Laaltain

شہری آبادی کی توسیع میں کچی بستیاں مسمار

27 اپریل، 2019
Picture of اسد فاطمی

اسد فاطمی

رپورٹ: اسد فاطمی
اپریل 2019، اسلام آباد: اسلام آباد، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے سیکٹر ای-بارہ میں رہائشی پلاٹ فروخت کرنے کے لیے پرچیاں اٹھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ نئے سیکٹر کی تعمیر کے لیے مقامی کچی آبادیوں کے انخلاء کے عمل میں متعدد انسانی مسائل جنم لے رہے ہیں اور کچی آبادیوں کے مکینوں اور سی ڈی اے حکام کے درمیان قانونی و سیاسی کشمکش جاری ہے۔

سی ڈی اے کی ویب سائٹ کے مطابق ہفتہ 30 مارچ کو موضع سیری سرال میں کیے گئے تین روزہ آپریشن میں کمروں اور چار دیواریوں پر مشتمل 857 تعمیرات مسمار ہوئیں اور 10 افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اسی طرح ہفتہ 6 اپریل کو سیکٹر میں 500 کنال اراضی”غیر قانونی” مکینوں سے بازیاب کرائی گئی ہے۔ آپریشن میں 186 کمرے، 26 چاردیواریاں گرائی گئیں اور جھگیوں پر مشتمل 150 کنال اضافی اراضی بھی حاصل کی گئی۔ مقامی ذرائع کے مطابق آئندہ چند دنوں میں موضع دھریک موہری کی آبادی میں بھی ایسا ہی آپریشن متوقع ہے۔

7 اپریل کو مسمار ہونے والی بستی بھیکر اکو کا رہائشی ظہیر ملبے کا ڈھیر بن چکے اپنے گھر کے پاس عارضی خیمہ نما چھت کے نیچے اپنے رہائشی حقوق کے کاغذات کی فائل سرہانے تلے دابے ہوئے کھاٹ پر لیٹا نظر آتا ہے۔ ظہیر کا خاندان اس جگہ سی ڈی اے کے ریکارڈ اراضی کی ایوارڈ لسٹ مجریہ ستمبر 1987ء کے 372 الاٹیوں میں سے ایک ہے۔ دس کے قریب گھروں پر مشتمل اس آبادی میں اندازاً تیس گھرانے آباد ہیں۔

ظہیر کا کہنا ہے کہ اس کا خاندان پانچ نسلوں سے یہاں آباد ہے

بستی کے مکینوں کے مطابق ہفتے کے دن کوئی پیشگی نوٹس دیے بغیر سی ڈی اے حکام، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ، آئی سی ٹی انتظامیہ اور اراضی و بحالی ڈائریکٹوریٹ کے افسران، اسلام آباد پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے ہمراہ تین چین شاول اور ایک بلڈوزر لے کر بستی میں وارد ہوئے۔ رینجرز اور پولیس اہلکار چھتیں اور چاردیواریاں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوئے اور اس اچانک آپریشن کے ردعمل سے نمٹنے کے لیے 11 افراد کو حراست میں لے لیا گیا اور خواتین کو ایک باورچی خانے میں بند کر دیا گیا۔ گھروں کی تلاشی لی گئی اور مسماری سے قبل گھریلو سامان باہر نکالنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا جس سے روزمرہ ضرورت کا سامان، قیمتی املاک اور مذہبی تقدس کی حامل اشیاء ملبے کے نیچے دب کر تباہ ہو گئیں۔ انہدام کے دوران مکینوں کے اشتعال سے نمٹنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔

گھروں کی تلاشی لیتے ہوئے مکینوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ یاد رہے کہ 2015 میں سیکٹر آئی-گیارہ کی تعمیر و توسیع کے دوران وہاں مقیم افغان مہاجرین کی کچی بستیاں مسمار کرتے ہوئے بھی ان بستیوں کو جنگجوؤں کی ممکنہ پناہ گاہیں قرار دیا گیا تھا۔

بھیکر اکو میں اہلکاروں سے مٹھ بھیڑ کے الزام میں 13 نامزد افراد سمیت 60 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر داخل کی گئی۔ گرفتار کیے گئے 11 افراد میں سے 9 ضمانت پر رہا کر دیے گئے ہیں جبکہ 4 افراد کو انسداد دہشتگری کی دفعہ 324 میں نامزد کیا گیا ہے۔

انہدام کے بعد ڈی سی او اسلام آباد نے بستی کا دورہ کیا اور مکینوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو تسلیم کیا اور نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا۔ لیکن بعد ازاں سی ڈی اے حکام کی جانب سے گھریلو سامان کی توڑ پھوڑ کی تردید کیے جانے پر ضلعی انتظامیہ نے نقصان کی تلافی کا وعدہ واپس لے لیا۔
سی ڈی اے کے ڈائریکٹر انفورسمنٹ فہیم بادشاہ نے رابطہ کرنے پر اس الزام کی تردید کی کہ گھروں کے سامان کو کوئی نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کے گھروں میں داخل ہونے کا مقصد انہدام سے پہلے گھریلو سامان کو باہر نکالنا تھا، جبکہ بستی کے لوگ اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ آپریشن کے لیے پیشگی نوٹس نہ دیے جانے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ توسیعی آپریشن کے بارے میں حکام کا ارادہ اخبارات میں شائع ہو چکے تھے لہٰذا بستی کے مکینوں کو براہِ راست نوٹس دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اہلِ علاقہ کا کہنا ہے کہ اخباری نوٹس تجاوزات پر مبنی مہاجر بستیوں اور کنکریٹ کے کارخانوں کے بارے میں تھا اور وہ قانونی رہائشی ہونے کی حیثیت سے اس کارروائی کی توقع نہیں رکھتے تھے۔

سی ڈی اے نے ایوارڈ لسٹ میں شامل قانونی رہائشیوں کو 17 متبادل رہائشی پلاٹ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے تاہم اس حوالے سے اب تک کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بستی کے مکین اپنے گھروں کے ملبوں کے پاس عارضی خیمہ لگا کر رہ رہے ہیں

متاثرہ بستی کے مکینوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ داخل کر رکھا ہے۔ بستی کے افراد ملبے کے قریب عارضی خیموں میں مقیم ہیں جبکہ متواتر بارشوں میں کوئی مناسب پناہ نہ ہونے کی وجہ سے گھر سے محروم ہونے کا ناگہانی المیہ مزید ابتر شکل اختیار کر چکا ہے۔ روزمرہ ضرورت کا سامان اور پانی کی ترسیل کا نظام تباہ ہونے کی وجہ سے مکینوں کی زندگی دشوار تر ہو چکی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *