کسی انتظار کی جانب

ابرار احمد: جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب

چہل قدمی کرتے ہوئے

ابرار احمد: کہیں ایک باغ ہے غیر حتمی دوری پر سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا کہیں کوئی آواز ہے بے نہایت چپ کے عقب میں بے خال و خد، الوہی، گھمبیر کہیں کوئی دن ہے بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا

قصباتی لڑکوں کا گیت

ابرار احمد: ہم تیری صبحوں کی اوس میں بھیگی آنکھوں کے ساتھ دنوں کی اس بستی کو دیکھتے ہیں ہم تیرے خوش الحان پرندے، ہر جانب تیری منڈیریں کھوجتے ہیں