یہ اس مضمون کا دوسرا حصہ ہے، پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔
بشریات کے ماہر اس بات پہ متفق ہیں کہ معاشرتی اقدار اور ڈھانچے ہی دراصل یہ طے کرتے ہیں کہ لوگ آپس میں پیدا ہونے والے جھگڑوں اور اختلافات کیسے نپٹائیں گے چناچہ قانون کی نظر میں برابری کے تصورات کی موجودگی کے باوجود پاکستانی معاشرے کے سماجی ڈھانچے اور اس کے ساتھ وابستہ معاشی پیداواری رشتوں کو سمجھنا نہایت ضروری ہے جو مغربی قانون کے تحت دیے گئے انفرادی حقوق کی بجائے مقامی سماجی نظام کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے تحت ’انصاف ‘ کی فراہمی کا باعث بنتے ہیں ۔پاکستانی معاشرہ برادری ، قبیلے اور ذات کی بنیاد پر قائم معاشرہ ہے جو نسب کی بنیاد پر سماجی درجہ بندی کر کے خود کو مختلف خاندانوں ذاتوں اور طبقوں میں تقسیم کرتا ہے چنانچہ پاکستانی معاشرہ میں عزت کا تصور یقینی طور پریورپی معاشروں سے مختلف ہے کیوں کہ پاکستانی معاشرہ contract based معاشرے کی بجائے ایک status based معاشرہ ہے۔ اس فرق کو سماجی تبدیلی کیلئے سنجیداور مثبت کوشش کرنے والوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔
سماجی ڈھانچے وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی معاشی تبدیلیوں کے زیرِ اثر خود کو ڈھالتے ہیں جس کی ایک بہت بڑی مثال یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد عورتوں کا معاشی اور سماجی طور پر بلند ہوتا ہوا رتبہ ہے جبکہ پاکستان میں آج بھی عورت غیر رسمی شعبے ( Informal sector) میں افرادی قوت کا اسی فیصد حصہ ہونے کا باوجود اپنی زندگی کے بنیادی فیصلے کرنے میں آزاد نہیں، اس تاریخی دوئی کا شجرہ نسب جاننے کیلئے بھی ہمیں تاریخ ہی کے سمندر میں اترنا پڑے گا۔ موجودہ پاکستان میں روایتی پدرسری اور عوت دشمن سماجی تشکیل کے باقی رہ جانے کی ایک بڑی وجہ ان علاقوں میں نوآبادیاتی دور میں مقامی معاشرتی روایات کو برقرار رکھنے کا سرکاری لائحہ عمل ہے۔ پنجاب اور سندھ بالترتیب 1849 اور 1843 میں نوآبادیاتی نظام کا حصہ بنے تاریخی طور پر باقی ہندوستان کے بالمقابل یہ دونوں صوبے تاخیر سے برطانوی قبضے میں آئے اور اسی وجہ سے جنوبی ہندوستان کی نسبت نوآبادیاتی نظام کا سماجی اور سیاسی بندوبست معیاری سطح پر مختلف رہا،یقیناً1857 کی جنگِ آزادی نے بھی اس اختلافی بندوبست کی ضرورت کو نئے حکمرانوں کی نظر میں اہمیت بخشی۔برطانوی راج کو اپنی بقا کے لیے جہاں جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع آمدورفت کی ضرورت تھی وہیں ایک وفادار مقامی طبقہ سیاسی استحکام کیلئے ضروری تھا اس تاریخی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے نوآبادیاتی ایڈمنسٹریٹرز نے نئے نظام کو آراستہ کرنے کیلئے نوزائیدہ سماجی علوم ( عمرانیات اور بشریات) سے بھرپور مدد لی۔نوآبادیاتی نظام حکومت کو مقامی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے معاشرے کی ایسی سماجی ساخت کو پروان چڑھایا گیا جو کہ راج کی تمام ضرورتوں کو بخوبی پورا کر سکے سیاسی اور معاشی امور میں تسلسل کیلئے تو برطانوی فوجداری اور دیوانی قوانین لاگو کیے گئے جبکہ معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے ’روایتی‘ قانون کی ایک جدید شکل کو نافذ کیا گیا ۔ اکثرتاریخ دانوں کے برعکس عمران علی لکھتے ہیں
’ پنجاب میں برطانوی راج کا نہری نوآبادیات کا تجربہ سماجی انجینیئرنگ کی ایسی مثال ہے جس میں ایک مخصوص رجعت پسندی پر مبنی سماجی اور سیاسی ڈھانچہ پنجاب پر مسلط کر کے اس کے سماجی ارتقاء پر ایک بند باندھ گیا‘
(صفحہ- 58، حوالہ نمبر 2)
Gilmartin اس سماجی ڈھانچے کی بابت لکھتے ہیں؛
’انہوں (نوآبدیاتی ریاست) نے ریاستی اتھارٹی کو ایک ایسی مقامی سماجی تنظیم کے ڈھانچے کے ساتھ استوار کیا ،جس کی وضاحت اور تعمیر،برطانوی سماجیات کے تحت ریاست نے خود کی تھی۔چناچہ پنجاب کے’روایتی‘ ڈھانچے کا تحفظ ہی دراصل اس امپیریل ریاست کے قائم رہنے کا بنیادی اصول اور جواز بن گیا‘( حوالہ نمبر -3)
اس روایتی قانون کے تحت برادریوں کی ایک ایسی درجہ بندی کی گئی جس میں عوام کو زمیندار اور غیر زمیندار برادریوں میں تقسیم کر کے سماجی نابرابری کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا(تفصیلات کیلئے دیکھئے land alienation act) اگرچہ تاریخی طور پر پنجابی اور سندھی معاشرہ کسی بھی طور مثالی مساوت کا نمونہ نہیں رہا تاہم پہلی بار ذاتی ملکیت، جدید ریوینیو سسٹم ،نقد آور فصلوں کی کاشت اور عالمی مارکیٹ کے ساتھ مقامی معشیت کی جڑت سے جو سماجی اور سیاسی تبدیلیاں بقیہ ہندوستانی صوبوں (مثلا بنگال،مہاراشٹر اور مرکزی صوبوں) میں آئیں پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقے اس تبدیلی کا حصہ نہیں بن سکے۔
بشریات کے ماہر اس بات پہ متفق ہیں کہ معاشرتی اقدار اور ڈھانچے ہی دراصل یہ طے کرتے ہیں کہ لوگ آپس میں پیدا ہونے والے جھگڑوں اور اختلافات کیسے نپٹائیں گے چناچہ قانون کی نظر میں برابری کے تصورات کی موجودگی کے باوجود پاکستانی معاشرے کے سماجی ڈھانچے اور اس کے ساتھ وابستہ معاشی پیداواری رشتوں کو سمجھنا نہایت ضروری ہے جو مغربی قانون کے تحت دیے گئے انفرادی حقوق کی بجائے مقامی سماجی نظام کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے تحت ’انصاف ‘ کی فراہمی کا باعث بنتے ہیں ۔پاکستانی معاشرہ برادری ، قبیلے اور ذات کی بنیاد پر قائم معاشرہ ہے جو نسب کی بنیاد پر سماجی درجہ بندی کر کے خود کو مختلف خاندانوں ذاتوں اور طبقوں میں تقسیم کرتا ہے چنانچہ پاکستانی معاشرہ میں عزت کا تصور یقینی طور پریورپی معاشروں سے مختلف ہے کیوں کہ پاکستانی معاشرہ contract based معاشرے کی بجائے ایک status based معاشرہ ہے۔ اس فرق کو سماجی تبدیلی کیلئے سنجیداور مثبت کوشش کرنے والوں کے لیے جاننا ضروری ہے۔
سماجی ڈھانچے وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی معاشی تبدیلیوں کے زیرِ اثر خود کو ڈھالتے ہیں جس کی ایک بہت بڑی مثال یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد عورتوں کا معاشی اور سماجی طور پر بلند ہوتا ہوا رتبہ ہے جبکہ پاکستان میں آج بھی عورت غیر رسمی شعبے ( Informal sector) میں افرادی قوت کا اسی فیصد حصہ ہونے کا باوجود اپنی زندگی کے بنیادی فیصلے کرنے میں آزاد نہیں، اس تاریخی دوئی کا شجرہ نسب جاننے کیلئے بھی ہمیں تاریخ ہی کے سمندر میں اترنا پڑے گا۔ موجودہ پاکستان میں روایتی پدرسری اور عوت دشمن سماجی تشکیل کے باقی رہ جانے کی ایک بڑی وجہ ان علاقوں میں نوآبادیاتی دور میں مقامی معاشرتی روایات کو برقرار رکھنے کا سرکاری لائحہ عمل ہے۔ پنجاب اور سندھ بالترتیب 1849 اور 1843 میں نوآبادیاتی نظام کا حصہ بنے تاریخی طور پر باقی ہندوستان کے بالمقابل یہ دونوں صوبے تاخیر سے برطانوی قبضے میں آئے اور اسی وجہ سے جنوبی ہندوستان کی نسبت نوآبادیاتی نظام کا سماجی اور سیاسی بندوبست معیاری سطح پر مختلف رہا،یقیناً1857 کی جنگِ آزادی نے بھی اس اختلافی بندوبست کی ضرورت کو نئے حکمرانوں کی نظر میں اہمیت بخشی۔برطانوی راج کو اپنی بقا کے لیے جہاں جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع آمدورفت کی ضرورت تھی وہیں ایک وفادار مقامی طبقہ سیاسی استحکام کیلئے ضروری تھا اس تاریخی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے نوآبادیاتی ایڈمنسٹریٹرز نے نئے نظام کو آراستہ کرنے کیلئے نوزائیدہ سماجی علوم ( عمرانیات اور بشریات) سے بھرپور مدد لی۔نوآبادیاتی نظام حکومت کو مقامی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے معاشرے کی ایسی سماجی ساخت کو پروان چڑھایا گیا جو کہ راج کی تمام ضرورتوں کو بخوبی پورا کر سکے سیاسی اور معاشی امور میں تسلسل کیلئے تو برطانوی فوجداری اور دیوانی قوانین لاگو کیے گئے جبکہ معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے ’روایتی‘ قانون کی ایک جدید شکل کو نافذ کیا گیا ۔ اکثرتاریخ دانوں کے برعکس عمران علی لکھتے ہیں
’ پنجاب میں برطانوی راج کا نہری نوآبادیات کا تجربہ سماجی انجینیئرنگ کی ایسی مثال ہے جس میں ایک مخصوص رجعت پسندی پر مبنی سماجی اور سیاسی ڈھانچہ پنجاب پر مسلط کر کے اس کے سماجی ارتقاء پر ایک بند باندھ گیا‘
(صفحہ- 58، حوالہ نمبر 2)
Gilmartin اس سماجی ڈھانچے کی بابت لکھتے ہیں؛
’انہوں (نوآبدیاتی ریاست) نے ریاستی اتھارٹی کو ایک ایسی مقامی سماجی تنظیم کے ڈھانچے کے ساتھ استوار کیا ،جس کی وضاحت اور تعمیر،برطانوی سماجیات کے تحت ریاست نے خود کی تھی۔چناچہ پنجاب کے’روایتی‘ ڈھانچے کا تحفظ ہی دراصل اس امپیریل ریاست کے قائم رہنے کا بنیادی اصول اور جواز بن گیا‘( حوالہ نمبر -3)
اس روایتی قانون کے تحت برادریوں کی ایک ایسی درجہ بندی کی گئی جس میں عوام کو زمیندار اور غیر زمیندار برادریوں میں تقسیم کر کے سماجی نابرابری کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا گیا(تفصیلات کیلئے دیکھئے land alienation act) اگرچہ تاریخی طور پر پنجابی اور سندھی معاشرہ کسی بھی طور مثالی مساوت کا نمونہ نہیں رہا تاہم پہلی بار ذاتی ملکیت، جدید ریوینیو سسٹم ،نقد آور فصلوں کی کاشت اور عالمی مارکیٹ کے ساتھ مقامی معشیت کی جڑت سے جو سماجی اور سیاسی تبدیلیاں بقیہ ہندوستانی صوبوں (مثلا بنگال،مہاراشٹر اور مرکزی صوبوں) میں آئیں پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقے اس تبدیلی کا حصہ نہیں بن سکے۔
ہندوستان کی آزادی کی تحریک پر ایک طائرانہ نظر ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ پنجاب اور سندھ کے برعکس دوسرے صوبوں سے عورتوں کی نمائندگی کہیں زیادہ تھی۔
ہندوستان کی آزادی کی تحریک پر ایک طائرانہ نظر ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ پنجاب اور سندھ کے برعکس دوسرے صوبوں سے عورتوں کی نمائندگی کہیں زیادہ تھی۔ اس تناطر میں اگر دیکھا جائے تو یہ رائے قایم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ برطانوی راج کے دوران پدر شاہی بنیادوں پر ہونے والی سماجی تنظیم نو نے پاکستانی عورت کو با اختیار کرنے والے ان تمام سماجی مواقع کا گلہ گھونٹ دیا جو اس خطے کی دیگر عورتوں کو دوسری جگہوں پر میسر آئے۔اگرچہ 1937میں customary lawکوMuslim Personal lawسے تبدیل کر دیا گیا لیکن معاشرے کے سماج ڈھانچے جو استحصالی معاشی ڈھانچوں پر استوار تھے تبدیل نہ ہو سکے اور نہ ہی ان ڈھانچوں کے پس منظر میں موجود نظریاتی بنیاد کو چیلنج کیا جا سکا۔ یہی سماجی، سیاسی اور معاشی ڈھانچے تقسیم کے بعد پاکستان کو ترکے میں ملے اور پاکستانی حکمرانوں نے اس ترکے کو ترک کرنے کی بجائے سینے سے لگا لیا ۔شہری اور ریاست کے درمیان موجود رشتے کو برابری کی سطح پر قائم کرنے کی بجائے پرانے طرز حکومت کو بحال رکھا گیا جس کی وجہ سے ظاہری طور پر تو بہت کچھ بدلا لیکن بنیادی سماجی ڈھانچہ اور نظامِِ اقدار قائم رہا، نام نہاد ترقی تو بہت ہوئی پر انسانوں کی حالت مزید ابتر ہوئی،گدھا گاڑی سے میٹرو تک کے اس سفر میں ریاست نے ملک کا طبیعی چہرہ تو بدل ڈالا پر ذہنی کیفیات کو نہیں بدلا جا سکا اسی لیے صنفی اور مسلکی امتیاز، اونچ نیچ اور تفریق میں اضافہ ہوا ہے۔
مغربیت کے خلاف پیدا ہونے والی ایک عمومی رائے نے عورت مخالف عناصر کو مزید بڑھاوا دیا ہے اور رجعتی اداروں جیسا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودگی نے ملکی سطح پر عورتوں سے متعلق اصولی قانونی تبدیلی کو بہت حد تک خارج از امکان قرار دیا جا سکتا ہے۔
روایتی قانون میں جہاں پہلے ہی عزت کو عورت کی جنسیت (Sexuality) سے منسلک کر کے دیکھا جاتا ہے اسلامی بنیاد پرستی کی لہر اور ریاست کی سرپرستی نے صورتحال کو عورتوں کیلئے مزید پیچیدہ کر دیاہے۔ مغربیت کے خلاف پیدا ہونے والی ایک عمومی رائے نے عورت مخالف عناصر کو مزید بڑھاوا دیا ہے اور رجعتی اداروں جیسا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودگی نے ملکی سطح پر عورتوں سے متعلق اصولی قانونی تبدیلی کو بہت حد تک خارج از امکان قرار دیا جا سکتا ہے۔اگرچہ نعروں کی حد تک تو پارلیمنٹ قانون سازی میں آزاد ہے لیکن اسٹیبلیشمنٹ جو برطانوی راج کا ہی تسلسل ہے، کی پشت پناہی کے باعث پاکستانی غیرت بریگیڈ ایسی کسی بھی قانونی کوشش کو کامیابی سے ناکام بناسکتی ہے۔ایسے میں خواتین ارکان کی پارلیمنٹ میں تعداد بڑھانے سے ، خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے تھوک کے حساب سےNGOsکھولنے سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔ سیاسی کنٹرول کیلئے بنائے گئے سماجی ڈھانچوں کو ایک سیاسی جدوجہد سے ہی اکھاڑا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے تمام سیاسی جماعتیں خواتین کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہیں، شاید ایسے کسی مسئلے کی انتخابی سیاست میں کوئی گنجائش موجود نہیں اور شاید یہ معاملہ تبدیلی کے علمبرداروں کا بھی مطمع نظر نہیں ایسے میں ساحر صاحب کا بین تمام پاکیزہ اسلامی غیرت مندوں کی توجہ کا منتظر ہے:
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی!
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی
ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
[spacer color=”BCBCBC” icon=”fa-times” style=”2″]
کتابیات
-
Chaudhary, Azam.”The Rule of Law Problems in Pakistan: An Anthropological Perspective of the Daughter\’s Traditional Share in the Patrimony in the Punjab”, Pakistan Journal of History & Culture February 30, 2009.
-
Ali, Imran. The Punjab under imperialism, 1885-1947. Princeton: Princeton University Press, 1988.
-
Gilmartin, David. Empire and Islam: Punjab and the making of Pakistan. Berkeley: University of California Press1988
عورت کے معاشرے میں مقام کا تعین کرتی اور معروضی حیثیت میں حقائق کا بیان کرتی عمدہ تحریر۔ یقینا عورت آج معاشرے میں ابتری کا شکار ہے ۔ وہ اگر معاش میں حصہ بانٹ رہی ہے تو بھی یا اکیلی گھر کی کفالت کر رہی ہے پھر بھی معاشرے اور خاندان کی عزت کے نام پہ لگائی گئی پابندیوں کو بھی برداشت ہی نہیں کرتی بلکہ بعض اوقات غلط فہمی یا کسی جذباتی لغزش کی صورت میں عبرت انگیز انجام کا شکار بھی کردی جاتی ہے۔
اس تحریر کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ ہم پہ سوچ کے در وا کر رہی ہے کہ عورت کے اس مقام کی جڑیں کہاں پیوست ہیں۔ ہم نے مسلمان حکومتوں میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ فیصلوں میں شریک پایا ہے۔ حسن و عشق کی داستانیں بھی ہمارے معاشرے کا حصہ رہی ہیں جن میں زنانہ کرداروں کی لازوال محبت کو احترام کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔ ہمارے ہاں فلمیں اب تک شوق سے دیکھی جاتی ہیں جن میں محبت کرنے والی لڑکی کو بھی عوام میں نا صرف پسندیدگی ملتی ہے بلکہ فلم کے اختتام تک سب پورے ذوق و شوق سے دو دلوں کے ملن کے منتظر ہوتے ہیں تو حقیقی زندگی میں کیوں ایسی ہی صورت حال میں مرنے مارنے پہ تل جاتے ہیں۔ اس سوال کی کھوج یقینا ضروری ہے تاکہ اس مسئلے سے نمٹا جاسکے۔