حنان الشیخ نومبر 1945 میں بیروت لبنان میں پیدا ہوئیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے کچھ عرصہ ‘النھار’ اخبار میں کام کیا۔ آپ کی تصانیف مشرق وسطیٰ کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کے روایتی کردار کو چیلنج کرتی ہیں۔ حنان الشیخ اب اپنے اہل خانہ کے ساتھ لندن میں مقیم ہیں۔
اجمل کمال گزشتہ چار دہائیوں کے اردو ادب کا رخ متعین کرنے والوں میں سے ہے، لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کی ایک نسل کے ذوق کی تشکیل آپ کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ آپ اردو کے موقر ترین ادبی رسالے "آج” کے مدیر ہیں۔ آج کے اب تک 111 شمارے شائع ہو چکے ہیں جو اردو قارئین کے لیے نئے لکھنے والوں کے معیاری فن پاروں کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے شاہکار پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
یہ ترجمہ اجمل کمال اور آج کے تعاون سے شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ کہانی اجمل کمال نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہے۔ طاہر رسول کی آواز میں اس کہانی کا آڈیو ورژن "آج” کے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کیا جا چکا ہے۔ چینل کو سبسکرائب کیجیے اور گھنٹی کے نشان پر کلک کیجیے تاکہ نئی ویڈیوز کا نوٹیفیکیشن مل جائے۔
سہ ماہی "آج” کو سبسرائب کرنے کے لیے عامر انصاری سے درج ذیل نمبر پر رابطہ کیجیے:
03003451649
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنان الشیخ
انگریزی سے ترجمہ: اجمل کمال
جب مریم میرے بالوں کو چھوٹی چھوٹی دو چوٹیوں میں گوندھ چکی تو اس نے انگلی منھ تک لے جا کر اس کے سرے کو زبان سے تر کیا، پھر اسے میری بھنووں پر پھیرتے ہوے آہستہ آواز میں کہنے لگی، “آہ، تمھاری بھنویں کیا خوب ہیں، پورا گھر ان کے سائے میں لگتا ہے۔” پھر وہ تیزی سے میری بہن کی طرف مڑی اور اس سے بولی، "جا کر دیکھو، کیا تمھارے ابا اب تک نماز پڑھ رہے ہیں۔” اس سے پہلے کہ میں جان سکوں، میری بہن جا کر واپس آچکی تھی اور سرگوشی میں کہہ رہی تھی، "ہاں، اب تک پڑھ رہے ہیں۔” اس نے ان کی نقل کرتے ہوے اپنے ہاتھ اٹھائے اور انھیں آسمان کی طرف بلند کیا۔ میں ہنسی نہیں جیسے ہمیشہ کرتی تھی۔ مریم بھی نہیں ہنسی۔ بجاے اس کے، اس نے کرسی پر سے اپنی اوڑھنی لی اور بالوں کو اس سے ڈھانپ کر جلدی سے اسے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔ پھر بہت احتیاط سے الماری کھول کر اس نے اپنا تھیلا نکالا، اسے بغل میں دبایا اور اپنا ایک ایک ہاتھ ہم دونوں کی طرف بڑھا دیا۔ ایک ہاتھ میں نے پکڑ لیا اور دوسرا بہن نے۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمیں بھی اس کی طرح دبے پاؤں، سانس روک کر سامنے کے کھلے ہوے دروازے کی جانب چلنا ہے۔ سیڑھیوں سے اترتے ہوے ہم نے مڑ کر دروازے کو دیکھا، پھر کھڑکی کو۔ آخری سیڑھی تک پہنچ کر ہم دوڑنے لگے اور اس وقت تک نہ رکے جب تک گلی نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی اور ہم نے سڑک پار نہ کر لی اور مریم نے ٹیکسی نہ روک لی۔
ہمارے اس طرزِعمل کا سبب خوف تھا، کیونکہ آج ہم امی کے طلاق لے کر ابا کے گھر سے چلے جانے کے بعد پہلی بار ان سے ملنے جا رہے تھے۔ ابا نے قسم کھا کر کہا تھا کہ وہ امی کو کبھی ہماری صورت نہیں دیکھنے دیں گے، کیونکہ طلاق کے چند ہی گھنٹوں بعد خبر پھیل گئی تھی کہ وہ اُس شخص سے شادی کرنے والی ہیں جس سے وہ، اپنے والدین کے مجبور کرنے پر ابا سے شادی کرنے سے پہلے، پیار کرتی تھیں۔
میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، خوف سے یا دوڑنے کی وجہ سے نہیں بلکہ امی سے ہونے والی ملاقات کے اشتیاق اور گھبراہٹ کے احساس کی وجہ سے۔ میں نے خود پر اور اپنی شرم پر قابو پا رکھا تھا، پھر بھی میں جانتی تھی کہ خواہ کتنی ہی کوشش کروں، میں اپنی ماں کے سامنے بھی اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ میرے اختیار سے باہر تھا کہ امی سے لپٹ جاؤں، انھیں بوسے دینے لگوں اور ان کا سر سینے سے بھینچ لوں، جبکہ بہن یہ سب بڑی بےساختگی سے کر سکتی تھی۔ جس وقت مریم نے مجھ سے اور بہن سے سرگوشی میں کہا تھا کہ ہم اگلے روز امی سے ملنے جانے والے ہیں، تبھی سے میں اس مستقل اور شدید فکر میں غرق تھی۔ میں نے تصور کرنا شروع کر دیا تھا کہ میں وہی کروں گی جو بہن کرے گی؛ میں اس کے پیچھے کھڑی ہو جاؤں گی اور اس کی حرکات کی نقالی کرنے لگوں گی۔ مگر میں اپنے آپ کو جانتی ہوں: میں نے خود کو خود پر حرف بہ حرف نقش کر رکھا ہے۔ میں کتنا ہی خود کو آمادہ کرنے کی کوشش کروں، کتنا ہی پہلے سے سوچ کر رکھوں، اصل صورت حال کا سامنا ہونے پر، فرش پر نظر گاڑے بےحرکت کھڑے ہوے، جبکہ میری پیشانی پر پڑے ہوے بل اَور گہرے ہو رہے ہوں گے، مجھے معلوم ہو گا کہ میں وہ سب کچھ بھول چکی ہوں جو میں نے طے کیا تھا۔ گو اس کے باوجود میں امید ترک نہیں کروں گی اور اپنے دہن سے ایک خفیف مسکراہٹ پیدا کرنے کی التجا ضرور کروں گی، جو، بہرحال، بےاثر ہی ثابت ہو گی۔
جب ٹیکسی ایک مکان کے دروازے کے سامنے رکی جہاں سرخ سنگی ستونوں پر دو شیر کھڑے تھے، تو میرا دل خوشی سے بھر گیا اور اندیشے میرے ذہن سے یک لخت محو ہو گئے۔ میں اس خیال پر مسرت سے مغلوب ہو گئی کہ امی ایک ایسے مکان میں رہ رہی ہیں جہاں صدر دروازے پر دو شیر کھڑے ہیں۔ میں نے بہن کی آواز سنی جو شیر کے دہاڑنے کی نقل اتار رہی تھی، اور رشک سے اس کی طرف دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اپنے پنجے پھیلا کر اشارے سے شیر کو گرفت میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے دل میں کہا: یہ ہمیشہ پیچیدگی سے آزاد اور خوش طبع رہتی ہے۔ اس کی خوش دلی کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی، انتہائی نازک لمحوں میں بھی نہیں۔ وہ میرے سامنے تھی اور ہونے والی ملاقات کے بارے میں ذرہ بھر فکرمند نہیں تھی۔
لیکن جب امی نے دروازہ کھولا اور میری نظر ان پر پڑی تو میں نے خود کو بےصبر اور بےتاب پایا اور دوڑ کر بہن سے بھی پہلے ان سے لپٹ گئی۔ میری آنکھیں بند ہو گئی تھیں اور میرے بدن کے جوڑ اس آسائش سے اتنے دنوں تک محروم رہنے سے سُن ہو گئے تھے۔ میں نے ان کے بالوں کی مہک سونگھی جو ذرا بھی نہ بدلی تھی، اور مجھ پر پہلی بار انکشاف ہوا کہ میں نے ان کی جدائی کو کس قدر محسوس کیا تھا اور، اس کے باوجود کہ ابا اور مریم ہمارا اتنا خیال رکھتے تھے، میں نے کس قدر چاہا تھا کہ وہ لوٹ آئیں اور ہمارے ساتھ رہنے لگیں۔ امی کی اُس وقت کی مسکراہٹ میرے ذہن سے محو نہ ہوتی تھی جب، ان کی خود پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا لینے کی دھمکیوں کے بعد اور مولوی کی دخل اندازی پر، ابا انھیں طلاق دینے پر رضامند ہو گئے تھے۔ میری تمام حِسیں ان کی خوشبو کے اثر سے کُند ہو گئی تھیں جو میرے حافظے میں اچھی طرح محفوظ تھی۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے ان کی جدائی کس قدر کھل رہی تھی، اس کے باوجود کہ جب وہ ہم دونوں کو بوسے دینے کے بعد، اپنے بھائی کے پیچھے تیز قدموں سے چلتی ہوئی، کار میں جا بیٹھی تھیں تو ہم دوبارہ گھر کے باہر گلی میں جا کر اپنے کھیل میں لگ گئے تھے۔ پھر جب رات آئی، اور ایک طویل عرصے بعد ہمیں امی کے ابا سے تکرار کرنے کی آواز سنائی نہ دی، تو ہمارے گھر پر امن اور سکون کی فضا چھا گئی جس میں صرف مریم کے رونے کی آواز مخل ہوتی تھی جو ابا کی رشتےدار تھی اور میری پیدائش کے وقت سے ہمارے ساتھ رہ رہی تھی۔
امی نے مسکراتے ہوے مجھے خود سے جدا کیا تاکہ بہن کو لپٹا کر پیار کر سکیں، پھر وہ مریم سے بھی بغلگیر ہوئیں جو رونے لگی تھی۔ امی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے اور میں نے انھیں مریم کا شکریہ ادا کرتے سنا۔ انھوں نے آستین سے آنسو پونچھے اور مجھ پر اور بہن پر سر سے پاؤں تک نگاہ ڈالی اور کہا: "اللہ انھیں اپنی امان میں رکھے، دونوں کتنی جلدی بڑی ہو گئی ہیں۔” انھوں نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور بہن نے ان کی کمر میں منھ چھپا لیا، اور جب ہمیں احساس ہوا کہ اس حالت میں چلنا ہمارے لیے دشوار ہے تو ہم سب ہنسنے لگے۔ اندر کے کمرے میں پہنچ کر مجھے یقین ہو گیا کہ امی کے نئے شوہر گھر میں موجود ہیں، کیونکہ امی نے مسکرا کر کہا، "محمود کو تم دونوں سے بہت محبت ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ابا تمھیں میرے سپرد کر دیں تاکہ تم ان کے بچوں کی طرح ہمارے ساتھ رہ سکو۔” بہن ہنسنے لگی اور جواب میں بولی، "اس طرح ہمارے دو ابا ہو جائیں گے۔” میں امی کے بازو پر ہاتھ رکھے ابھی تک گمشدگی کی کیفیت میں تھی، اور امی سے ملاقات کے لمحے میں اپنے بےساختہ برتاؤ پر نازاں تھی؛ کس طرح میں دوڑ کر ان سے لپٹ گئی تھی، جو مجھے ناممکن معلوم ہوتا تھا، اور کیسے آنکھیں بند کر کے انھیں چومنے لگی تھی۔ مجھے بلاکوشش، بندھے ہوے ہاتھوں کے ساتھ، اپنے آپ سے، شرم کے اس قیدخانے سے، رہائی پا لینے پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔
امی کے شوہر گھر پر نہیں تھے۔ میری نظر فرش پر پڑی تو میں اپنی جگہ پر جم کر رہ گئی۔ میں نے بےاعتباری کے عالم میں فرش پر بچھے ہوے ایرانی قالین کو گھورا، پھر امی پر ایک طویل نظر ڈالی۔ میری نظر کی معنویت کو نہ سمجھتے ہوے انھوں نے ایک الماری کھولی اور اس میں سے ایک کڑھی ہوئی قمیص نکال کر میری طرف اچھال دی۔ پھر وہ فرش عبور کر کے سنگھارمیز کے پاس گئیں اور اس کی دراز میں سے ہاتھی دانت کی ایک کنگھی نکال کر، جس پر سرخ رنگ سے دل کی تصویر نقش کی ہوئی تھی، انھوں نے بہن کو دی۔ میں نے ایک بار پھر امی کی طرف دیکھا، اور اس بار انھوں نے میری نگاہ کو نازک تمنا کا اظہار سمجھا۔ اس لیے انھوں نے مجھے بانہوں میں لے لیا اور بولیں، "تم ہر روز آ جایا کرو، تم جمعے کو پورے دن میرے گھر رہا کرو۔” میں ساکت رہی۔ میری خواہش تھی کہ میں ان کے بازو اپنے گردن سے ہٹا دوں اور اس گوری کلائی میں دانت گاڑ دوں۔ میں نے ملاقات کے لمحے کے مٹ جانے کی خواہش کی اور چاہا کہ وہ لمحے دوبارہ پیش آئیں تاکہ جب وہ دروازہ کھولیں تو میں وہی کروں جو مجھے کرنا چاہیے تھا — یعنی فرش پر نظر گاڑے بےحرکت کھڑی رہوں۔
اس ایرانی قالین کے رنگ اور خطوط میرے حافظے پر نقش تھے۔ میں اس پر لیٹ کر اپنا سبق یاد کیا کرتی تھی۔ میں اتنے قریب سے اس پر بنے ہوے نقوش کو تکتی تھی کہ وہ مجھے سارے میں پھیلی ہوئی تربوز کی قاشیں معلوم ہونے لگتے تھے۔ مگر جب میں مسہری پر بیٹھ کر اسے دیکھتی تو مجھے محسوس ہوتا کہ تربوز کی ہر قاش باریک دندانوں والی ایک کنگھی میں بدل گئی ہے۔ اس کے کناروں پر چاروں طرف بنے ہوے پھولوں کے گچھے اُودے رنگ کے تھے۔ گرمیوں کے شروع میں امی اس پر اور دوسرے عام قالینوں پر کیڑے مار گولیاں ڈال دیتیں اور ان سب کو گول کر کے الماری کی چھت پر رکھ دیتیں۔ کمرہ خالی اور ویران نظر آنے لگتا، یہاں تک کہ خزاں آ جاتی جب وہ قالینوں کو چھت پر لے جا کر پھیلا دیتیں۔ وہ کیڑے مار گولیاں چُنتیں جن میں سے اکثر گرمی اور نمی سے گھل چکی ہوتی تھیں، پھر چھوٹی جھاڑو سے ان کی صفائی کر کے وہ قالینوں کو چھت پر ہی چھوڑ دیتیں۔ شام کو وہ انھیں نیچے لا کر اپنی اپنی جگہ پر بچھا دیتیں۔ ان کے بچھنے سے کمرے میں دوبارہ جان پڑ جاتی اور میرا دل خوشی سے بھر جاتا۔ مگر یہ والا قالین کئی مہینے ہوے، امی کی طلاق سے پہلے، گم ہو چکا تھا۔ اسے چھت پر دھوپ دینے کے لیے پھیلایا گیا تھا، اور سہ پہر کو امی چھت پر گئیں تو غائب تھا۔ انھوں نے ابا کو آواز دے کر بلایا تھا اور میں نے پہلی بار ابا کا چہرہ غصے سے سرخ دیکھا تھا۔ جب وہ دونوں چھت سے نیچے آئے تو امی طیش اور تعجب کے عالم میں تھیں۔ انھوں نے پڑوسیوں سے دریافت کیا جن میں سے ہر ایک نے قسم کھا کر کہا کہ اس نے نہیں دیکھا۔ اچانک امی چلّا کر بولیں، "ایلیا!” سب لوگ خاموش کھڑے رہ گئے: ابا، بہن اور پڑوسی ام فواد اور ابوسلمان، کسی کے منھ سے ایک لفظ نہ نکلا۔ میں نے خود کو پکار کر کہتے ہوے پایا: "ایلیا؟ ایسی بات مت کہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔”
ایلیا ایک تقریباً نابینا شخص تھا جو محلے میں گھر گھر پھیری لگا کر بید کی کرسیوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ جب ہمارے گھر کی باری آتی تو میں اسکول سے واپسی پر اسے گھر کے باہر پتھر کی بنچ پر بیٹھا ہوا دیکھتی۔ اس کے سامنے بید کی لچھیوں کا ڈھیر پڑا ہوتا اور اس کے بال دھوپ میں چمک رہے ہوتے۔ وہ مہارت سے بید کے تار اٹھاتا اور وہ، مچھلیوں کی طرح تیرتے ہوے، جال کے اندر پھسلتے جاتے۔ میں اسے بےحد مشاقی سے ان کی گول گول لچھیاں بناتے اور پھر ان کے سرے باہر نکالتے دیکھا کرتی، یہاں تک کہ وہ کرسی کی گول نشست کو بُن کر پھر ویسا ہی درست کر دیتا جیسی وہ پہلے تھی۔ ہر چیز بالکل ہموار اور ٹھیک ہو جاتی: یوں لگتا جیسے اس کے ہاتھ مشین ہوں، اور میں اس کی انگلیوں کی پھرتی اور مہارت پر حیران رہ جاتی۔ جب وہ سر جھکائے مشغول بیٹھا ہوتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے وہ اپنی آنکھوں سے کام لے رہا ہے۔ ایک بار مجھے شک ہوا کہ وہ اپنے سامنے دھندلی شکلوں سے کچھ زیادہ دیکھ سکتا ہے، اس لیے میں اس کے سامنے گھنٹوں کے بل بیٹھ گئی اور اس کے لال گلابی چہرے پر نظر جما کر عینک کے پیچھے چھپی ہوئی آنکھیں دیکھنے میں کامیاب ہو گئی۔ ان آنکھوں میں ایک سفید لکیر تھی جو میرے دل میں چبھنے لگی اور میں جلدی سے بھاگ کر باورچی خانے میں چلی گئی جہاں مجھے میز پر ایک تھیلی میں کھجوریں پڑی ملیں اور میں نے ایک رکابی میں تھوڑی سی کھجوریں رکھ کر ایلیا کو دیں۔
میں نظر جمائے قالین کو گھورتی رہی اور سرخ چہرے اور سرخ بالوں والے ایلیا کی تصویر میری آنکھوں کے سامنے اُبھر آئی۔ مجھے اس کے کسی کی مدد کے بغیر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتے ہوے، زینے کے ہتھے پر اس کا ہاتھ محسوس ہوا؛ پھر میں نے اسے کرسی پر بیٹھتے ہوے محسوس کیا، اپنی اجرت طے کرتے ہوے، پھر جیسے وہ کھانا کھا رہا ہو اور اسے خودبخود پتا چل جائے کہ رکابی خالی ہو گئی ہے، آبخورے سے پانی پیتے ہوے جب پانی آسانی سے اس کے حلق میں اتر رہا ہو۔ ایک دوپہر کو، جب ابا کے سکھائے ہوے طریقے سے، کہ کیسے کسی مسلمان کے گھر پر دستک دینے سے پہلے بلند آواز میں اللہ کا نام پکارنا چاہیے کہ مبادا امی بےپردہ ہوں، وہ ہمارے دروازے پر آیا تو امی تیزی سے بڑھیں اور اس سے قالین کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے جواب میں کچھ نہ کہا، بس ایک سبکی سی لی۔ واپس جاتے ہوے اسے میز سے ٹھوکر لگی اور وہ پہلی مرتبہ الجھ کر گرا۔ میں اس کے پاس گئی اور ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔ وہ مجھے میرے ہاتھ کے لمس سے پہچان گیا ہو گا، کیونکہ اس نے نیم سرگوشی میں مجھ سے کہا، "کوئی بات نہیں، بچی۔” پھر وہ جانے کے لیے مڑا۔ جب وہ جھک کر جوتے پہن رہا تھا تو مجھے خیال ہوا کہ میں نے اس کے رخساروں پر آنسو دیکھے ہیں۔ ابا نے اس سے یہ کہے بغیر اسے جانے نہ دیا کہ "ایلیا! اگر تم سچ کہہ دو تو اللہ تمھیں معاف کر دے گا۔” لیکن ایلیا جنگلے کا سہارا لیے چلتا گیا۔ ٹٹول ٹٹول کر سیڑھیاں اترنے میں اس نے بہت وقت لگایا۔ پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا اور ہم نے اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔
Leave a Reply