری روحوں کے درمیان، جن میں اکثر مرد کی جانب سے کھوٹے پن کا اظہار زیادہ ہوتا ہے، بار بار ہوتا ہے، مگر اس وقت میرے والد کی بے وفائی مسئلہ نہیں تھی، ان کی جدائی مسئلہ تھی