دو کیشیئرز

جمیل الرحمان: جسم کے الاؤ میں خواب کے بہاؤ میں اک پرانی حسرت کے گھاٹ پر اُترنے تک نظم اُس نے کہنی تھی

جدید، جدیدیت اور مابعد جدیدیت

ستیہ پال آنند: ہوا یہ کہ چند برسوں میں ہی انارکی اور انتشارنے اندرونی خلفشار کے طور پر جدیدیت کی اس تحریک کو گھُن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ زبان کی شکست و ریخت شروع کی گئی تو لسّانیات کے سب اصول بالائے طاق رکھ دیے گئے۔

نظریات کا گورکھ دھندا؛ اردو ادب کے تناظر میں

جہاں یورپ میں اشتراکی حقیقت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر جدیدت کو اپنا لیا گیا تھا وہاں ہمارے ہاں یہ دونوں تحاریک کچھ برسوں تک ساتھ ساتھ چلتی رہیں، لیکن آخر روایت سے کلیتاً بغاو ت نہ کیے بغیر بھی جدیدیت کے اجزائے ترکیبی ہمارے ادب میں رواج پا گئے۔