معنی کی ترسیل پہ غور کیجیے تو اور زیادہ مسائل سامنے آتے ہیں۔ جیسا کہ میں اوپر بھی ذکر کر چکا ہوں کہ کہانی میں معنی گندھی ہوئی شکل میں ابھر تے ہیں، جبکہ معنی کی باطنی خصوصیات پہ غور کیا جائے تو یہ حالت میں ظاہری معلوم ہوتی ہے۔ لفظ کے معنی، پھر جملے کے معنی، پھر اقتباس کے معنی اور آخر میں کہانی کے معنی۔ یہ موٹی تفریق ہمیں بتاتی ہے کہ معنی کا نظام مقناطیسی انداز میں کام کرتا ہے۔ یعنی ایک معنی دوسرے معنی کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور اختتام میں یہ حالت ایک ٹھوس شکل اختیار کر رہی ہے۔ بظاہر یہ عمل آسان اور سہل ہے۔ مگر اصل اس میں اچھی خاصی معرکہ آرائی نظر آتی ہے۔ معنی کا تصادم کہانی کو کسی نہج پر سالم نہیں رہنے دیتا۔ مثلاً آپ کسی ایک لفظ کے معنی پہ غور کیجیے تو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ معنی تہہ در تہہ کام کرتے ہیں۔ ایک لفظ کے ایک معنی ہوتے ہیں، جو ایک اور معنی کو خلق کرتے ہیں جس کی تہہ میں ایک اور معنی بیٹھا ہوتا ہے اور جس کی وضاحت مزید کچھ معنی مل کر کرتے ہیں۔پھر یہ عمل بکھرتا چلا جاتا ہے۔
کہانی میں اس کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے تاکہ ہم کسی ایک زاویہ میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔ شاعری میں بھی معنی کا یہ تصادم کار فرما ہوتا ہے، مگر کہانی میں معنی کا یہ تصادم الفاظ کی بڑھت اور اس کی کھپت سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہاں میں کسی ایک لفظ یا جملے سے معنی کے تصادم کو بیان کر سکتا ہوں۔ مگر اس کی مزید توضیح کرنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ کسی مقدمے کو غائبانہ طور پر فرض کر لیجئے اور اس میں معنی کے تصادم کی تہوں کو محسوس کرتے جائیے۔ روایت یہاں بھی ایک مانع محرک کے طور پر کام کرے گی۔ حالاں کہ ہم اس امر سے واقف ہیں کہ تخلیق میں الفاظ کی حالتوں کو معنیاتی سطح پہ تبدیل کرنے کا چلن عام ہے، اس کے باوجود ہم کہانی میں اس عمل کو فراموش کر دیتے ہیں۔ کہانی کا بیانیہ سادہ ہو یا تہہ دار معنی کی کی ترسیل کا مسئلہ دونوں طرح کے بیانیوں میں ایک جیسا ہوتا ہے۔ لاٹھی سے سانپ اور سانپ سے زلف مراد لینے والا متن بھی کہانی کی سطح پہ معنیاتی نظام میں اتنا ہی پیچیدہ ہوتا ہے جتنا لاٹھی سے لاٹھی اور سانپ سے سانپ مراد لینے کا عمل ہے۔
معنی چونکہ ایک متحرک غیر وجودی حقیقت ہے اس لیے اس کا ہماری ذہنوں کی یکسانیت سے مطابقت پیدا کرنے کا عمل بہت الجھا ہوا ہے۔ کوئی سادہ بیانیہ اس ترسیلی عمل کو سمجھنے میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ہم معنی کی ایک جہت کو کل سمجھیں تو بھی اس بات کا امکان ہر صورت میں باقی رہتا ہے کہ وہ جہت ہماری تفہیم کے مطابق نہ ہو اور ہم جس معنی کو مراد لے رہے ہوں وہ یکسر غلط ہو۔ مثلاً آسمان یہ کسی بھی کہانی کے بیانیے میں ایک سادہ لفظ کی صورت میں ابھرے گا اور کہانی کی ترسیل میں اولاً اکہری معنویت خلق کرے گا۔ لیکن معنی کا ایسا نظام ہماری تفہیم کو متاثر کرنے کا سبب بنتا چلا جائے گا۔ اس سے استدلال کی سطح پہ ہم معنی کا کوئی مستحکم وجود خلق کرنے سے مبراہو جائیں گے۔ اس سے عمومی تفہیم وجود میں آئے گی جو تہہ دار معنی کو بھی اسی طرح تسلیم کرے گی جس طرح اکہری معنویت والے لفظ کوکرتی ہے۔
معنی کے نظام کی تہہ میں داخل ہونے والا ذہن یہ استفسار کرتا ہے کہ معنی کی عمومی تفہیم پہ سوالیہ نشان لگانے والی بصیرت ہر شئے کے باطن کو ایک مفروضہ سمجھ کر اس کی کھوج میں لگتی ہے اور عمومی تفہیم کے برعکس ایک صیقل اور معنی تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ کہانی میں اس کا عمل کسیر ہوتا ہے۔ میرا کہانی کی قرات کا تجربہ مجھے سکھاتا ہے کہ معنی کی ایسی ترسیل جس میں ہر معنی کو ایک مفروضے کے طور پر تسلیم کیا جائے، قاری، مصنف اور متن کو تین خانوں میں بانٹ دیتا ہے۔ یہ تجربے کی مختلف منزلوں کا معائنہ کرتا ہے اور اس کو مختلف حالتوں سے روشن کر کے کسی ایک اکائی کے بجائے مختلف اکائیوں کے ساتھ بیک وقت قبول کرتا ہے۔ شاعری میں ایسا نہیں ہو پاتا، کیوں کہ شاعری میں لفظ جس رفتار سے بہتے ہیں وہ اس کے نظام کو بڑی حد تک یک رخا کر دیتے ہیں، اس وقت تک تو یہ نظام ہر گز تبدیل نہیں ہوتا جب تک شاعر خود شعوری کوشش سے معنی کے نظام کو کہانی کے نظام کی طرح مزین نہ کرے۔ اس سے حاصل یہ آتا ہے کہ لفظ کی سطح پہ شاعری کی ترتیب تو وضع ہو جاتی ہے، لیکن معنی کی سطح پہ شاعری کا عمل کبھی وجود میں نہیں آتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ کہانی معنیاتی ترسیل میں شاعرانہ طرز اظہار سے مقدم ہے۔
اب ذرا معنی کے ایسے نظام پہ غور کیجیے جو کہانی کے متن کو دو مختلف سطحوں پہ بو قلمونی بخشتے ہیں۔ ایک نظام وہ جس میں لفظ معنی کے مرکز میں ہوتا ہے اور ایک نظام وہ جس میں لفظ معنی کے حاشیے پہ ہوتا ہے۔ ہم نے اور آپ نے ایسی بہت سی کہانیاں پڑھی ہوں گی جس میں لفظ کی تکرار سے ایک دلکش تصویر تو بنتی ہے مگر معنی ندارت ہوتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ معنی ہماری گرفت میں نہیں آ پاتے۔ پھر ہم ایسے متن کے دام میں پھنستے ہیں جس میں لفظ اور معنی ایک تصویر وں کا جال بناتے ہیں اور کہانی کی ترسیل ہو جاتی ہے۔ ایسی قرات سے آپ بتدریج ارتقا کرتے ہوئے جب ابہام کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو معنی کا نظام پھیلے ہوئے سمندر کی مانند وسیع نظر آتا ہے، جس میں کوئی سطح نہیں ہے جس پر پیر جمائے جا سکیں۔ لفظ حاشیے پہ پڑا ہوتا ہے اور قاری متن کے اندر بہنے والے معنی کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں کئی ہم خود بہت سے کچے تودے تشکیل دیتے ہیں اور کہانی کے معنیاتی نظام کو اپنے تجربات سے مزین کرتے ہیں۔ معنی کی ترسیل کا عمل اس امر میں منقلب ہو جاتا ہے، یعنی معنی کی ترسیل ہم پہ نہیں ہوتی بلکہ ہم معنی کو ایک ارسال بخشتے ہیں۔ لفظ کی حیثیت کو یکسر نظر انداز کر کے۔ دوسری حالت میں لفظ کی اہمیت کو ہم اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ معنی کی ترسیل کا عمل وجود میں ہی نہیں آتا، ایسی حالت میں ہم لفظوں کی تکرار سے محظوظ ہوتے ہیں۔ سادہ بیانیے میں ایسا ہونے کا گمان بہت زیادہ ہوتا ہے بمقابلہ پیچیدہ بیانیے کے۔ معنی کے ساتھ ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ آپ اسے کوئی صورت عطا نہیں کر پاتے، کیوں کے یہ تصویر کے اند ر سفر کرتی ہے۔ لفظ کے ساتھ یہ آسانی ہے، بلکہ اسے میں چھلاوا کہوں تو زیادہ بہتر ہے کہ لفظ کو آسانی سے قبول کرتے وقت ہم یہ بھول جانے میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے کہ اس کے پس منظر میں جو تصویر ابھر رہی ہے آیا وہ حقیقت سے کچھ مطابقت رکھتی بھی ہے یا نہیں اور پھر ایسے الفاظ جس کے مرقوموں میں کئی تصاویریں یکجا ہو جاتی ہیں یا جن کی تصویریں دھندلی ہوتی ہیں ہم انہیں ایک آسان پیکر عطا کر کے قبول کر لیتے ہیں۔ کسی کہانی میں ترسیل کا اس سے بڑا المیہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس کے بنیادی نکات کو نظر انداز کر کے اس کی ایک من چاہی تصویر بنائیں اور اسے خود پر اس طرح روشن کریں جس طرح ہم اس تصویر کو روشن کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ہم عمومی باتوں یا سیاسی و تاریخی مقدمات میں بھی ایسا کرتے ہیں، مگر ادب میں اس کی گنجائش اس لیے نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس میدان میں حقیقتوں کو تبدیل کرنے سے کسی بھی نوع کا کوئی نفع حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ہم کہانی کے سچے قاری ہیں تو مقدمات کی من چاہی ترسیل کے بجائے اس کی حقیقت اور تنوع سے اپنا رشتہ قائم کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔ تاکہ متن کی ترسیل کے دوبنیادی نکات لفظ اور معنی کی ترسیل میں مانع ہونے والے مسائل سے شناسائی حاصل ہو جائے۔پھر اس کے بعد ایک بڑا مسئلہ جو کہ جملے کی ترسیل کا مسئلہ ہے اس کو بھی کم نہ آنکا جائے۔ جملہ ایک مقدمہ ہوتا ہے جو کہانی میں بیشتر ترسیل کی کلید ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم لفظوں کے مجموعے سے کسی ایسی ترسیل تک پہنچنے میں ناکام ہو رہے ہیں جو متن کے مقاصد ارسال سے وابستہ ہے تو ہم کہانی کی ایک ایسی توضیح تک پہنچ جاتے ہیں جس کا امکان بھی کہانی میں دور دور تک نہیں ہوتا ہے۔
جملہ بھی ایک اکائی ہے۔ ظاہر ہے کہانی میں جملے کا ایک اہم مقام ہے۔ اگر کوئی جملہ آپ سے تقاضہ کرتا ہے کہ اس کی ترسیل اس طرح ہو کہ آپ کسی خاص معنی تک پہنچیں تو اس کے لیے مصنف کچھ خاص قسم کی لفظیات کا استعمال کرے گا تاکہ آپ کی ترسیل میں کوئی امر مانع نہ آئے، لیکن اگر کسی جملے کواس خیال کے تحت مزین نہ کیا گیا ہو تو ترسیل کے لیے قاری آزاد ہوتا ہے، ایسی حالت میں قاری اس پس منظر میں کسی جملے کی ترسیل کے عمل سے گزرتا ہے جو پس منظر کہانی کی فضا قائم کرتی ہے۔ کہانی میں پہلے جملے سے آخری جملے تک ترسیل کی اس اکائی کو ہم انجانی حالت میں خاصہ اہم تصور کرتے ہیں یہ واحد ایسا دائرہ ہے جس میں کہانی اپنی وحدت کی پابند بھی ہوتی ہے اور آزاد بھی۔ جملے کی ترسیل کا عمل ہماری قرات کی مشق سے بڑی حد تک سنورتا ہے۔ ہم جس جملے سے کیا معنی مراد لے رہے ہیں اور لفظ و معنی کی ایک پر کیف تکرار ہمیں کس نہج پر لے جارہی ہے اس کا فیصلہ قاری کے غیر محسوس تجربات کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر کہانی میں کوئی جملہ ایسا ہے جس کی ترسیل یکبارگی نہیں ہو پار رہی ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مصنف نے کہیں کسی ایسی شکل کو وضع کیا ہے جو ہمارے لیے بالکل نئی ہے۔ معنی خیز جملے اور سادہ جملے کی تفریق اس امر میں بھی داخل نظر آتی ہے۔ سادے جملے اپنی ترسیل کے لیے پس منظر کے محتاج ہوتے ہیں اور تہہ دار یا معنی خیز جملے کہانی میں تخلیقیت کے ایسے دائرے بناتے ہیں جس سے اس کی وقعت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہم کیا کہنا چاہتے ہیں اس کا تعین جملہ کرتا ہے، مگر قاری کیا مراد لے گا اس کا تعین تجربات کرتے ہیں۔ ترسیل کے عمل میں اسے نامیاتی محرکہ بھی کہا جا سکتا ہے۔تخلیق قار جو کہ جملے کی اولین ترسیل کا پیکر ہوتا ہےوہ اس کا مجاز نہیں ہوتا کہ کسی جملے کو قاری تک بھی اسی طرح پہنچا دے۔ الفاظ کی کھپت جملے میں جتنی زیادہ ہو گی اس کا امکان اتنا ہی زیادہ بڑھتا چلا جائے گا کہ قاری یا سامع جملے سے ایک نئی دنیا خلق کر رہا ہے، وہ دنیا جس کا تصور مصنف کے ذہن میں یا تو قطعی موجود نہ تھا یا اگر تھا بھی تو ایک ایسی لا شعوری حالت میں جس کا احساس اسے اس وقت ہوگا جب اسے قاری اپنے ترسیل کے تجربے سے آگاہی بخشے گا۔ نامیاتی ترسیل قاری سے بھی اس امر کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مصنف سے بڑی حد تک مختلف ہو تبھی کوئی مرقومہ اس کی بصیرت میں ایک نئے جہان کا تانا بانا بنے گا۔ ایک حالت میں پائی جانے والی دو مختلف بصیرتیں کسی متن سے کافی حد تک یکساں معنی مراد لے سکتی ہیں، مگر ان میں بھی ایک اختلاف پایا جائے گا جو انسانی وجدان سے متعلق ہوتا ہے۔ یعنی سورج کو سورج تصور کرنا ایک عمومی جواز ہے لیکن کسی جملے میں لفظ سورج کو سورج تصور کرنے کا جواز دو یکساں حالتوں کی بصیرتوں میں بھی اختلاف پیدا کر سکتا ہے۔ چونکہ الفاظ کی کثرت سے معنی کی سطح پر مرقومے میں ایک لوچ پیدا ہوتا ہے جو ترسیل کے عمل کو گنجلک بنا دیتا ہے۔ جس میں چھوٹے چھوٹے محرکات کام کرتے ہیں۔ جن میں رنگوں کے نام، خوشبووں کے احساس، دماغی حالتوں کے بیان اور اسی طرح کی مختلف النوع چیزیں کچھ ایسی ڈھلانیں تراشتی ہیں جس سے معنی مختلف خانوں میں فٹ ہو کر قاری تک پہنچتے ہیں۔ ایک بصیرت افروز قاری ہمیشہ ایسی مختلف خانوں سے آگاہی حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے اور کسی جملے کی ترسیل کے گراف کو اپنی امکانی صلاحیتوں سے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔
اب ذرا اس مسئلے پہ غور کیجیے کہ مصنف کا رشتہ ترسیل سے کس نوع کا ہوتا ہے، کیا کوئی مصنف جو کہانی خلق کرتا ہے وہ ان مسائل پہ غور کرے گا کہ اس کی لکھی ہوئی کہانی کے، لفظ اور معنی اور جملے اور اقتباسات اور مکمل کہانی کی ترسیل قاری پہ کس طرح ہو گی؟ میرا ذاتی تجربہ کہتا ہے کہ مصنف خود ترسیل کے الجھاوے میں پھنسا ہوتا ہے، اس امر سے واقف ہوئے بنا یا اس امر کے متعلق غور کرنے سے قاصر ہوتے ہوئے کہ قاری پر اس کے متن کی ترسیل کس طرح ہو گی۔ مصنف کی ترسیل کا مسئلہ ایک ایسے واقعاتی سوتے سے وابستہ ہوتا ہے جہاں سے اس کے امکان میں کہانی داخل ہوتی ہے۔ یقیناً کہانی کوئی ایسی شئے نہیں جو کسی جامد حالت میں ذہن پہ روشن ہو جائے، یہ ایک جزوی حالت میں اترتی ہے، جس کی ترتیب میں مصنف ایک محرکہ کی شکل میں کام کرتا ہے۔ ترسیل کا الجھاو مصنف کو اپنے فسوں سے سب سے پہلے واقف کروا دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کہانی کا کون سا حصہ اس کی گرفت میں آیا ہے اور کون سا حصہ اسے اپنے معلوم بیانیے سے خلق کرنا ہے۔ کہانی ایک ادھوری یا یوں کہا جائے کے منتشر حالت میں ارسال ہوتی ہے۔ مصنف اس کو مکمل کرتا ہے اپنی اخذ کرنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر۔ اگر کوئی واقعہ جو ایک ایسی حالت میں مصنف کی بصیرت تک پہنچا ہے جس کے حشو و ضوائد خود اسے تراشنا ہیں تو اس میں مصنف کسی دوسرے واقعے سے مدد لیتا ہے۔ ایسے میں وہ دو ترسیلی حالتوں کو جمع کر کے کہانی کو ایک اکائی کی صورت عطا کرتا ہے۔ وجدان کے ذریعے ارسال ہونے والا نکتہ یا واقعہ کہانی کو ایک مجموعی صورت عطا کرنے کا بیشتر سامان مہیا کرتا ہے، مگر ہمیں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تخلیق کار ایک ذریعہ ہے جوغیر وجدانی علامتوں کا سہارا لیے بنا کسی بھی کہانی کی بنت کے عمل سے نہیں گزر سکتا۔ کہانی میں ترسیل کی کے المیے کا احساس اس کے لیے انفرادی نوعیت کا ہوتا ہے، خالق یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے کہانی ایک ایسی حالت میں آگے پہنچانی ہے جس میں ایک معنیاتی نظام وضع کیا گیا ہو۔ لہذا یہ عمل اس کا شعوری عمل ہوتا ہے جس میں وجدان کو دخل نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں ان دونوں صورتوں کا احساس مصنف کے لیے دوطرفہ ترسیل کے المیے کو وجود میں لاتا ہے، پہلا یہ کہ وہ خود اس بات کو سمجھے کہ کہانی کن حالتوں میں اس تک پہنچ رہی ہے اور دوسرا یہ کہ وہ متن کی بساط تک پہنچنے کا عمل کس انداز میں پورا کر رہی ہے۔ کیوں کہ اپنی کہانی کا پہلا قاری خود مصنف ہوتا ہے اس لیے۔ قاری کی الجھنوں سے بھی یک گنا وابستگی اسے ہوتی ہے۔ مگر بصیرتوں ایسا الجھاو جو عمومی ہوتا ہے اس کا ادراک کسی مصنف کے لیے مسئلہ نہیں بنتا اور شائد بننا بھی نہیں چاہیے۔ میرا تجربہ مجھے بتاتا ہے کہ اگر مصنف یہ غور کرنے لگے کہ اس کی تخلیق کردہ کوئی کہانی کن حالتوں میں قاری تک پہنچے گی تو شائد وہ لکھنا ہی ترک کر دے۔ یہ مصنف کا مسئلہ نہیں۔ قاری کے لیے ترسیل کی الجھن مصنف پیدا کر دے یہ بھی مصنف کی کامیابی ہی ہوتی ہے۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ بہت سی کہانیاں اس نوع کی ہوتی ہیں جن میں خود مصنف قاری کے لیے ایک الجھن پیدا کر دیتا ہے کہ آیا کسی متن کی ترسیل کس جذبے کے تحت ہو۔ ایسی حالت میں قاری پہ کیا گزرتی ہے اس سے مشاق مصنف اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ کہانی میں الجھاو پیدا کرنا۔اس میں بصیرتوں کے ایسے نکات جمع کر دینا جن سے باتیں وجود میں آئیں، وہ بھی مختلف المزاج یہ مصنف کی مہارت کا ثبوت ہے۔ وہ ترسیل کے الجھاو سے نکلتے ہی ایسی الجھن متن کے باطن میں پھونک دیتا ہے جس سے متن مختلف معنیاتی ترسیلوں سے مزین ہو جا تا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ مصنف جہاں دیدہ ہو اور مختلف تجرباتی اور نفسیاتی حالتوں سے آگاہ۔