علی اکبر ناطق: شمشیر سنگھ اور اُس کا جتھا جودھا پور میں داخل ہوا تووہ حیران رہ گئے۔ سارے گاؤں میں کوئی فرد بھی اُنہیں کسی گلی میں چلتا پھرتا نظر نہ آ یا۔ گویا کوئی دیو پھر گیا ہو۔ مکانوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔
علی اکبر ناطق: غلام حیدر کی حویلی میں بیٹھے سب لوگ اپنی اپنی قیاس آرائیوں میں لگے انگریزی سرکار اور جھنڈو والا کی خبریں نون مرچ لگا کر اورایک دوسرے کو سنا کر آنے والے وقت کے متعلق فیصلے صادر کر رہے تھے۔
علی اکبر ناطق: ہیلے ولیم کے اس جواب سے ہلکا سا مسکرا دیا اور دوبارہ بولا،ولیم جانتے ہو؟ مجھے اُس وقت اپنی خوشامد اچھی لگتی ہے جب کوئی میرا انگریز جونیر کرتا ہے ورنہ دیسی افسر تو بنے ہی خوشامد کے لیے ہیں۔
علی اکبر ناطق: کوئلوں پر ہاتھ تاپتے ہوئے رفیق نے حقے کا کش لیا اور بولا، سردارغلام حیدر ایک بات تو طے ہے کہ حملہ سودھا سنگھ کے آدمیوں ہی نے کیا ہے اور چھپ چھپا کر نہیں، کھلے عام کیا ہے۔